وہ 4 کھلاڑی جنہوں نے موقع کو غنیمت جانا اور بہترین کھیل پیش کیا
سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان ، ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی جانب ایک بڑا قدم
سری لنکن کرکٹ ٹیم پر مارچ 2009ء میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے پر ایک ایسا مضبوط قفل لگا دیا تھا جس کو کھولنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو بہت جتن کرنے پڑے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم نے تقریباََ دو ہفتے پر محیط دورہ پاکستان مکمل کرکے دنیا کو یہ واضح پیغام بھیج دیا کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے اور یہاں آنے والوں کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
لیکن یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں کھیل کی واپسی کا عمل بتدریج ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا قدم زمبابوے کرکٹ ٹیم نے اٹھایا تھا۔ زمبابوے کرکٹ ٹیم نے 2015ء میں پاکستان کا دورہ کیا جو بارش کا پہلا قظرہ ثابت ہوا۔ پھر اس دورے کے ساتھ 2017ء اور 2018ء میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے کچھ میچوں اور 2017ء میں 3 ٹی20 میچ کھیلنے کے لیے آنے والی ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا۔
سری لنکا کے اس کامیاب دورے کے بعد اب آئر لینڈ کی ٹیم کے چیف ایگریکٹو وارن ڈیوٹروم نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کر کے پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ جب سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو انہی دنوں ڈیوٹروم اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے چیف ایگریکٹو ٹام ہیریسن بھی پاکستان میں موجود تھے اور انہیں پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیموں کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
انتظامی لحاظ سے تو پاکستان اپنے مقصد میں کامیاب رہا لیکن کھیل کے میدان میں یہ دورہ پاکستان سے زیادہ سری لنکا کے حق میں رہا۔
لیکن فتح اور شکست سے ہٹ کر ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سیریز میں کن کھلاڑیوں کی کارکردگی نمایاں رہی اور مزید بہترین کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
اس سیریز میں کچھ کھلاڑیوں کو ایک مرتبہ پھر قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع ملا۔ جن میں سے کچھ نے اس موقع کو مکمل طور پر ضائع کردیا لیکن کچھ ایسے تھے جنہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ فائدہ اٹھانے والے کھلاڑی کون ہیں، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
عابد علی
عابدعلی طویل عرصے سے ڈومیسٹک کرکٹ میں تواتر سے رنز کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی اے ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف بھی رنز اسکور کیے تھے۔
عابد علی نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں کھیلا اور پہلے ہی میچ میں سنچری اسکور کرکے اپنے تابناک مستقبل کی نوید سنادی تھی۔ عابد علی نے اس اولین میچ میں 112رنز اسکور کیے تھے اور یوں وہ پاکستان کی طرف سے اپنے اولین میچ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے۔
عابد علی کسی حد تک بدقسمت کھلاڑی بھی ہیں کہ ان کو آخری لمحات میں عالمی کپ کے لیے منتخب کی جانے والی ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ پھر سری لنکا کیخلاف ان کو سیریز کے تیسرے میچ میں کھیلنے کا موقع ملا اور اس موقع سے بھی عابد نے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے 74 رنز کی دلکش اننگز کھیل کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔
عابد علی نے فخر زمان کے ساتھ پہلی وکٹ کے لیے 123رنز کی شراکت قائم کی اور اس شراکت کے دوران انہوں نے فخر زمان سے زیادہ رنز بنائے اور ان کا اسٹرائیک ریٹ بھی فخر سے بہتر تھا۔ اس میچ کی کارکردگی کی بنیاد پر عابد علی کو ٹی20 کے لیے بھی منتخب کر لینا چاہیئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اب اس ہوم سیریز کے بعد پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف ایک مشکل دورے پر جانا ہے اور عابد علی یقیناََ اس دورے پر پاکستان ٹیم کے ہمراہ ہوں گے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل دورہ ہوگا لیکن اگر عابد علی اس دورے میں چند اچھی اننگز کھیل لیں تو وہ ٹیم میں اپنی جگہ کو پکا کرسکتے ہیں۔
افتخار احمد
4 سال بعد قومی ٹیم میں واپسی کرنے والے افتخار احمد نے ایک روزہ کرکٹ میں تو تسلی بخش کارکردگی پیش کی لیکن ٹی20 مقابلوں میں ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔
دوسرے اور تیسرے ایک روزہ میچ میں افتخار نے عمدہ ہٹنگ کا مظاہرہ کیا اور یہ امید پیدا ہوئی کہ پاکستان کو اننگ کے آخر میں تیز اور بڑے شاٹس کھیلنے والے جس کھلاڑی کی ضرورت تھی وہ شاید مل گیا ہے۔ افتخار کا کمال یہ ہے کہ پوری سیریز میں سری لنکن باؤلرز انہیں ایک مرتبہ بھی آؤٹ نہیں کرسکے۔ افتخار احمد نے 4 اننگز کھیلیں جن میں 3 مرتبہ وہ ناقابلِ شکست رہے جبکہ ایک مرتبہ وہ رن آؤٹ ہوئے۔
افتخار احمد بیٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنی آف اسپن باؤلنگ سے بھی ٹیم کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ امید ہے کہ قومی ٹیم میں شامل ہونے کے بعد افتخار احمد اپنی محنت جاری رکھیں گے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر خود کو ایک ایسے کھلاڑی کے روپ میں ڈھال لیں گے جو طویل عرصے تک قومی ٹیم کے لیے خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔
عثمان خان شنواری
عثمان خان شنواری عالمی کپ سے کچھ عرصے پہلے تک مسلسل قومی ٹیم کا حصہ تھے لیکن کچھ خراب پرفارمنس کی وجہ سے وہ عالمی کپ کے لیے قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ مگر شاید کچھ فیصلے بظاہر سخت معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے۔
ایسا ہی کچھ عثمان کے ساتھ ہوا جنہوں نے سری لنکا کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز کے دوسرے ایک روزہ میچ میں 5 وکٹیں حاصل کرکے قومی ٹیم میں اپنی واپسی کا جشن منایا۔
میں گزشتہ چند سالوں سے عثمان شنواری کی کارکردگی کا جائزہ لے رہا ہوں اور مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کپتان سرفراز احمد شاید عثمان کو درست انداز سے استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ عثمان ابتدائی اوورز میں عمدہ باؤلنگ کرتے ہیں لیکن اننگز کے اختتامی اوورز میں وہ بہت رنز دیتے ہیں اور اکثر وہ اہم موقعوں پر نو-بال کرکے اپنے اور ٹیم کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
میری رائے میں عثمان شنواری سے زیادہ سے زیادہ اوورز ان کے ابتدائی اسپیل میں کروا لینے چاہییں اور پھر ان کے باقی ماندہ اوورز اننگز کے درمیانی حصے میں مکمل کروا لینے چاہییں۔ امید ہے کہ مستقبل میں اس حکمت عملی پر عمل کر کے عثمان شنواری کو ٹیم کے لیے زیادہ فائدے مند بنانے کی جانب توجہ دی جائے گی۔
محمد حسنین
محمد حسنین بہت کم عمری میں پاکستان ٹیم کا حصہ بن گئے ہیں۔ حسنین کی خوش قسمتی بھی دیکھیے کہ وہ صرف ٹیم کا ہی حصہ نہیں بلکہ عالمی کپ میں پاکستان کے اسکواڈ کا حصہ بھی بنے۔ اگرچہ یہ بھی نہایت حیران کن ہے کہ ان کو اس میگا ایونٹ کے کسی بھی میچ میں کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا، مگر ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا حصہ بن جانا ہی ایسا کارنامہ ہے جس کی خواہش کرتے کرتے کئی کھلاڑی ریٹائر ہوجاتے ہیں مگر یہ اعزاز حاصل نہیں کرپاتے۔
حسنین کو سری لنکا کے خلاف ٹی20 سیریز میں کھیلنے کا موقع ملا اور سیریز کے پہلے ہی میچ میں انہوں نے ہیٹ ٹرک مکمل کی اور اس فارمیٹ میں وہ ایسا کرنے والے کم عمر ترین کھلاڑی بن گئے۔
سری لنکا کے دورہ پاکستان سے قبل حسنین کیریبین پریمیئر لیگ میں T&T Riders کی نمائندگی کرتے ہوئے 4 میچوں میں 6 وکٹیں حاصل کر چکے تھے۔ اس ٹورنامنٹ میں خاص بات یہ تھی کہ محمد حسنین نے بھرپور رفتار سے باؤلنگ کی اور انہون نے اکثر گیندیں 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کی۔
اس چھوٹی سی عمر میں وہ اب خوش نصیب یوں بھی ہیں کہ وقار یونس جیسے عظیم باؤلر کو کرکٹ ٹیم کا باؤلنگ کوچ نامزد کردیا گیا ہے۔ اس تقرری کے بعد یہ امید بڑھ گئی ہے کہ وہ رفتار کے چکر میں جو غلطیاں کررہے ہیں انہیں جلد قابو پالیں گے اور خاص کر یارکر کے شعبے میں کچھ زبردست کام کرسکیں گے۔
عالمی کپ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے نئی ٹیم انتظامیہ مقرر کی۔ چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی حیثیت سے مصباح الحق کی اولین سیریز کا نتیجہ توقع کے برعکس غیر تسلی بخش رہا۔ لیکن امید ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ایک اچھی ٹیم بنائیں گے جو بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کرے گی۔
اس وقت قومی ٹیم کے لیے سب سے بڑا امتحان دورہ آسٹریلیا اور ٹی20 ورلڈ کپ ہے، اگر یہاں نئی انتظامیہ کو کامیابی مل گئی تو اس کا مستقبل تابناک ہے، لیکن دوسری صورت ان کے لیے آگے کا راستہ کانٹوں سے سیج سے کم ثابت نہیں ہوگا۔