• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

شاہی جوڑے کا دورہ پاکستان اور تاریخی رشتے

پاکستان کے عوام برطانوی شاہی خاندان سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کی ایک وجہ شہزادی ڈیانا کا پاکستان کے ساتھ لگاؤ تھا۔
شائع October 14, 2019

برطانوی شاہی تخت کے دوسرے نمبر کے امیدوار شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ میڈلٹن 5 روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ کنگسٹن پیلس نے ایک بیان میں اس دورے کو شاہی جوڑے کا سب سے پیچیدہ دورہ قرار دیا تو بھارتیوں نے خوشی سے آسمان سر پر اٹھا لیا اور شاہی جوڑے کے پیچیدہ ترین دورہءِ پاکستان کی شہ سرخیاں شائع کی گئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے اس دورے کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے جاتے رہے۔

شاہی جوڑے کا موجودہ دورہ 1961ء میں ملکہ برطانیہ کے دورہءِ پاکستان سے شروع ہونے والے خیر سگالی دوروں کی ہی ایک کڑی ہے۔ شہزادی کیٹ میڈلٹن تعلیم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کافی کام کر رہی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ شاہی جوڑے کے اس دورے سے پاکستان اور برطانیہ مل کر ان شعبوں میں بہتری کے لیے کام کریں گے۔

ملکہ برطانیہ کی آمد سے متعلق ڈان اخبار کا خصوصی ضمیمہ
ملکہ برطانیہ کی آمد سے متعلق ڈان اخبار کا خصوصی ضمیمہ

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کو دھندلانے کے لیے دورے کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات کو ابھارنے کی کئی کوششیں کی گئی اور اس مقصد کے لیے برطانوی وزارتِ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کو بنیاد بنایا جاتا رہا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ سب سازشیں ناکام ہوگئی۔

بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت کی اسپانسرڈ میڈیا رپورٹس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے برطانوی شاہی جوڑا پاکستان پہنچ چکا ہے۔ کنگسٹن پیلس کی پریس ریلیز سے مطلب کی لائن اٹھانے اور اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے بھارتی میڈیا نے باقی متن چھپا لیا۔ اس دورے کی اہمیت اسی پریس ریلیز میں بیان کردی گئی تھی اور کہا گیا کہ شاہی جوڑے کا یہ دورہ برطانیہ اور پاکستان کے تاریخی تعلقات کے اعتراف کے ساتھ آج کے متحرک، امنگوں بھرے اور مستقبل کی جانب دیکھتے پاکستان پر مرکوز ہوگا۔

2 فروری 1961ء کو شائع ہونے والے ڈان اخبار کا فرنٹ پیج
2 فروری 1961ء کو شائع ہونے والے ڈان اخبار کا فرنٹ پیج

کنگسٹن پیلس کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ شاہی جوڑے کا دورہءِ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں اور نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو درپیش چیلنجز پر مرکوز ہوگا۔ اس دورے کے دوران شاہی جوڑا جس قدر ممکن ہوا زیادہ سے زیادہ افراد سے ملاقاتیں کرے گا۔

شاہی خاندان کے افراد کا یہ دورہ تقریباً ایک عشرے بعد کسی بھی شاہی شخصیت کے دورے کے بعد ہو رہا ہے۔ 2006ء میں پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کمیلا نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

شہزادہ چارلس اور کمیلا 30 اکتوبر 2006 کو وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات کررہے ہیں
شہزادہ چارلس اور کمیلا 30 اکتوبر 2006 کو وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات کررہے ہیں

وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز شہزادہ چارلس کو پاکستانی آرٹ ٹرک بطور تحفہ پیش کررہے ہیں
وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز شہزادہ چارلس کو پاکستانی آرٹ ٹرک بطور تحفہ پیش کررہے ہیں

اگر موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو اس دورے کا فائدہ دو طرفہ ہے۔ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کی صورت میں پرانے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی پر توجہ دے رہا ہے جبکہ پاکستان کو اس دورے سے بیرونی دنیا میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاہی جوڑے کی آمد کے سبب پاکستان کے خوبصورت مقامات دنیا کی نظروں میں آئیں گے اور غیر ملکی سیاحوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ دورہ برطانوی دفترِ خارجہ کی درخواست پر ہورہا ہے اور یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بھی مضبوط ہوں گے۔

