جوکر: کوئی مقابل نہیں دُور تک، بلکہ بہت دُور تک
دنیا میں کچھ فلمیں یوں بھی تخلیق ہوتی ہیں، جن میں صرف تفریح نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کے تاریک اور تلخ رویے ہوتے ہیں۔ وہ رویے کبھی کرداروں میں ملبوس فلم کے پردے پر محرومیوں کے بادبان کھولتے ہیں تو کبھی زندگی کے منچ پر تالیوں کی گونج میں پذیرائی سمیٹتے ہیں اور کبھی ان کے لیے زندگی صرف دُکھ کا نوحہ ہوتی ہے، جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، لیکن سب اس کا نام ضرور جانتے ہیں کہ وہ ’جوکر‘ ہے۔
ایسے کردار گمنامی میں اپنی موت مرجاتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ فلم ایسے ہی ایک کردار پر مبنی سائیکو تھرلر ہے، جس کے لیے امریکا میں کئی بار مختلف شہروں میں حقیقی بازاروں، سڑکوں اور عمارتوں میں شوٹنگ کی گئی۔
یہی وہ فلم ہے، جس کی ریلیز کے دن سے لے کر اب تک امریکی فوج اور پولیس الرٹ ہے کہ کہیں اس کو دیکھ کر فلم بین متشدد نہ ہوجائیں۔ یہ فلم امریکا کی قومی سلامتی کا مسئلہ بنی ہوئی ہے حالانکہ غور سے دیکھیں تو یہ فلم صرف ایک دیوانے کے جنون کی داستان کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہے۔
فلم کے اس مرکزی کردار کی زندگی ایک تماشا بن کر رہ گئی لیکن زمانے کے لیے وہ پھر بھی ایک جوکر ہے، جس کی زندگی معاشرے کے لیے ایک مذاق سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہی تضاد پھر جب تصادم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور حالات ایک معصوم کردار کو سفاک کردار میں بدل دیتے ہیں۔
اس بار فلم کے پردے پر ’جوکر‘ نے اپنی چومکھی لڑائی اس طرح لڑی ہے کہ فلم بینوں کے ہاں پیدا ہونے والی حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے دبی ہوئی ہیں۔ اس ماسٹر پیس اور فن کے شاہکار فلمی نمونے پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔
کہانی اور اسکرپٹ
60 کی دہائی میں ’ڈی سی کامکس‘ کے نام سے شروع ہونے والے امریکی اشاعتی ادارے نے اپنے قیام سے آج تک بہت سارے یادگار افسانوی کردار تخلیق کیے، جن کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔ ان میں سے ایک مقبول ترین کردار ’جوکر‘ بھی ہے۔
ہولی وڈ میں اب تک لگ بھگ 11 فلمیں اس کردار پر بن چکی ہیں، جن میں سے تازہ ترین فلم یہ ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ’ٹوڈ فلپس‘ ہیں، جنہوں نے اسکرپٹ رائٹر ’اسکاٹ سلور‘ کے ساتھ مل کر پرانے کردار کے سنگ کہانی میں نیا پن دریافت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے، اس فلم کی کہانی زیادہ پُرتجسس اور اپنی طرف کھینچنے والی ثابت ہوئی ہے۔ ان دنوں یہ فلم دنیا بھر میں زیرِ بحث ہے۔
فلم کی کہانی کافی سادہ مگر انجام بہت پیچیدہ ہے۔ 1981ء کے پس منظر میں ایک خیالی شہر ’گوتھم‘ دکھایا گیا ہے، جہاں ’آرتھر فلیک‘ رہتا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے جوکر ہے اور اسٹینڈ اپ کامیڈی میں نام کمانا چاہتا ہے۔ غربت اور بوڑھی ماں کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے دن رات جتن کرتا ہے۔ اس کو ایک اعصابی بیماری ’نیورولوجیکل ڈِس آڈر‘ ہے۔ اس بیماری کی سنگین علامت یہ ہوتی ہے کہ نازک اور پریشان کن حالات میں اس کو ہنسی آتی ہے، جبکہ آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں۔
