دہشت گردی مقدمات میں کوئی جرم قابلِ معافی نہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد: دور رس اثرات کے حامل ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر متاثرہ فریق مجرم کے جرم کے ساتھ ساتھ کیے گئے کم سنگین نوعیت کے جرم میں معاف بھی کردیں تو بھی دہشت گردی کے مقدمات میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے 27 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اس بات کی رہنمائی کی گئی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ناقابلِ راضی نامہ جرم سے کس طرح نمٹا جائے جبکہ اسی جرم کے ساتھ ایک قابلِ راضی نامہ جرم بھی کیا گیا ہو۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 7 ججز پر مشتمل لارجر بینچ نے سنایا۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2018 میں اعلیٰ عدلیہ کے مقبول ترین ریمارکس
اس سلسلے میں بینچ نے دہشت گردی کے ناقابلِ راضی نامہ جرم کے ساتھ قابلِ راضی نامہ جرم کے اثرات کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات بھی دیے اور مختلف سوالوں پر متعدد فیصلے دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے سے متعلق جوابات پہلے بھی دستیاب تھے لیکن علیحدہ علیحدہ موجود تھے۔
چانچہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’تازہ حکم نامے میں ان تمام دستیاب حل کو جوڑنا ضروری تھا۔
فیصلے میں چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی کا ناقابلِ راضی نامہ جرم اسی کیس میں کیے گئے کسی بھی دوسرے قسم کے جرم سے مختلف نوعیت اور آزاد حیثیت کا حامل ہے۔
مزید پڑھیں: غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اہم بل کی منظوری
چنانچہ قانون کے مطابق اگر منسلک جرم پر فریقین کے درمین راضی نامہ بو بھی جائے تو دہشت گردی کا جرم ناقابلِ راضی نامہ ہی رہے گا۔
اس حولے سے درپیش دوسرا سوال یہ تھا کہ فریقین کے درمیان ناقابلِ راضی نامہ جرم پر سمجھوتہ ہوجانے کی وجہ سے دہشت گردی کے جرم میں دی گئی سزا میں کمی ممکن ہے؟
جس کے جواب میں فیصلے میں کہا گیا کہ سزا میں کمی پر غور وہی عدالت کرسکتی ہے جہاں اس معاملے کی سماعت ہوئی ہو اس کو خود کار طریقے سے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کیا ہے؟
تیسرا سوال اس بارے میں تھا کہ کون سی عدالت ناقابلِ راضی نامہ جرم کی سزا میں کمی کرسکتی ہے جس کے جواب میں عدالت عظمیٰ نے وضاحت کی کہ مقدمے کے اختتام پر ٹرائل کورٹ بھی سزا میں کمی کرسکتی ہے۔