چونیاں میں ریپ کے بعد بچوں کا قتل، ملزم 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کے قتل کے ملزم کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
صوبائی دارالحکومت کی عدالت میں منتظم جج عبدالقیوم نے چونیاں میں 4 بچوں کے زیادتی کے بعد قتل اور لاشیں ملنے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
اس دوران پولیس نے گرفتار ملزم سہیل شہزاد کو سخت سیکیورٹی میں چہرہ پر کپڑا ڈال کر عدالت میں پیش کیا جبکہ دلائل کے لیے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم کا چہرہ ڈھانپنے کی کیا ضرورت ہے؟، جس پر بتایا گیا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ملزم کا چہرہ ڈھانپا گیا۔
مزید پڑھیں: چونیاں میں بچوں کا ریپ،قتل: عثمان بزدار کا ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ
اس پر عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا نام ہے آپ کا؟ کچھ کہنا چاہتے ہو؟، جس پر ملزم نے جواب دیا کہ مجھے دوران حراست مارا نہ جائے۔
دوران سماعت تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو 4 میں سے ایک بچے کے قتل اور جنسی استحصال کے خلاف درج ایف آئی آر پر عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ دیگر 3 بچوں سے متعلق درج مقدمات میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایک ہزار 668 افراد کے ڈی این اے کروائے گئے، ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے مقتول سے میچ ہوا۔
سماعت کے دوران پرایسکیوٹر نے کہا کہ آر پی او شیخوپورہ، ڈی پی او قصور اور ایس پی انویسٹیگیشن پر مشتمل جے آئی ٹی نے تحقیقات کی ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے ملزم کے 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، تاہم عدالت نے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے ملزم کے طبی معائنے کا بھی حکم دے دیا۔
خیال رہے کہ یکم اکتوبر کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزاد کی گرفتاری کا اعلان ایک تفصیلی پریس کانفرنس بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ ملزم کی شناخت کے لیے کن طریقہ کاروں کو استعمال کیا۔
وزیراعلیٰ نے تصدیق کی تھی کہ یہ ملزم ریپ کے بعد قتل ہونے والے ان چاروں کیسز کے پیچے تھا جبکہ ساتھ ہی ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: قصور: بچوں کے قاتل کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر
واضح رہے کہ رواں سال جون سے 8 سے 12 سال کی عمر کے 4 بچے لاپتہ ہوگئے تھے جبکہ 16 ستمبر کی رات کو 8 سالہ فیضان لاپتہ ہوا تھا۔
ان میں سے 3 بچوں کی لاشیں 17 ستمبر کو چونیاں بائی پاس کے قریب مٹی کے ٹیلوں میں سے ملی تھیں۔
بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔
علاوہ ازیں لاقانونیت اور لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ میں پولیس کی ناکامی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں قصور بچوں کے ریپ، زیادتی کے واقعات سے لرزاٹھا ہے۔
جنوری 2018 میں 5 روز سے لاپتہ رہنے کے بعد 6 سالہ بچی زینب انصاری کی لاش قصور میں شہباز خان روڈ کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور لوگوں کی جانب سے ان واقعات میں ملوث لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
مزید پڑھیں: قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا، وزیراعظم
زینب کے کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کو 23 جنوری 2018 کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور 12 جون کو عدالت عظمیٰ نے ملزم کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم نے 8 دیگر بچوں کے ساتھ اسی طرح کا جرم کیا، بعد ازاں عمران علی کو گزشتہ برس اکتوبر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
اس سے قبل 2015 میں قصور کے حسین خان والا گاؤں نے دنیا بھر کی توجہ اس وقت حاصل کی تھی جب وہاں چائلڈ پرنوگرافی کا معاملہ سامنے آیا تھا، اس وقت سیکڑوں ایسی ویڈیو کلپس سامنے آئی تھیں جس میں ایک گروپ کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی عمل کرنے اور اس کی فلم بندی کرنے پر مجبور کرتھا تھا۔
یہ گروپ ان ویڈیوز کو ان بچوں کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا اور ان سے لاکھوں روپے نقد اور جیولری کی صورت میں وصول کرتا تھا۔