اس بیماری کے ہاتھوں وہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے، کئی بار جان لیوا حملوں کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ اس پر ہر وقت ایک اداسی طاری رہتی ہے، وہ بہت کوشش کرتا ہے کہ حالات کو نارمل بنالے، مگر چیزیں اس کے ہاتھ سے نکلتی چلی جاتی ہیں۔
پھر اس کی زندگی ایسا موڑ لیتی ہے کہ وہ ایک معصوم شخص سے سفاک قاتل بن جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جس سے اس کو کوئی تکلیف پہنچی ہوتی ہے، ان سب کو ایک ایک کرکے قتل کردیتا ہے۔ اس قتلِ عام سے اس کی اداسی بدل کر خوشی کی کیفیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
اپنی شناخت کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا آرتھر فلیک سرشاری کی نئی دنیا سے متعارف ہوتا ہے۔ ایک لمحے پر وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ خودکشی کرلے، لیکن زندگی میں اچانک ملنے والی رعنائی اس کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ وہ قتل و غارت کی ہولی کھیلنے لگتا ہے، اس کا یہ کھیل کس حد تک پھیل کر معاشرے کو بھی اپنے حصار میں لے لیتا ہے، یہ کہانی اسی کیفیت اور اذیت کی مرہون منت ہے۔
اس کا ایک مکالمہ پوری فلم کی تھیم اور کہانی کوزے میں دریا بند کرنے کی مانند ہے۔ ’میری زندگی دُکھ کا نوحہ ہے، لیکن معاشرے کے لیے یہ محض ایک مذاق ہے‘۔
فلم سازی اور ہدایت کاری
یہ فلم اپنی فلم سازی اور ہدایت کاری دونوں کی وجہ سے بہت عمدہ ہے۔ اس کی تخلیق میں ہولی وڈ کی 4 بڑی پروڈکشن کمپنیاں شامل ہیں، جبکہ تقسیم کاری ’وارنر براس‘ جیسے اہم فلم ساز ادارے کے پاس ہے۔
پروڈیوسرز میں فلم کے ہدایت کار ٹوڈ فلپس کے علاوہ معروف اداکار ’بریڈلے چوپر‘ اور’ایما تیلینگر کوس کوف‘ بھی شامل ہیں۔ تقریباً 7 کروڑ ڈالر سے بننے والی اس فلم نے پہلے 3 دن میں اپنی لاگت سے زیادہ نفع کما کر بے تحاشا کمانے والی فلموں میں اپنا نام شامل کروا لیا ہے۔
ابتدائی طور پر فلم ساز ادارے چاہتے تھے کہ اس فلم کے لیے معروف امریکی اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کو مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کیا جائے، لیکن ہدایت کار ٹوڈ فلپس نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا کہ اس کہانی کو لکھتے وقت جس اداکار کو ذہن میں رکھ کر کردار لکھا، اسی کو وہ مرکزی کردار دیں گے اور اس کا نام ’کوائین فیونکس‘ تھا۔
امریکا کے مختلف شہروں میں حقیقی مقامات پر ہزاروں ایکسٹراز کے ساتھ یہ فلم عکس بند کی گئی۔ فلم کو روایتی کامکس مووی کے رنگ میں ڈھالنے کی بجائے مرکزی کردار کو اخذ کرکے اردگرد نئی کہانی اور ماحول تخلیق کیا گیا اور اس تجربے نے فلم کو چار چاند لگا دیے۔
فلم میں شامل مختلف فریمز، رنگ و روشنیاں، کاسٹیومز اور اس کے ساتھ ساتھ کہانی کی ترتیب اور مکالمات نے سماں باندھ دیا۔ فلم پر ہدایت کار کی مضبوط گرفت رہی اور کسی بھی جگہ سے فلم کو کمزور نہیں پڑنے دیا، سوائے اس بات کہ فلم جب اپنے دوسرے ہاف میں داخل ہوئی تو تشدد کے مناظر کچھ زیادہ ہی شامل کردیے گئے، جس سے فلم بینوں کو ناگواری کا احساس ہوا۔ فلمی ناقدین نے بھی اس تشدد پر مبنی پہلو کو ناپسند کیا۔