پاکستان نے بے شمار قربانیوں کے بعد دہشت گردی پر قابو پالیا ہے لیکن ان کامیابیوں اور پُرامن پاکستان کو عالمی سطح پر اب بھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کرایا جاسکا ہے۔ پاکستان سے متعلق مغرب میں اب بھی سیکیورٹی خدشات موجود ہیں جو ملک میں بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت میں رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا یہ موقع ہے کہ پُرامن پاکستان دنیا کے سامنے لایا جائے۔

سانحہ 9/11 کے بعد پاکستان یورپی سیاحوں کے لیے ناپسندیدہ ملک بن گیا اور یورپی ممالک اس وقت سے اپنے شہریوں کو سفری ہدایات جاری کرکے پاکستان کے غیر ضروری سفر سے روکتے رہے ہیں۔ حالانکہ اس سانحے سے پہلے پاکستان میں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد کا تعلق برطانیہ اور یورپ سے ہوا کرتا تھا۔

برطانوی شاہی جوڑے کا دورہءِ پاکستان برطانیہ اور پورے یورپ کے لیے ایک پیغام ہوگا کہ پاکستان اب سیکیورٹی رسک نہیں رہا۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عوام برطانوی شاہی خاندان سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ شہزادہ ولیم کی والدہ شہزادی ڈیانا کا پاکستان کے ساتھ لگاؤ تھا۔

شہزادی ڈیانا کب کب پاکستان آئیں

شہزادی ڈیانا نے پاکستان کے 3 دورے کیے اور ان کے ہر دورے کی اپنی انفرادیت تھی۔

1991ء میں شہزادی ڈیانا کا پہلادورہ اس لیے منفرد تھا کہ یہ ان کا کسی بھی ملک کا پہلا تنہا دورہ تھا۔ پھر یہ وہ وقت تھا جب ان کے شہزادہ چارلس کے ساتھ تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے تھے۔ شہزادی ڈیانا کے لیے یہ دورہ اس لیے بھی اہم تھا کہ شاہی محل کے اندر سے بھی کچھ لوگ ڈیانا کو ناکام ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔

لیڈی ڈیانا اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز سے ملاقات کررہی ہیں—تصویر رائٹرز
لیڈی ڈیانا اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز سے ملاقات کررہی ہیں—تصویر رائٹرز

لیکن ان کی تمام تر مشکلات کے باوجود یہ دورہ توقعات سے بھی زیادہ کامیاب رہا اور میڈیا نے شہزادی ڈیانا کا ایک ایک لمحہ تصویروں اور رپورٹس میں قید کرنے کی کوشش کی۔ مغربی میڈیا میں بھی اس دورے کو بے حد پذیرائی ملی۔ شہزادی ڈیانا نے اسکول کی بچیوں سے ملاقات کی اور ویلفیئر سینٹر کا دورہ کیا۔ لاہور میں بادشاہی مسجد اور کنیئرڈ کالج کا دورہ کیا۔ خیبر پختونخوا میں خیبر رائفلز اور چترال اسکاؤٹس کا دورہ کیا۔ اس دورے سے شہزادی ڈیانا کو عالمی سطح پر خوب پزیرائی ملی اور وہ عوامی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔

لیڈی ڈیانا اسلام آباد میں بچیوں کے ایک گروپ کے ساتھ—تصویر رائٹرز
لیڈی ڈیانا اسلام آباد میں بچیوں کے ایک گروپ کے ساتھ—تصویر رائٹرز

لیڈی ڈیانا نے 27 ستمبر 1991ء کو بادشاہی مسجد کا دورہ کیا
لیڈی ڈیانا نے 27 ستمبر 1991ء کو بادشاہی مسجد کا دورہ کیا

پھر 1996ء میں شہزادی ڈیانا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ جمائما خان کی دعوت پر دورہ کیا۔ شہزادی ڈیانا نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ تقریبات میں شرکت کی۔ اس دورے کی ایک ذاتی وجہ شہزادی ڈیانا کا ڈاکٹر حسنات کے ساتھ تعلق بھی تھا۔ شہزادی ڈیانا نے ڈاکٹر حسنات کے والدین کے ساتھ چائے پر ملاقات کی۔ شہزادی ڈیانا کے سوانح نگاروں نے ڈاکٹر حسنات اور شہزادی کے تعلقات پر بہت کچھ لکھا اور دعویٰ کیا کہ شہزادی ڈیانا ڈاکٹر حسنات کے ساتھ شادی کی خواہشمند تھیں، چاہے اس کے لیے انہیں پاکستان میں ہی کیوں نہ رہنا پڑتا۔

