خطے میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے وزیراعظم سعودی عرب روانہ
وزیراعظم عمران خان خلیجی ریاستوں میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایران کے بعد آج سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہوگئے۔
دفتر خارجہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان سعودی قیادت سے ملاقات میں دیگر رہنماؤں سے ہونے والی حالیہ مشاورت پر بات چیت کریں گے، اس کے علاوہ دوطرفہ تعلقات اور خطے میں ہونے والے دیگر معاملات بھی اس ملاقات کا موضوع ہوں گے۔
واضح رہے کہ یہ رواں سال میں عمران خان کا سعودی عرب کا تیسرا دورہ ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی ایک مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایران، سعودیہ تنازع سے خطے میں غیرمعمولی غربت بڑھے گی، عمران خان
قبل ازیں اتوار کو وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر تہران پہنچے تھے، جہاں انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں خطے میں امن کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے تہران میں کہا تھا کہ 'ماضی میں پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کی میزبانی کی تھی اور اب دوبارہ خواہش ہے کہ وہ دونوں برادر ممالک کے درمیان اختلافات کو ختم کرے'۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی خام تیل کی فروخت اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے لگائی گئی پابندیوں کے بعد خطے میں کافی عرصے سے حالات کشیدہ ہیں۔
تاہم اس کشیدگی میں حالیہ اضافہ 14 ستمبر کو ان حملوں کے بعد ہوا، جس میں سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل کمپنی آرامکو کی 2 تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اگرچہ امریکا اور سعودی عرب کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا گیا تھا، تاہم یمن میں سعودی عرب کی فوج سے لڑنے والے حوثی باغیوں نے ان کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ان حملوں کے بعد ایک انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگی۔
خطے میں جاری اسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش شروع کی اور وزیراعظم عمران خان نے ایران کا دورہ کیا، جس کے بعد اب وہ سعودی عرب جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ایران اپنے تنازعات مذاکرات سے حل کریں، پاکستان
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان 2 خلیجی حریفوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کررہا ہے، 1980 کی دہائی سے لے کر اب تک کم از کم 4 مرتبہ پاکستان خطے میں ثالثی سے متعلق اقدامات اٹھاچکا ہے۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران اپنے طور پر ثالثی کی کوشش کی تھی، بعدازاں 1997میں اسلام آباد میں منعقد اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں ایران اور سعودی عرب کی قیادت کو دعوت دی گئی تھی۔
علاوہ ازیں 2003 سے 2004 کے دوران اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے بھی دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوششیں کی تھیں لیکن امریکا سے بہت قریب ہونے کے باعث ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں ثالثی کی آخری کوشش 2016 میں کی گئی تھی جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی مذہبی رہنما باقر النمر کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