امریکا میں اسی سلسلے کی ’بیٹ مین سیریز‘ کی ایک فلم کی نمائش کے دوران 2012ء میں اس وقت اندوہناک واقعہ پیش آیا جب فلم کی نمائش کے دوران سینما تھیٹر میں ایک شخص نے فائرنگ سے کئی لوگوں کی جان لے لی اور متعدد زخمی ہوئے۔
’جوکر‘ فلم کے لیے بھی یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس کی نمائش سے ہنگامے پھوٹ سکتے ہیں، اس لیے امریکی فوج اور پولیس نے اس پر کڑی نظر رکھی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
فلم کے ہدایت کار نے پُرتشدد مناظر کی وضاحت کی لیکن مرکزی کردار کوائین فیونکس نے ان اعتراضات کا بُرا مانا، کیونکہ ان کے خیال میں فلم بینوں کی تربیت کرنا فلم سازوں اور اداکاروں کا کام نہیں ہے، وہ صرف فلم بنانا اور اس میں کام کرنا جانتے ہیں، فلم کی کہانی کا کس پر کیسا اثر پڑتا ہے، یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔
اس طرح کے تنازعات کے باوجود فلم کی پسندیدگی کا تناسب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ یہ ابھی تک مختصر مدت میں وینس فلم فیسٹیول کے ایوارڈ سمیت 3 بڑے ایوارڈز حاصل کرچکی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ یہ فلم 2020ء کے آسکر کے لیے بہترین فلم اور بہترین اداکار سمیت بہترین اوریجنل میوزک کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرلے۔ اس فلم کو اگر میوزیکل جوکر بھی کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
موسیقی اور ساؤنڈ ٹریکس
اس فلم میں سے موسیقی نکال دی جائے تو اس کا اثر صرف 50 فیصد رہ جائے گا، کیونکہ موسیقی نے اس فلم میں ایک توانائی بھر دی۔ فلم دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موسیقی کی زبان میں کرداروں کی کیفیات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ خوشی اور غم، حیرت اور اداسی کے رنگوں کو موسیقی کے ذریعے بہت ہی عمدہ طور سے پیش کیا گیا ہے۔
اس کام کو تن تنہا اور اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرنے والی موسیقار ’ہلدور گووناڈوتیر‘ نے کیا ہے اور کمال کیا ہے۔ چاہے وہ پس پردہ موسیقی ہو یا فلم کی تھیم کے گیت اور مختلف مناظر کے لیے خاص طور پر مرتب کی گئی موسیقی، ہر لحاظ سے موسیقی فلم پر حاوی رہی، جس کی وجہ سے مکالموں اور کرداروں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اس طرح کی فلم میں موسیقی کا ایسا تجربہ اپنی مثال آپ ثابت ہوا ہے۔ آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والی اس کم عمر خاتون موسیقار نے اس فلم کے علاوہ بھی ہولی وڈ کی متعدد بڑی اور یادگار فلموں میں میوزک دیا ہے۔ انہیں اپنے کام پر مکمل دسترس ہے، جس کا احساس تب ہوتا ہے، جب ان کی تخلیق کی ہوئی دھنیں کرداروں کے ساتھ ساتھ چل کر ہماری سماعت کے راستے سے دل میں اترتی چلی جاتی ہیں، یہ فلم اس بات کا چلتا پھرتا اور عملی ثبوت ہے۔
اداکاری
فلم کی دنیا میں ہر فنکار کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایک فلم یا کردار ایسا ضرور مل جائے، جو اس کی شناخت بن جائے۔ اس فلم کے ہدایت کار اور مرکزی کردار نبھانے والے اداکار، دونوں کی خواہش پوری ہوگئی ہے۔ ایک کو بہترین فلم ملی ہدایت کاری کے لیے، تو دوسرے کو اپنے فن کی معراج پانے کے لیے شاندار کردار ملا، جس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔
اس فلم میں جوکر کا کردار نبھانے والے اداکار کوائین فیونکس نے 50 پونڈ سے بھی زیادہ اپنا وزن کم کیا اور خود کو ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کرلیا۔ ان کے ساتھ فلم میں کام کرنے والے ساتھی اداکاروں، جن میں رابرٹ ڈی نیرو جیسے عظیم اداکار بھی شامل ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ’اس نے اپنی اداکاری پر بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کیا‘۔
اسی طرح ان کی ایک اور ساتھی اداکارہ زازی بیٹس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کوائین فیونکس اپنے کردار میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ وہ سیٹ پر بھی اپنی مخصوص کیفیت میں رہتا۔ اسی کیفیت میں اس نے ساتھی اداکاروں سے مکالموں کے علاوہ زیادہ بات نہیں کی۔ نہ جانے اس کو اپنے اس کردار سے باہر آنے میں کتنا وقت لگ جائے گا، کیونکہ فی الحال تو وہ اپنے کردار کے سحر میں مکمل طور پر جکڑا ہوا ہے، اور اس پر کوئی تنقید کرے تو وہ اس جگہ سے اٹھ کر چلا جاتا ہے۔
اس فلم کے دیگر اداکاروں میں رابرٹ ڈی نیرو نے اپنا مختصر لیکن اچھا کردار نبھایا، جبکہ زازی بیٹس نے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔ فرانسز کونرری نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا، جبکہ ان کے ساتھ ساتھ ہزاروں ایکسٹراز نے بھی فلم کے منظرنامے پر اپنے اپنے رنگ بھرے۔
اس فلم سے پہلے جوکر کے کردار میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والی فلم میں ہیت لیجر نے متاثر کن اداکاری کی تھی، ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس مقبولیت کو کوائین فیونکس اپنے نام کریں گے، ہرچند کہ حقیقی زندگی میں یہ دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی تھے۔
نتیجہ
معاشرتی رویوں کے اتار چڑھاؤ میں ایسی فلمیں فیصلہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ذہنی بیماری پر مبنی اور نفسیاتی مسائل کے شکار کردار کو مثبت اور منفی پہلوؤں سے دکھانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی طرف سے اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کیسے کیا حالات ہوتے ہیں جب کوئی بلاوجہ جرائم کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ یہ فلم ایسی ہی ایک کہانی کو بیان کرتی ہے۔
معاشرے کی بہتری اور سدھار کے لیے اس طرح کی فلموں کا بننا مثبت عمل ہے، جس کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اس فلم کے لیے کہیں واضح ہدایات نہیں دی گئیں کہ یہ فلم بچوں کے دیکھنے کی نہیں ہے، لہٰذا اس فلم کو ضرور دیکھنے جائیں مگر بچوں کے ساتھ نہیں کیونکہ یہ فلم تلخ، کربناک، مگر شاندار کہانی پر مبنی ہے، جس کو دیکھنے کے بعد بہت دیر تک آپ بھی اس کے حصار میں رہیں گے۔
ایسی فلمیں سینما کے پردے پر ہی دیکھنے کا لطف ہے، اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت نکال کر دوستوں کے ساتھ جاکر یہ فلم دیکھیے کہ کس طرح کہانی کہنے کا اچھوتا انداز ہے، لہٰذا دیر نہ کیجیے، جوکر آپ کا انتظار کر رہا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں