بچوں کو'منفرد' بنانے والی والدین کی بہترین عادات
یمنیٰ کی شادی پر سب خوش تھے، سوائے یمنیٰ کے، ان کی شادی ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی، ساس بہت سخت اور سسر اپنے کہے کو حتمی سمجھنے والے شخص تھے۔ لیکن یمنیٰ کے لیے سب سے بڑا امتحان ان کا شوہر تھا۔
خاندانی مزاج کے مسائل تو تھے ہی، اصل مسئلہ یہ تھا کہ روزگار کے غم اسے ملک سے دور ایک خلیجی ریاست لے گئے، برسوں شوہر کے بغیر سخت مزاج سسرال میں ڈھیروں کام کرتے ہوئے گزار دینا ایک ایسا امتحان تھا جس سے یمنیٰ کو مسلسل گزرنا ہوتا تھا۔
اس دوران سب سے خوشگوار لمحات وہ ہوتے جب ان کا شوہر چھٹی پر چند مہینوں کے لیے ملک واپس آتا، روزگار کمانے کی سختیوں نے شوہر کو نرم مزاجی اور عاجزی عطا کر دی تھی، یوں یمنیٰ کو اپنے متحان کے مثبت نتائج ملنے شروع ہوگئے۔
سسرال بھی جیسے سختی کرتے کرتے تھک سے گئے تھے لیکن اس سے بڑھ کر یمنیٰ کی بہترین حکمت عملی نے اسے گھر بھر میں بنیادی اہمیت دلوا دی تھی، تمام بنیادی فیصلے اور کام آہستہ آہستہ یمنیٰ کے ذمے آتے گئے اور وہ گھر کی منتظم بن گئیں۔
ان سب باتوں میں بنیادی بات یمنیٰ کی وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے یمنیٰ کو لاکھوں دیگر لڑکیوں سے منفرد اور خوبصورت دل کی مالک شخصیت بنایا تھا، یعنی اس کے ماں اور باپ کی جانب سے دی گئی تربیت۔
یمنیٰ نے ہوش سنبھالتے ہی اپنی ماں کو ایک سخت ماحول میں گھر کو سنبھالتے، کم آمدن کے ساتھ اخراجات کو خوش اسلوبی سے کرنے اور ایک بڑے گھر کی سختیوں و ترشیوں کو ہنسی خوشی برداشت کرتے دیکھا۔
یمنیٰ کی مشکلات شاید ان مسائل کا 10 فیصد بھی نہیں تھی جن سے یمنیٰ اور اس کے بہن بھائیوں نے اپنے والدین کو گزرتے دیکھا تھا، خوبصورت دل اور خوبصورت شخصیت اس کے لیے صرف 'باتیں' نہیں بلکہ 'چلتے پھرتے 'رول ماڈلز' تھے۔
والدین چاہتے ہیں ان کا بچہ سب سے 'اچھا' انسان بن جائے، سب سے خوبصورت دل کا مالک بن جائے، سب سے کامیاب ہوجائے، لیکن اس کے لیے ان کی واحد حکمت عملی لیکچر دینا، اچھی باتیں بتانا، نصیحتیں دینا اور گفتار کے غازی بننا' ہوتی ہے، لیکن عملی حقیقت اس سے بالکل الٹ ہوتی ہے۔
والدین اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں، نہ کہ وہ خوبصورت دل کا مالک بننے کی اور نہ ہی کامیاب شخصیت بننے کی محنت کرتے ہیں۔
والدین کے پاس یقیناً دنیا کی سب سے اچھی نصیحت ہو سکتی ہے کہ کیسے دوسروں کے ساتھ رویہ رکھا جائے، کیسے مشکلات کے درمیان جذبے سے بھرپور اور مایوسی سے دور رہا جائے یا یہ کہ کیسے بری عادات آپ کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس 'نصیحت' کا اثر بچوں پر شاید ہی کبھی ہو سکے، اگر والدین خود سے ان تمام 'اچھی باتوں' پر عمل نہ کر رہے ہوں۔
اکثر والدین اپنے بچوں کو اچھے کام کرنے کا کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن خود سے ایک رول ماڈل کے طور پر کر کے نہیں دکھا رہے ہوتے،'
امریکی ریاست ہیوسٹن سے تعلق رکھنے والی تعلیمی نفسیات اور پیرنٹنگ کی ماہر ڈاکٹر ریچیل ویٹاکر بتاتی ہیں کہ 'بدقسمتی سے بچے والدین کی 'گفتار' کے بجائے ان کے 'کردار' سے اثر قبول کرتے ہیں اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اچھے اور صحت مند رویے، مثلا دوسروں سے رحم دلی سے پیش آنا، اپنائیں تو اس کے لیے والدین کو اپنے رویے سے 'ماڈل' بننا پڑے گا۔'
والدین کے لیے کوئی سب سے اچھی نصحیت ہو سکتی ہے تو وہ‘Parenting by leading’ ہی ہو سکتی ہے۔
ویسے تو زندگی کا ہر گوشہ، ہر کام اور ہر موقع رول ماڈل بننے کا متقاضی ہوتا ہے لیکن چند بنیادی دائرے درج ذیل ہو سکتے ہیں۔
1۔ زندگی کو کسی بڑے روحانی و فکری مقصد سے جوڑنے پر وقت صرف کرنا اور بچوں کو اس حوالے سے فیڈ بیک کے ذریعے ذہنی طور پر تیار کرنا
2۔ عملی زندگی میں 'خوب سے خوب تر' یعنی Excellence کے رویے کے لیے ذہنی، جذباتی اور عملی عادات کو اپنانا، اب عملی زندگی کسی خاتون کا گھریلو خاتون ہونا بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے گھر اور بچوں کو اس انداز میں لے کر چلے کہ جو دیکھے وہ رشک کر اٹھے۔
3۔ دوسروں سے نرمی اور محبت کے رویے کو عملی طورپر کر کے دکھانا، مشکل لوگوں اور تعلقات کو کیسے نبھانا ہوتا ہے، نقصان پہنچاننے والے لوگوں اور رویوں سے کیسے بچانا ہے یہ سب آپ کو عملی رول ماڈل بن کر سکھانا ہوگا۔
4۔ صحت مند لائف اسٹائل، عادات اور رویے اپنا کر کیسے زندگی کو خوشگوار اور پر سکون بنایا جا سکتا ہے، اسے 'عملی' طور پر کر کے دکھائیں۔
فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کونسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے ساتھ [email protected] اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں