• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

حکومت اگر نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دے سکتی تو ان کیلئے یہ کام ہی کرلے

شائع October 2, 2019
حکومت کو طویل مدت کے لیے نوجوانوں کے لیے انٹرن شپس کا انتظام کرنا چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی
حکومت کو طویل مدت کے لیے نوجوانوں کے لیے انٹرن شپس کا انتظام کرنا چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی نصف سے زائد آبادی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے، آبادی کے زیادہ بڑھنے سے وسائل میں قلت کے ساتھ معاشی ترقی کی شرح میں بھی کمی آ چکی ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ 29 فیصد آبادی 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے. ساتھ ہی پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس میں نوجوانوں کی شرح زیادہ ہے۔

پاکستان سے پہلے یمن میں بھی نوجوانوں کی شرح زیادہ تھی، تاہم وہاں اس وقت نوجوانوں کے لیے حالات خراب ہو چکے ہیں، کیونکہ وہاں پر 75 فیصد نوجوان مسلسل تصادم کی صورت حال میں گرفتار ہو چکے ہیں، خانہ جنگی اور بیرونی طاقتوں کے جھگڑوں کے باعث وہاں کے نوجوانوں کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے، تعلیم میں فقدان اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان وہاں سڑکوں پر آ چکے ہیں۔

پاکستان میں بھی نوجوانوں کے حالات کچھ زیادہ موافق نہیں ہیں، ملک کی 64 فیصد آبادی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جو اپنے ہنر، طاقت و توانائی سے حالات کو بدل سکتے ہیں لیکن حکومت کے ذاتی مفادات اور لاپروائی کی وجہ سے صورتحال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جرائم کی شرح میں اضافے کے ساتھ مجموعی داخلی پیداوار میں ایک بحران آچکا ہے اور ہمارے یہ مسائل صرف غربت تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 5 سے 10 فیصد نوجوان روزگار کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اور جن خوش نصیب نوجوانوں کو تھوڑا بہت روزگار میسر ہوتا ہے تو انہیں وہ وسائل ہی فراہم نہیں کیے جاتے جن کی وجہ سے ان کو ملکی معیشت میں حصہ دار بننے کا موقع مل سکے۔

عام طور پر پاکستان میں والدین کی جانب سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جب نوجوانوں کو اسکول، کالج و یونیورسٹی بھیجا جائے تو حکومت کی طرف سے انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار بھی فراہم کیا جائے گا لیکن چوں کہ ملک میں ہر جگہ ایک پرانا اور بوسیدہ انفرااسٹرکچر موجود ہے جو اتنا ناپید ہو چکا ہے کہ نوجوانوں کی ضروریات کو بروئے کار لانے کی سکت ہی کھو چکا ہے اور ساتھ ہی ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی ایک بڑا خلا موجود ہے جو اسی وقت پر ہو سکتا ہے جب نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور ان کی ہنر مندانہ تربیت کرنے سمیت حکومت انہیں مالی تعاون بھی فراہم کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو بڑھتی آبادی سے کن مسائل کا سامنا ہے؟

مجموعی داخلی پیداوار میں کمی کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو پا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سالانہ بنیادوں پر معاشی استحکام میں کمی ہی آر رہی ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ گزشتہ برس تک ملک کی مجموعی داخلی پیداوار کی شرح 4 سے 5 فیصد تھی، اس سے قبل 2017 میں 5 سے 6 فیصد تھی جبکہ اس وقت یہ شرح 2 سے 3 فیصد ہے جو کہ ملکی سطح کی سب سے کم شرح بھی ہے اور اسی وجہ سے بے روزگاری میں 6 سے 10 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے۔

وہ نوجوان جو وقتی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے نوکری و ملازمت کر رہے ہیں ملکی معیشت میں سست روی کی بدولت وہ مجبور ہیں کہ وہ ملازمت کو چھوڑ دیں جس میں آمدنی انتہائی کم ہے اور یہ ان کی اور گھر والوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے، ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا کبھی کسی حکمران نے یہ سوچا ہے کہ اگر ملکی بحران سے یہ نوجوان سڑکوں پر آگئے تو ان کا کیا ہوگا؟۔

میری نظر میں مستقبل قریب میں پاکستان میں خاطر خواہ کوئی بھی بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی اور اگر ہمیں بہتری کی طرف قدم بڑھانے ہیں تو ہماری معیشت کی شرح کم سے کم 10 فیصد ہونی چاہیے اور یہ اسی صورت میں ہی ممکن ہے جب پاکستان کی حکومت نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔

ہمیں اس حقیقت سے بھی باخبر رہنا چاہیے کہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے نوجوان مایوسی کا شکار ہو کر منشیات کے استعمال کی طرف لگ جاتے ہیں جو ان کو وقتی سکون دیتا ہے لیکن بعض نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو نا امیدی کی وجہ سے غیر قانونی سرگرمیوں کو اپنا پیشا بنا لیتے ہیں، پہلے چھوٹے چھوٹے جرائم کرتے ہیں پھر کسی بڑے گینگ کا حصہ بن جاتے ہیں، ان جرائم کے بڑھنے سے ملکی سالمیت کو ہی خطرہ ہو رہا ہے، اگر پاکستان میں معاشی ترقی میں بہتری نہ آئی تو خدشہ ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں میں جرائم کی شرح بڑھ جائے۔

ان حالات کی وجہ سے معاشرے میں آپسی تنازعات، تشدد اور افراتفری کے امکانات زیادہ ہیں، یقیناً ان پر تشدد واقعات کے نتیجے میں ملک میں جرائم کے اعداد و شمار میں اضافہ ہی ہوگا، مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم تنازعات اور تشدد کے درمیان میں ہیں کیونکہ ہمارے نسلی، ذہنی، سیاسی و عقائدی امور یہاں تک علاقائی مسائل پر مبنی اختلافات کا تناسب بھی زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: بڑھتی آبادی، پاکستان میں 7 افراد کے لیے ایک چھت دستیاب

ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت نوجوانوں کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بارے میں عملی فکر و سوچ کی طرف خود کو لائے، اگر ابتدائی طور پر ہی حکومت نوجوانوں کے لیے تربیتی اور سرمایہ دارنہ پروگرام کا انعقاد کرے تو وہ اپنی ہنر مندانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے ساتھ ساتھ ملکی معیشیت کو مستحکم کر نے میں فعال کردار ادا کر سکیں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ پروگرامز متعارف کروائے اور یہ پہلے سے ہی مخصوص کر دے کہ یہ مخصوص وقت تک نہیں ہوگی جیسے کہ پچھلی حکومت نے جن انٹرن شپس کا آغاز کیا تھا ان کی مدت ایک سال تھی جب کہ ہونا یہ چاہیے کے ان نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ کی مدت تب تک ہو جب تک ان کو اچھی جگہ ملازمت نہ مل جائے۔

دوسرا حکومت کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں ہیں کہ وہ ہر نوجوان کو انٹرن شپ دے سکے تو اس کا بہتر اور آسان حل یہ ہے کہ حکومت نجی اداروں کو قائل کرے کہ وہ نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ کا آغاز کریں، ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کریں اور اس کے علاوہ ان کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے جیسا کہ پودے لگانا اور رضاکارانہ طور پر سماجی کارکن بن کر کام کرنا اس طرح سے ان کی غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔

یاد رکھیں کہ اگر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف نہ لایا گیا یا ان کی مالی حالت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ان میں منفی طرز عمل پیدا ہونے اور جرائم کی طرف جانے کے خدشات ہیں اور پھر معاملات حکومتی دائرہ کار سے بھی نکل سکتے ہیں۔


لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی آف اسلام آباد کے شعبہ سماجیات کے چیئرمین ہیں، وہ پاکستان میں سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، جہاں وہ سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں، وہیں وہ ان کے حل کی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔

ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024