بلورکسی جھیل کے بارے میں سُنا ہے کسی نے؟
’یار بھٹی! ہم واپس جارہے ہیں۔‘
‘کیا مطلب؟ کہاں واپس جارہے ہو؟‘
’تاؤ بٹ واپس جارہے ہیں، اور کہاں!‘
یہ الفاظ کہتے ہوئے یحییٰ نے اپنا رک سیک (بیگ) کاندھے پر ڈالا اور اس کے ساتھ 4 مزید دوست واپس تاؤ بٹ روانہ ہوگئے۔ اس وقت ہم بلورکسی جھیل کو جاتی راہ پر گامزن تھے۔
پہلے دن کی ہائیکنگ کے بعد ہم نے بلور نالے کے کنارے پڑاؤ ڈالا تھا سو خیموں میں گزری رات کے بعد یہ ہماری پہلی صبح تھی۔
تاحال کوہ نوردوں کے قدموں سے ناآشنا اور سیاحوں کی دست برد سے محفوظ ایک نئی نویلی جھیل وادئ نیلم اور وادئ استور کی حد فاصل پر کوہ نوردوں کی راہ دیکھ رہی تھی جس کا زیادہ تر حصہ وادئ استور اور بقیہ وادئ نیلم کی حدود کے نصیب میں آتا ہے اور اب اس جھیل کے مزید پوشیدہ رہنے کا راز جلد ہی ختم ہونے کو تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ڈک جھیل دیکھنے کے بعد اس جھیل کا تعارف ہوا اور اسی جھیل کی کھوج میں گزشتہ سال شکر گڑھ جھیل جا پہنچے تھے۔ ایک عرصے سے اس جھیل کی خوبصورتی کے گن مقامی لوگوں سے سنتے آرہے تھے اور اب ہر کوئی چاہتا تھا کہ جلد از جلد جھیل کا بس کسی بھی طریقے سے دیدار نصیب ہوجائے۔ مگر ابھی تو دشوار گزار راستوں سے گزرنا اور کچھ کڑے امتحان باقی تھے۔
2019ء کا جون آیا تو اپنے اس ارادے کا بشیر علی سے ذکر کیا۔ وہ تو جیسے پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ کہا ’مجھے یہ بتائیں کہ اس مبارک کام کو انجام دینے کے لیے آپ کس تاریخ کو تاؤ بٹ پہنچ رہے ہیں؟‘
میں نے یہ سارا معاملہ گروپ کے سامنے پیش کردیا۔ باہمی مشورے کے بعد 13 ٹریکرز کا قافلہ ہائیکنگ کا سامان اٹھائے جولائی 2019ء کو تاؤ بٹ میں بشیر علی کے ہوٹل میں آ دھمکا۔
ٹریک کی تمام تر منصوبہ بندی بشیر علی کے ہوٹل میں ایک میٹنگ کی صورت میں طے پائی۔ بطورِ گائیڈ اور اجتماعی سامان کی باربرداری کے لیے بلور گاؤں کے رہائشی شبیر کو اپنے خچر کے ہمراہ ہمارا ساتھ دینا تھا۔
چونکہ فاصلہ 50 کلومیٹر سے زیادہ اور بلورکسی نالہ نہ پگھلنے والے گلیشیرز کی وجہ سے زیادہ ٹھنڈا ہے اس لیے حسبِ ضرورت سامان کی تاکید کے ساتھ منزل کی طرف چلنے کا قصد کیا گیا۔ جوشی کو بھی زبردستی ساتھ لیا۔ جوشی کی آواز انتہائی سریلی ہے اور اپنے موڈ میں ہو تو یہ سُر جنگل میں منگل کردیتے ہیں۔
جولائی کے آخری جمعے کو دوپہر 2 بجے جیپ ٹریک کے وار سہتے جب ہم تاؤبٹ اترے تو محسوس تک نہ ہوا کہ ہم اپنے گھروں سے دُور ہیں۔ بشیر علی اور وادئ نیلم کے لوگوں کی محبت و خلوص کے باعث وادئ نیلم خصوصاً تاؤبٹ اب اپنا دوسرا گھر سا محسوس ہوتا ہے۔ ہائیکنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ وہ دن تھے جب تاؤ بٹ میں موسم کے تیور خاصے خطرناک تھے۔ 2 دن مسلسل بارش کے باعث ٹریکرز ٹریکنگ شروع کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔
28 جولائی بروز اتوار سورج نے بادلوں کے پیچھے سے جھانکنے کی ہمت کی تو ہم نے بھی سورج میاں کی نقالی کرتے ہوئے بلورکسی کی راہوں پر چڑھائی کرنے کی جرات کر ڈالی۔ نکلنے کو ہی تھے کہ وادئ کشمیر کی ٹؤرزم پولیس نے ہمیں آ گھیرا اور چند منٹ کی بات چیت کے بعد جب انہیں مکمل احساس ہوگیا کہ ہم اناڑی ٹریکرز نہیں تو اجتماعی دعا کے ساتھ اور چند چیدہ نصیحتوں کے ساتھ ہمیں رخصت کیا۔
ابھی ہم نے چھتری ناڑ ندی کے کنارے گگئی کے خاموش جنگل میں چند کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ موسم غصے میں آگیا۔ لیکن ہلکی بارش کی صورت میں اس کے تیور خطرناک نہ تھے لہٰذا موسم سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے اور ہنستے کھیلتے اپنی مستی میں گامزنِ منزل رہے۔
گگئی کے جنگل کے بعد اونچی نیچی ڈھلوانوں پر سفر جلد ہی مسلسل چڑھائی کی طرف مائل ہوگیا۔ سونے پر سہاگہ کہ بارش نے کیچڑ اور پھسلن پیدا کردی سو ہمارے قدموں کی رفتار کم ہونا ہی تھی۔ سفر بھلے ہی سست ہوا لیکن ٹریکرز پارٹی کے جوش و ولولے کو ذرا بھی آنچ نہ آئی تھی۔
4 گھنٹے کے سفر کے بعد ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں دائیں طرف سے بلور نالہ چھتری ناڑ میں آ ملتا ہے۔ چھتری ناڑ ندی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں کامری ٹاپ کی طرف راستہ نکلتا ہے۔ اس مقام پر چند گھرانے آباد ہیں۔ وہاں پہنچے تو مقامی لوگوں نے چائے سے ہماری تواضع کی۔
اب ہمارا سفر بلور نالے کے ساتھ لیکن اس کے بہاؤ کی مخالف سمت میں شروع ہوا۔ راستے میں پہلا گلیشیر آیا جس پر بارش نے خاصی پھسلن پیدا کی ہوئی تھی۔ اس کے بعد گلیشیرز کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر چند میٹر بعد ہمیں برف زاروں سے نبرد آزما ہونا پڑتا۔ راستہ اب دشوار تر ہوچکا تھا۔ کیچڑ، مسلسل چڑھائی اور آکسیجن کی کمی سے ٹریکرز یکے بعد دیگرے نڈھال ہوتے گئے۔ بلندی نے یلغار کردی تھی اور اس یلغار کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہر انسان میں نہیں ہوتی۔ ڈے پیک کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے رہے۔ خاکسار نابکار، جوشی اور بشیر سب سے آخر میں ٹراؤٹ مچھلی کا شکار کرتے کرتے اپنی راہ لیے چلتے رہے جبکہ سب سے آگے ذیشان مقامی بکروال شبیر کے ساتھ چلتے رہے۔
گزشتہ سال پیش آنے والے ایک انتہائی ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے اس مرتبہ گروپ کو 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ سب سے آگے ذیشان، وسط میں واصل اور آخر پر خاکسار رہا اور اس کے بیچوں بیچ باقی ہائیکرز ٹریکنگ کرتے رہے۔ عام طور پر تو ٹریکرز شروع میں اکھٹے چلتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ فاصلہ بعض دفعہ 2 سے 3 کلومیٹر کا بھی بن جاتا ہے اور جنگل میں بھٹکنے کی غلطی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
