20 سال بعد بھی ملتان ’اپنا، اپنا‘ سا لگا
تحریر و تصاویر: رمضان رفیق
چلیے آج ملتان سے ملتے ہیں۔ اولیاء اور عظیم صوفی بزرگوں کی سرزمین، گرد، گرما، گدا و گورستان، اور میرے لیے 20 سال سے زائد یادوں کے ایک طویل سلسلے کی ایک چھوٹی سی قسط۔
1995ء سے اب تک ملتان کے نقشے میں جو بھی تبدیلیاں آئیں ان کا اندازہ شہر کی چند سڑکوں کے گرد پھیلی ہوئی زندگی سے ہی ہوجائے گا۔
میں نے ایف ایس سی گورنمنٹ کالج ملتان سے کیا ہے۔ اس زمانے میں ٹیوشن پڑھنے نشتر میڈیکل کالج کے پاس سے گول باغ گلگشت کالونی کی طرف سائیکل پر آیا کرتے تھے۔ جعفری صاحب سے بیالوجی، آزاد صاحب سے فزکس، عزیز الرحمٰن صاحب سے کیمسٹری اور ان گلیوں میں بکھرے ہوئے درجنوں ہفتے اب بھی لوحِ ذہن پر تصویریں بناتے ہیں۔
گورنمنٹ بوسن روڈ کے شب و روز اور خصوصی طور پر فرید ہال ہاسٹل میں گزرے 2 سال ایک الگ باب کے متقاضی ہیں، جہاں ہماری سب سے بڑی عیاشی نصف شب کسی سے سازباز کرکے نان چنے منگوا کر کھانا ہوتا تھا کیونکہ ہاسٹل کے دروازے بند ہوجانے کے بعد یہاں چاچا عالم شیر کی حکمرانی چلتی تھی۔
نشتر میڈیکل کالج سے پُل موج دریا اور کچہری کے راستے ہوتے ہوئے گول باغ تک کا 20 سال پرانا سفر اور یہ نقشہ اب کسی طور پر پہچانا نہیں جاسکتا۔ نشتر اور پُل موج دریا کے اوور ہیڈ فلائی اوور برج اور پھر کچہری کے ساتھ اوور ہیڈ فلائی اوور برج اور جونہی کچہری کے بعد جہاں ایک راستہ نو نمبر کی چونگی کی طرف اور دوسرا گول باغ کی طرف جاتا ہے، یہاں اس سڑک پر کسی زمانے میں ٹھیلے والوں اور ریڑھی بانوں کا راج ہوتا تھا اور وہ سڑک جو اب گول باغ کو جاتی ہے کسی مصروف شہر کی لش پش کرتی شاپنگ گاہ میں بدل چکی ہے۔
گول باغ میں چوہدری کا ہوٹل، جس کا نام مون لائٹ ہوٹل ہوا کرتا تھا، اب اس کا ایک نشان سا ہی باقی رہ گیا ہے۔ الغنی فوٹو اسٹیٹ کی دکان اور پھر ان وقتوں میں جامعہ قاسم العلوم میں بعد نمازِ جمعہ وقفہ سوالات کا دور یاد آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کل پرسوں کی ہی بات ہو۔
یہاں دکانوں کی ترتیب اور بازار کی ہیئت مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ نو نمبر سے گول باغ آنے والے تانگے تو جیسے کسی خواب نگر کا رُخ کرچکے ہیں۔
غرضیکہ ملتان میرے لیے یادوں بھری ایک الماری ہے جس میں رنگ برنگے واقعات اور کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ایف ایس سی پری میڈیکل کرنے والے ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر ہی بنے۔ اب چونکہ میرے بھائی نشتر میڈیکل کالج کے طالب علم تھے اور اس کالج اور ہاسٹل سے پڑھ کر گئے تھے اس لیے میرے اعتماد کا عالم دیدنی تھا کہ ہمیں ڈاکٹر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم بڑے بھائی سے ملنے نشتر آتے تو نشتر روڈ کے چھابڑی فروش اور دیگر دکان والے ہمیں ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب کہتے تو ایک انجانی سی خوشی ہوتی۔
میں اپنے دوست عمران ٹیپو کے ہاں ٹھہرا تھا۔ چھٹی کے دن کی صبح میں نے ان سے کہا کہ مجھے پھر سے ملتان دیکھنا ہے اور آپ مجھے گھنٹہ گھر کے اطراف کہیں چھوڑ دیجیے۔ انہوں نے میرا ساتھ دینے کی ٹھانی اور ہم قاسم باغ اسٹیڈیم کی طرف چلے آئے۔ اسٹیڈیم میں کرکٹ کے شائقین اپنے کھیل میں مصروف تھے اور کرکٹ ٹیموں کا ایک مینا بازار سا لگا ہوا تھا۔
کھیل کے میدان کو آباد دیکھ کر خوشی ہوئی کہ خدا میرے ملک کو یونہی شاد رکھے اور کھیل کے میدان آباد رہیں۔
یہاں سے ہم شاہ رکنِ عالم کے مزار کی طرف چلے آئے۔ مزار کے سامنے شہر کا نظارہ کرنے کی ایک بہت خوبصورت جگہ زمزمہ ہے، یہ کہنے کو تو ایک آرٹ گیلری ہے اور اس کے اندر جانے کی ایک معمولی سی ٹکٹ سے بھی یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن افسوس کے یہ جگہ اچھی طرح سنبھالی نہیں گئی۔ فن پارے خستہ حال نظر آئے اور صفائی ستھرائی کے انتظامات دگرگوں۔
یہاں سے شاہ رکن عالم کے دربار کا نظارہ بہت دلکش ہے۔ ارد گرد موجود ملک بھر سے آئے ہوئے لوگ اپنی ٹولیوں اور بولی سے اپنے ہونے کا پتا دے رہے تھے، جبکہ نیچے اس پارک میں بھی کافی تعداد میں زائرین اور ملتان کی سیر کرنے والے من چلے اپنی دنیاؤں میں کھوئے نظر آئے۔
یہاں سے واپسی پر میں نے گھنٹہ گھر کے اردگرد بازار دیکھنے کی ٹھانی۔ سامنے ہی کونے میں ایک پھول فروش بچہ اپنے کام میں مگن تھا، اور حسین آگاہی بازار کی طرف جاتی گلی میں دھیرے دھیرے قدم بڑھانے لگا۔ تھوڑا ہی آگے ایک بٹیر کا گوشت بیچنے والا اپنی دکان کے باہر براجمان تھا۔ اس سے حال چال پوچھا اور تھوڑی دیر وہاں رک کر آگے ایک کھسے کی دکان میں چلا آیا۔
یہاں ملتان کے کھسے بہت مشہور ہیں۔ لیکن میں نے بوجہ وہ خریدنے کے بجائے بس ایک نظر ماری، ان کی قیمتیں پوچھیں اور آگے چلا آیا۔ ویسے تو مجھے ڈنمارک لانے کے لیے پاکستان سے کچھ ثقافتی اشیا کی تلاش تھی، پھر خیال آیا کہ اجرک یا ٹوپی طرز کی اشیا یا دستکاری کے نمونے زیادہ بہتر رہیں گے۔
میں دکانیں ٹٹولتا، لوگوں سے باتیں کرتا پرانا ملتان ڈھونڈتا رہا۔ دو تین گھنٹے یہیں گھنٹہ گھر کے آس پاس پھرتا رہا اور پھر سوچا کی نشتر میڈیکل کالج کو دیکھا جائے۔
1998ء کے بعد یعنی 21 سال بعد میں نے اس عمارت کی طرف قدم بڑھائے۔ ہاسٹل کے گیٹ پر بھی سیکیورٹی گارڈ تعینات تھا، لیکن ان سے پوچھے اور بتائے بنا میں آگے چلا آیا۔ اقبال ہال کے سامنے کینٹین ویران پڑی تھی اور وہاں موجود دکاندار نے ایک اچٹتی سی نگاہ مجھ پر ڈالی اور اپنے کام میں مگن ہوگیا۔
