‘عمران خان کو ایک نئی لائف لائن مل گئی‘
وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب نے جہاں بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل کی ہے وہیں کچھ سوالات کو بھی جنم دیا ہے، مثلاً اس خطاب کے بعد کون سی اہم پیش رفت متوقع ہے؟ کیا مغرب سمیت دنیا کی کشمیر پر خاموشی ٹوٹ جائے گی؟ کیا وزیرِاعظم نے کشمیر کا کیس مؤثر انداز میں لڑا؟ ان کی اس تقریر سے داخلی سیاست میں کون سی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں؟ اس کے علاوہ عمران خان کی تقریر میں کہاں کمی تھی اور کہاں بیشی؟
اس حوالے سے سینئر صحافی کیا رائے رکھتے ہیں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
مبشر زیدی
آپ ڈان نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن اور ٹی وی پروگرام ‘ذرا ہٹ کے‘ کے میزبان ہیں
وزیرِاعظم پاکستان کی تقریر جاندار تھی۔ حالیہ برسوں کے دوران شاید ہی کسی پاکستانی وزیرِاعظم نے اتنی مؤثر تقریر کی ہو، مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس تقریر کے بعد کیا کچھ بدلے گا؟ میرا نہیں خیال کہ زمینی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی۔
عمران خان کی تقریر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے پاکستان واحد ملک ہے جو مسلسل کشمیر کی آواز بنا ہوا ہے۔
وزیرِاعظم کی تقریر نے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ کوئی ہے جو دنیا میں ان کے لیے آواز اٹھا رہا ہے۔ عملی طور پر اس تقریر کے بعد نہ تو 370 کی شق ختم ہوگی اور نہ ہی کشمیر آزاد ہوجائے گا۔ تاہم اس خطاب سے کشمیریوں کو یہ حوصلہ ضرور ملے گا کہ اگر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد کوئی جدوجہد شروع کرتے ہیں تو کم از کم ان کا ساتھ دینے کے لیے دنیا میں ایک ملک یا قوم ضرور موجود ہے۔
کشمیر میں ایک نہ ایک دن تو پابندیاں ہٹنی ہیں اور جب یہ پابندیاں اٹھائی جائیں گی تب کشمیر کا لاوا پھٹے گا اور مزاحمت کا آغاز ہوگا۔ اب یہ پاکستان کے اوپر ہے کہ وہ اس مزاحمت کی کس طرح معاونت کرتا ہے یا دنیا کو یہ کس طرح باور کرواتا ہے کہ یہ مزاحمت آزادی کے لیے ہے دہشتگردی کے لیے نہیں ہے۔
دیکھیے کشمیر میں جب بھی کسی قسم کی مسلح جدوجہد کا دوبارہ آغاز ہوگا تو بھارت کی کوشش ہوگی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا الزام پاکستان پر دھرے۔ چنانچہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے سامنے یہ بات رکھے کہ کشمیر میں جو بھی مسلح جدوجہد شروع ہوتی ہے اس کا ذمہ دار خود بھارت ہے نہ کہ پاکستان۔
محمد ناصر زیدی
آپ 92 نیوز میں بطور انٹرنیشنل ڈیسک ہیڈ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں
سچ کہوں تو میں نے اپنی 40 سالہ زندگی میں ایسی تقریر نہیں سنی۔ میں نے پرچی تھامے حکمران دیکھے ہیں جو نہ سوچ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔
کشمیر کب آزاد ہوگا، کشمیریوں کو حق خودارادیت کب نصیب ہوگا؟ کچھ معلوم نہیں لیکن عمران خان نے کشمیر کے لیے سب سے زیادہ آواز بلند کی، عالمی برادری کے سامنے شاندار انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑا۔ پاکستانی قوم اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
تاریخ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیجیے امریکا کے سامنے کسی نے اس طرح کا لہجہ استعمال نہیں کیا۔ امریکا اس وقت سفید فام بالادستی کے حامیوں کے ہاتھ میں ہے، خود ٹرمپ ایک قوم پرست ذہنیت کا مالک ہے۔
وہ مفادات کے لیے سعودی شہزادوں اور اسرائیلی غاصبوں کے سنگین جرائم تک کو درگز کردیتا ہے۔ ٹرمپ اپنی بات پر اٹل نہیں رہتا، اسے اپنا نیشنل کارڈ ہی محبوب ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ ایک منہ پھٹ رہنما ہے، چنانچہ عمران خان نے انہی کے لہجے میں انہیں اپنا جواب دیا ہے۔