شام کے سائے پھیلنے لگے تو ہم چند جھونپڑا نما گھروں پر مشتمل ایک بستی کے پاس تھے۔ اگرچہ ہم اپنی مقررہ جگہ سے کچھ دُور تھے لیکن موسم کی وجہ سے نڈھالی بڑھ گئی تھی لہٰذا وہیں رات قیام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پانی کا ایک چشمہ قریب ہی رواں تھا۔ خیموں کی آغوش میں آئے تو سکون کی ایک لہر سر سے پاؤں تک سرائیت کرگئی۔ ارد گرد کے ماحول سے بے خبر سبھی دوستوں نے کھانا کھا کر بستروں میں گھسنے کو ہی ترجیح دی۔ صبح بیدار ہوئے تو آسمان صاف تھا۔ قدرت کے رنگ بکھرے دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے گویا ہم طلسماتی دنیا کے کسی گوشے میں داخل ہوچکے تھے۔
ہر طرف سرسبز کوہساروں کے دامن میں دلفریب گلزاروں کا نظارہ کرکے ہماری خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔ تاہم فردوس کے چھوٹے چھوٹے فرش پر بکھرے ٹکڑے ہر کسی کو راس نہیں آتے۔ گزشتہ رات کی تھکاوٹ سے چُور ہمارے 5 دوست اسی مقام سے واپس تاؤبٹ روانہ ہوگئے کہ ان میں اب مزید پیدل مسافت کی سکت نہیں تھی۔
لہٰذا باقی کوہ نورد آگے کے سفر کے لیے تیار تھے۔ گزشتہ روز پکڑے جانیوالی ٹراؤٹ کے سوپ نے جسم میں دوبارہ جان سی ڈال دی اور مزید صرف 2 گھنٹے چلنے کے بعد ہمیں واپس جانے والوں کے فیصلے پر افسوس ہوا۔ بس ایک چڑھائی کے بعد بیس کیمپ تک نہ صرف راستہ انتہائی آسان ہوگیا بلکہ ہم اس قدر خوبصورت وادی میں داخل ہوئے کہ جسے صرف دیکھا جاسکتا تھا، محسوس کیا جاسکتا تھا لیکن تاحال ضبطِ تحریر لاکر بھی حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔
اس احساس کے ساتھ کہ ہم رشکِ فردوس وادی میں قدم اٹھا رہے ہیں ساڑھے 4 گھنٹے کی ہائیکنگ کے بعد ہم بلورکسی جھیل کے بیس کیمپ بلور گاؤں جاپہنچے۔ دیسی گلاب، جنگلی اسٹرابیری اور طرح طرح کی قیمتی جڑی بوٹیوں سے مزین اور کوہساروں کے دو بلند سلسلوں کے بیچوں بیچ یہ گاؤں کم و بیش ساڑھے 11 ہزار کی بلندی پر واقع ہے۔
انتہائی بلندی کے باعث درخت تو نہیں البتہ برج (بھوج پتر) کے ہرے بھرے پیڑ ہیں جن کی لکڑی جلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کوہساروں کے دونوں سلسلے ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں جس کی وجہ سے وادی قدرے تنگ لیکن سرسبز گھاس سے بھری پڑی ہے۔ وادی کے وسط میں بہتا صاف پانی کا ایک نالہ اور گردا گرد چند چشمے اس گاؤں کے حُسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔ اس مقام سے ایک دشوار ٹریک کے ذریعے شکر گڑھ جھیل تک رسائی بھی ممکن ہے۔
شبیر کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔ اس نے بڑی بڑی سلوں سے بنی آبائی مسجد میں رات قیام کی تجویز دی اور ہمیں یہ تجویز ٹھیک لگی لہٰذا مسجد پہنچ گئے۔ جلد پہنچ جانے کی وجہ سے بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ آج ہی جھیل پر پہنچا جائے لیکن ابھی ایک آخری سخت مرحلہ باقی تھا جو بلور ٹاپ کی کھڑی چڑھائی کی صورت میں ہمارے سامنے تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے یہی مناسب لگا کہ آج کا بقیہ دن بھرپور آرام کیا جائے تاکہ اس مشکل مرحلے کو پار کرنا آسان بن جائے۔
بلور ٹاپ کی سخت چڑھائی کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ کوہ نورد تازہ دم رہیں، اسی مقصد کی خاطر بشیر علی کے توسط سے ایک بکرا انتہائی کم دام میں خریدا گیا۔ پکوانے کی ذمہ داری شبیر کی تھی۔ رات کے کھانے اور صبح کے ناشتے میں دیسی بکرے کے طاقتور گوشت نے ہمیں اس قابل بنا دیا کہ بلور ٹاپ کی چٹانوں اور پتھروں سے آراستہ عمودی کھڑی چڑھائی چڑھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔
صبح ناشتے کے بعد تھوڑا بہت ضروری سامان لے کر شبیر کے حوالے کیا اور کنواری جھیل کے دربار میں حاضری کے لیے روانہ ہوگئے۔ جلد ہی پتھروں اور چٹانوں کی ڈھلوانیں شروع ہوگئیں۔ یہ مقام Tree Line سے اوپر تھا سو ہر قسم کے درخت تو ناپید ہوگئے لیکن کہیں کہیں موجود گھاس چٹانوں میں اپنی موجودگی کو ظاہر کررہی تھی۔ پہلی بلندی عبور کی تو گھاس بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ اب ہر طرف یا تو پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانیں تھیں یا چھوٹے چھوٹے پتھر تھے جو ہم پیروں تلے روندتے ہوئے گزر رہے تھے۔ چشمے بھی جاری تھے لیکن اکثر مقامات پر پانی چٹانوں کے کہیں اندر ہی اندر بہتا ہوا ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔
بلور ٹاپ کی بلندی تقریباً 14 ہزار فٹ ہے، جب ہم مطلوبہ بلندی پر پہنچے تو سامنے ایک جھیل نظر آئی۔ لیکن یہ مطلوبہ جھیل نہیں تھی بلکہ نقشہ نکال کر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہمارے قدموں میں ریات جھیل تھی۔ لمبوتری لیکن بہت کم چوڑائی کی حامل ریات جھیل کا نظارہ بھی خاصا دلفریب تھا۔ یہاں سے ریات نالہ چیچڑی (گاؤں) کے مقام میں جاکر بلورکسی کے نالے میں ضم ہوجاتا ہے۔
اب ہم نے اپنی سمت تبدیل کی اور دائیں طرف بلور ٹاپ کے دامن میں چند ایک گلیشیر عبور کیے۔ ایک مرتبہ پھر ایک اور چڑھائی نے آن لیا۔ یہ ایک کھڑی دیوار تھی جس پر ہموار زمین کا سوچنا بھی حماقت کی بہترین نشانیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ آکسیجن کی کمی، چھوٹے بڑے پتھروں، چٹانوں اور گلیشیرز نے اس آخری چڑھائی کو مشکل ترین بنا دیا تھا۔ لیکن ہم بیس کیمپ پر ایک دن آرام کرکے خاصے تازہ دم اور ہمارے جسموں کے کل پرزے خاصے توانا ہوچکے تھے۔
اللہ رب العزت کے خاص کرم اور کچھ حوصلے کی بنا پر ہم جلد ہی مطلوبہ چوٹی پر پہنچ گئے۔ جب دوسری طرف نظر پڑی تو آنکھ جھپکنا بھول گئے۔ یوں لگا جیسے ہنستی مسکراتی بلور جھیل ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہو۔ اردگرد کے بلند کوہساروں اور دلکش وادی کا عکس جھیل پر پڑ رہا تھا۔ وہاں کھڑے یوں لگ رہا تھا کہ کوہساروں اور آسمان کا عکس کسی عکاس نے ہو بہو اتار دیا ہو۔
بلور ٹاپ سے جھیل کی تصاویر لے کر کوہ نورد جھیل پر اترے۔ اترتے اترتے ہمیں مزید ایک گھنٹے سے زائد وقت لگ گیا اور ہمارے اندازے کے مطابق (دیواریاں اور چٹہ کٹھا کے بعد) یہ تیسری بڑی جھیل تھی۔ 12 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع سحر خیز حسن کی مالک ایک کنواری جھیل اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر تھی۔
اس خوبصورت ماحول اور جھیل پر پہنچنے کی خوشی میں دوستوں نے جوشی سے گیت سنانے کی فرمائش کی۔ اس نے موقع محل کی مناسبت سے جس گانے کا انتخاب کیا اسے سن کر یوں محسوس ہوا کہ یہ الفاظ شاید اسی منظر کے لیے تحریر کیے گئے ہیں۔