لیڈیا ڈیانا 21 فروری 1996ء کو کینسر کے مرض میں مبتلا بچے کو تحفہ دے رہی ہیں۔ اس تصویر میں جمائما خان بھی نظر آرہی ہیں
لیڈیا ڈیانا 21 فروری 1996ء کو کینسر کے مرض میں مبتلا بچے کو تحفہ دے رہی ہیں۔ اس تصویر میں جمائما خان بھی نظر آرہی ہیں

شہزادی ڈیانا کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حسنات اس شادی کو ناممکن تصور کرتے تھے کیونکہ ڈاکٹر حسنات شہزادی ڈیانا کے گرد میڈیا کے مجمع سے گھبراتے تھے اور لوگوں کی نظروں سے دُور نجی زندگی کو پُرسکون انداز میں گزارنا چاہتے تھے۔

ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ان خبروں پر بھروسہ کرنا اتنا آسان نہیں کہ شہزادی ڈیانا شادی کے بعد پاکستان آکر رہنے پر رضامند ہوگئی ہوں کیونکہ یہ ایک طریقے سے ناممکن تھا۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب شہزادی ڈیانا 2 بچوں کی ماں تھیں اور ان 2 بچوں میں سے ایک شہزادہ ولیم تخت کا وارث تھا، جسے ملک سے باہر رکھنا ناممکن ہوتا، اور اب یہی شہزادہ ولیم پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں۔ جب وہ وزیرِاعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے تو انہیں یقیناً اپنی والدہ کی پاکستان سے متعلق یادداشتیں اور واقعات سننے کو ملیں گے۔

ایک سال بعد شہزادی ڈیانا دوبارہ پاکستان آئیں اور شوکت خانم ہسپتال کے افتتاح میں شریک ہوئیں۔ شہزادی ڈیانا نے ہسپتال میں زیرِ علاج کینسر کے مریضوں سے ملاقات کی اور شاہی قلعہ میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کی۔ اس دورے کے موقع پر ایک بار پھر شہزادی ڈیانا نے ڈاکٹر حسنات کے گھر والوں سے ملاقات کی اور شادی پر بات کی۔ جمائما خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ شہزادی ڈیانا 2 بار پاکستان آئیں اور دونوں بار ڈاکٹر حسنات کے گھر والوں سے ملیں۔ دونوں بار مجھ سے بھی ملاقات کی اور پاکستان میں زندگی گزارنے سے متعلق مشکلات دریافت کیں۔

ایک دستاویزی فلم ‘ڈیانا! ہر لاسٹ لو’ میں عمران خان نے بتایا کہ شہزادی ڈیانا نے ان سے نجی زندگی پر گفتگو کی اور ڈاکٹر حسنات سے شادی میں مدد طلب کی۔ شہزادی ڈیانا کے کہنے پر عمران خان ڈاکٹر حسنات سے مل کر بات کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے لیکن عمران خان کے لندن جانے سے پہلے اسی سال جولائی میں ڈاکٹر حسنات اور شہزادی ڈیانا میں جدائی پڑگئی۔

شہزادی ڈیانا دورہءِ پاکستان کے 3 ماہ بعد ایک حادثے میں دنیا چھوڑ گئیں لیکن پاکستان کے عوام کے دلوں میں آج بھی شہزادی ڈیانا کے لیے محبت اور احترام کے جذبات موجود ہیں۔

شہزادی ڈیانا کے بیٹے شہزادہ ولیم کی پاکستان آمد جہاں ایک بار پھر پاکستانی عوام اور شہزادی ڈیانا کے پیار بھرے تعلق کو زندہ کر رہی ہے وہیں یہ امید بھی پیدا کررہی ہے کہ دونوں ممالک اس دورے کے بعد پہلے کی طرح مل کر بہتری کے لیے کام کریں گے۔

عمران یعقوب خان

عمران یعقوب 30 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں طویل عرصہ تک رپورٹنگ کی اور کئی چینلز میں ڈائریکٹر نیوز اور کرنٹ آفئیرز کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اب بھی ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