عمران خان مغربی نفسیات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر بھرپور روشنی ڈالی ہے جنہیں مغربی کافی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ امریکا اور مغرب انسانی حقوق اور رائے کی آزادی کا راگ الاپ کر دنیا میں اپنے اثرات مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ عمران خان نے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق، حق خودارادیت اور آزادئ اظہار کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں پر جو بات اقوام عالم کے سامنے رکھی ہے وہ مغربی نفیسات کے عین مطابق ہے۔
اس خطاب کے بعد مغرب سوچ سمجھ کر اپنی بات رکھے گا اور پاکستان کو ہلکا نہیں لے گا۔
آصف شاہد
آپ جی این این نیوز میں بطور انٹرنیشنل ڈیسک ہیڈ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں مختلف ممالک کے سربراہان تقاریر کے ذریعے اپنے ریاستی مؤقف کو پیش کرتے رہے ہیں تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس مؤقف کو سُن کر ایکشن ہو اور کبھی ایسا ہوا بھی نہیں ہے۔ ماضی میں فلسطین اسرائیل تنازع پر یاسر عرافات زبردست خطاب کرچکے ہیں، وینزویلا کے ہوگو شاویز امریکی ظلم و جبر پر کھل کر روشنی ڈال چکے ہیں، فیڈل کاسترو نے بھی اس اسٹیج پر کھڑے ہوکر طویل تقریریں کیں تاہم یہ تقاریر خاطر خواہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہیں۔
البتہ عمران خان نے اپنی تقریر کے ذریعے اقوام عالم کے سامنے زبردست انداز میں کشمیر اور وہاں ڈھائے جانے والے مظالم کو پیش کیا ہے۔
عمران خان کو اس تقریر کی وجہ سے داخلی سیاست میں بھی کافی زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ عمران خان نے عالمی اسٹیج پر بھی اپنے ووٹرز کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔
ممکن ہے کہ اس تقریر کے بعد مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف اپنا مارچ مؤخر کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ انہوں نے دنیا کے آگے اسلاموفوبیا پر کھل کر بات کی اور تقریر میں لا الہ الا اللہ کا نعرہ بلند کیا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف جو تحریک ہوگی اس کو عوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملے گی کیونکہ جے یو آئی (ایف ) نے مارچ کو ختم نبوت مارچ کا تاثر دیا ہوا ہے ایسے میں وہ اپنے سیاسی و مذہبی حامیوں کی ایک گنی چُنی تعداد کو تو اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی انہیں عوامی سطح پر حمایت درکار ہوگی، چنانچہ ممکن ہے کہ اب مولانا کو نئی حکمت عملی کا سہارا لینا پڑ جائے۔
میں اب کم سے کم دو ماہ تک کسی قسم کی حکومت مخالف تحریک کو چلتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔
دراصل عمران خان کو اقوام متحدہ کے اسٹیج سے ایک نئی لائف لائن ملی ہے۔ اس تقریر کے بعد داخلی سیاست میں ان پر جو دباؤ تھا اب وہ تقریباً ختم ہوچکا ہے لیکن پریشر سے آزادی محدود مدت کے لیے ہوتی ہے لہٰذا حکومت کو ہر صورت اپنی کارکردگی ٹھیک کرنا ہی ہوگی، تاہم حالیہ دنوں میں جس طرح سیاسی جماعتیں موجودہ حکمراں جماعت کو دیوار سے لگانا، اپنی بات منوانا اور دباؤ بڑھانا چاہتی تھیں اس کے خلاف وزیرِاعظم کو کچھ وقت کی مہلت مل چکی ہے کیونکہ ان کے ووٹرز، مداحوں اور عام آدمی کی سوچ ایک حد تک بدلی ہے۔
عمران خان نے بڑے دمدار انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے لیکن تاریخ کا جائزہ لیں تو یاسر عرافات نے بھی اسی اسٹیج پر کھڑے ہو کر تنازعات پر زبردست انداز میں روشنی ڈالی تھی۔ ان کی تقاریر کو بھی سراہا گیا تھا اور تالیاں بجیں تھیں مگر اس کے بعد کیا کبھی فلسطین اسرائیل تنازع کے حوالے سے کوئی جامع ایکشن ہوا؟ کسی ملک کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی؟ ووٹنگ پیٹرن کبھی تبدیل ہوا؟ یا کسی قسم کی پیش رفت دیکھنے میں آئی؟ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ اقوام متحدہ کے ایسے کسی فورم پر خطاب کرنے سے کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوگی لیکن میں ایک بار پھر یہ کہوں گا کہ کشمیر کا کیس مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں افغان مسئلے کا بھی تذکرہ کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان اب کشمیر کے حل کے لیے افغان امن معاملے میں اپنے کردار کا فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اب افغانستان میں امریکا کو پاکستان کا تعاون اس وقت ہی دسیتاب ہوگا جب واشنگٹن پاک-بھارت کے درمیان تنازع کا سبب بنے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اسلام آباد کو کچھ ریلیف فراہم کرے گا۔
عمران یعقوب
آپ متعدد چینلز میں ڈائریکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز رہ چکے ہیں۔ اب بھی ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں
وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کافی متاثر کن رہی۔ ان کا فوکس کہیں بھی نہیں ڈگمگایا، انہوں نے تقریر میں پہلے ایجنڈا بنایا، تمہید باندھی اور پھر اقوام عالم کی توجہ مسائل کی طرف مبذول کروائی۔ اگر وہ سیدھا مسئلہ کشمیر پر آتے تو وہ اتنی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپاتے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں موسمیاتی تبدیلی کو بھی موضوع بنایا جس میں مغرب کے کردار کو بھی بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔ انہوں نے مغرب کو صاف پیغام دیا کہ آپ لوگوں، آپ سرمایہ داروں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔
بعدازاں انہوں نے اسلامو فوبیا پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ دہشتگردی اور خود کش حملہ کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ 9/11 کے واقعے کے بعد ’اسلامی دہشتگردی‘ کی اصطلاح کا شور برپا کیا گیا۔ اس سے پہلے سری لنکا اور جاپان میں ہونے والے خود کش حملوں میں کیا مسلمانوں کا ہاتھ تھا؟
سری لنکا میں خود کش حملے تامل ٹائیگرز کرتے تھے لیکن کسی نے اس کو ہندوؤں سے نہیں جوڑا اور بالکل ٹھیک کیا۔
عمران خان نے مغرب سمیت دنیا کی تمام طاقتوں کو کہا کہ آپ 80 لاکھ کشمیریوں پر خاموش ہیں لیکن اگر اسی طرح محض 8 ہزار یہودی محصور ہوتے تو کیا یہودی برادری اسی طرح تماشائی بنی ہوتی؟ حتیٰ کہ اگر انگلینڈ میں جانوروں کو بھی قید میں رکھا جائے تو چیخ و پکار مچ جائے گی، آپ کو جانوروں کے حقوق تو عزیز ہوسکتے ہیں لیکن مسلمانوں کے حقوق کی پامالیاں کیوں نہیں نظر آتی؟
اگر ان کے اس دورہ امریکا کی بات کی جائے تو انہوں نے اس دوران دنیا کے مختلف سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ کام 50 روز قبل ہی شروع کردیا ہوتا تو ان کی بات کا وزن اس سے بھی زیادہ ہوتا۔
اگر ہمارے وزیرِاعظم نے روزِ اوّل سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اجاگر کیے ہوتے تو ممکن تھا کہ وہاں چند دیگر ممالک کے سربراہان بھی کشمیر پر مفصل روشنی ڈالتے۔
اگر پاکستان کی پہلے سے ہی لابنگ مضبوط ہوتی اور دیگر ملکوں کو اپنا مؤقف بتایا ہوتا تو پھر اقوامِ عالم کے آگے ہماری حمایت مزید بہتر انداز میں نظر آتی۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ وزیرِاعظم کی تقریر کے بعد کشمیر میں بہتری آنے کے کتنے امکانات ہیں تو معذرت کے ساتھ مجھے زیادہ امکانات نظر نہیں آتے کیونکہ امریکا اور انڈیا اپنے مفادات کو اولین ترجیح دیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکا نے پاکستان کو محض رجھانے کے لیے لالی پاپ دے دیا ہے تاکہ ہم ان کی افغانستان سے انخلا میں مدد فراہم کرسکیں۔
کشمیر معاملے پر ایلس ویلز نے بھارتی حکام پر زور دیا کہ وہ داخلی طور پر اپنے لوگوں سے بات چیت کریں اور پاکستان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کشمیر کے لیے مصنوعی ایکشن لے رہا ہے جبکہ عملی طور پر امریکا یا مغرب کشمیر کے لیے کسی قسم کا ٹھوس ایکشن اٹھاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