اک چیز قیامت بھی ہے، لوگوں سے سُنا کرتے تھے
تمہیں دیکھ کر میں نے مانا، وہ ٹھیک کہا کرتے تھے
میں کھوج میں ہوں منزل کی اور منزل پاس ہے میرے
مکھڑے سے ہٹا دو آنچل، ہوجائیں دُور اندھیرے
مانا کہ یہ جلوے تیرے، کردیں گے مجھے دیوانہ
جی بھر کر ذرا میں دیکھوں، انداز تیرا مستانہ
تعریف کروں کیا اس کی جس نے تجھے بنایا
جھیل پر پہنچتے ہی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے اور مبارکباد دی۔ چند منچلوں نے جھیل کے برفیلے پانیوں میں ایک سے زائد مرتبہ غوطے بھی لگائے۔ ہر کسی نے اپنے انداز سے جھیل کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ کسی نے کنارے کنارے چہل قدمی کرکے اپنا دل بہلایا، کوئی جھیل کی طرف منہ کیے جا لیٹا اور جھیل کا عکس دماغ پر نقش پر کرنے لگا، کسی نے جھیل میں پتھر پھینکے اور کوئی ایسا بھی تھا جس نے جھیل کے پانی کے چند گھونٹ بھر کر ہمیشہ کے لیے اسے اپنے وجود کا حصہ بنا لیا۔
یہاں سے اگلی منزل ریات گاؤں تھی۔ وادئ کشمیر کو خیرباد کہہ کر اترائی کا سفر شروع کرنا تھا۔ جھیل کی لمبائی اس قدر ہے کہ صرف ایک طرف کا فاصلہ ہم نے ایک گھنٹہ چل کر طے کیا۔ بشیر علی اور جوشی نے یہاں سے واپس تاؤبٹ چلے جانے کی تیاری کی۔ جھیل پر اجتماعی تصاویر عکس بند کی گئیں اور پھر انہیں بوجھل دل کے ساتھ رخصت کیا۔ وہ واپس بلور ٹاپ کی طرف روانہ ہوگئے اور ہم جھیل کو الوداع کہہ کر ریات گاؤں کی طرف اتر گئے۔
بلور نالے کے ساتھ ساتھ یہ سفر خاصا خوشگوار تھا۔ سیکڑوں فٹ کی اترائی اترے اور اترتے ہی چلے گئے۔ پھر گلیشیر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک مقام تو ایسا آیا جہاں بلور نالے کے شوریدہ سر پانیوں میں اتر کر عبور کرنا پڑا۔ چند مکانات کی بستی راہ میں آئی۔ انہوں نے لسی سے ہماری تواضع کی۔ یہ لسی خاصا فرحت بخش مشروب ہے بدن کی ساری تھکاوٹ سمیٹ لیتا ہے۔ سفر اب بھی مسلسل اترائی کا تھا لیکن راستہ اب مہربان ہوچکا تھا اور ہم بغیر رکے چلتے رہے اور شام ساڑھے 5 بجے ریات گاؤں پہنچ گئے۔ شبیر بکروال نے خچر سے سامان اتار کر ہمارے حوالے کیا اور واپس روانہ ہوگیا۔
ریات گاؤں میں جیپ کالا پانی سے روزانہ علی الصبح آتی ہے۔ غروب آفتاب میں وقت تھا۔ چلنے کی مزید سکت تھی اور یہی فیصلہ ہوا کہ ریات سے چیچڑی گاؤں پیدل چل کر پہنچا جائے لہٰذا سامان کاندھوں پر ڈالا اور پاپیادہ ہی چل پڑے۔ ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد رات کے اندھیرے میں ہم چیچڑی گاؤں پہنچے جہاں ایک مہمان نواز سرفراز نے اپنے گھر میں رات قیام کے لیے جگہ پیش کردی۔
بلورکسی بیس کیمپ سے چیچڑی گاؤں تک کم و بیش 28 کلومیٹر کا راستہ پیدل ایک ہی دن میں طے کیا۔ بلور ٹاپ کی 14 ہزار فٹ دشوار اور عمودی چڑھائی چڑھنا ایک مشکل کام تھا۔ اب تھکن اس قدر زیادہ تھی کہ رات کا کھانا کھا کر ہم کب نیند کی وادیوں میں کھو گئے، یہ پتہ ہی نہ چلا۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (9) بند ہیں