کینٹین کے سامنے موجود گراؤنڈ میں کچھ لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے، میں وہاں ادھڑی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کچھ دیر تک میچ دیکھتا رہا۔ یہاں اس کینٹین کے آس پاس گزارے ہوئے بہت سے دنوں کو تازہ کیا اور اچانک خیال آیا کہ نشتر کالج کے پہلو میں ایک 'روز گارڈن' ہوا کرتا تھا کیوں نہ اس کی سیر کرلی جائے۔
ہم کبھی کبھی شام کے وقت بڑے بھائی کے کچھ دوستوں کے ہمراہ اس طرف چکر لگایا کرتے تھے، اور جب پچھلے دنوں میں نے ویانا کا ایک روز گارڈن دیکھا تو اس دن مجھے سب سے پہلے اسی روز گارڈن کی یاد آئی تھی۔ نہ جانے اب وہ گارڈن وہاں ہے بھی یا نہیں؟ یہی سوچتا میں آہستہ آہستہ اسکوائش کورٹ کے پاس سے ہوتا ہوا اور ہیڈ برج پر چلا آیا۔
اس پُل کو تعمیر ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے۔ پارکنگ سے ہوتا ہوا میں کالج کے مرکزی حصے کی طرف آیا، کوئی ایک آدھ تصویر لی اور روز گارڈن کی طرف چل پڑا۔ ابھی کچھ ہی قدم چلا تھا کہ ایک انجانی سی آواز نے پکارا۔ ہیلو، ہیلو، ایک ہانپتا ہوا سیکیورٹی گارڈ میری طرف چلا آ رہا تھا۔ اس نے دُور سے ہی کہا کہ آپ کو سیکیورٹی انچارج بُلارہے ہیں۔
مجھے صورتحال سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی لیکن سیکیورٹی والے کے تیور کچھ ایسے تھے کہ اگر اس کے ساتھ نہ چلا تو وہ مجھے پکڑکے ہی لے جائے گا۔ میں نے کہا چلیے۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے مزین ایک کمرے میں سیکیورٹی کے انچارج صاحب موجود تھے، کہنے لگے کدھر جا رہے ہیں؟ اور تصاویر کیوں بنا رہے ہیں؟
میں نے اپنے پرانے زمانے کا حوالہ دیا اور تصاویر بنانے کی وجہ بتائی تو انہوں نے کہا کہ آپ بغیر اجازت تصاویر نہیں لے سکتے۔ اگر اجازت چاہیے تو کل آجائیے گا۔ میں نے کہا کہ میں تو چند گھنٹوں کے لیے اس شہر میں ہوں۔ لیکن وہ بات نہیں مانے، لہٰذا میں نے ان سے معذرت چاہی اور باہر نشتر روڈ پر چلا آیا۔
اگلے دن پھر سے حسین آگاہی اور گھنٹہ گھر کے علاقوں میں جانا ہوا۔ صرف مارچ کے مہینے میں ہی ملتان میں کچھ ذاتی کاموں کے حوالے سے 3 سے 4 بار آنا ہوا اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں لاری اڈے سے لے کر کچہری اور اندرونِ شہر سے بوس روڈ تک کئی جگہیں بہت سالوں بعد دیکھیں تو باوجود بہت کچھ بدل جانے کے ملتان اجنبی نہیں لگا۔
ہاں وقت گزرنے کے ساتھ اس شہر نے بہت سے حوالے تبدیل کرلیے لیکن پھر بھی ملتان سے ایک اپنائیت کا احساس سا ہے، ملتان ہمیشہ اپنا سا لگا ہے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔
تبصرے (11) بند ہیں