رینٹل پاور کیس: انور بروہی پلی بارگین کے ذریعے ساڑھے 8 کروڑ روپے ادا کرنے پر رضامند
قومی احتساب بیورو (نیب) سے پلی بارگین پر رضامندی ظاہر کرنے کے بعد لکھرا پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر انور بروہی کا نام رینٹل پاور پراجیکٹ کے مشتبہ ملزمان کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
مقدمے کے تفتیشی افسر نے احتساب عدالت کو بتایا کہ انور بروہی نے رینٹل پاور کیس میں بلی بارگین پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اور اس کی نیب کے سربراہ جاوید اقبال نے بھی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت انور بروہی ساڑھے 8 کروڑ روپے واپس کریں گے۔
مزید پڑھیں: رینٹل پاور ثالثی: پاکستان سب کچھ نہیں ہارا
نیب نے رینٹل پاور کیس میں ملوث ہونے کے الزام میں انور بروہی کو 2014 میں گرفتار کیا تھا لیکن انہیں جلد ہی ضمانت مل گئی تھی۔
اس مقدمے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر اہم شخصیات نامزد ہیں جہاں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کراچی میں رینٹل پاور منصوبے کی تنصیب کے لیے ترک کمپنی کارکے کارادینز الیکٹرک یوریٹم کو غیرقانونی طور پر کنٹریکٹ ایوارڈ کیا۔
کارکے کارادینز الیکٹرک یوریٹم ان 12 کمپنیوں میں سے ایک ہے جن سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سال 2009 میں ملک میں جاری توانائی کے بحران کے حل کے لیے معاہدہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: راجہ پرویز اشرف کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ
ملک میں توانائی کے بحران کے لیے اس وقت کی حکومت کی رینٹل پاور پراجیکٹ پالیسی کے تحت اپریل 2011 میں ایک بحری جہاز کراچی پورٹ پر لایا گیا تھا تاکہ نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے البتہ یہ معاہدے کے تحت 231 میگا واٹ کی بجلی کی پیداوار میں ناکام رہا لیکن چارجز کی مد میں کمپنی کو پہلے ہی 90 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کردی گئی تھی۔
اس پلانٹ نے 41 روپے فی یونٹ کے حساب سے 30-55 میگاواٹ بجلی پیدا کی جو معاہدے کی سنگین خلاف ورزی تھی جس کے بعد حکومت نے کمپنی سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی پر 8 کروڑ سے 12 کروڑ ڈالر کی رقم واپس کرے۔
نیب کے مطابق ترک کمپنی کے خلاف ریفرنس فائل کیے جانے کے بعد کمپنی نے پلی بارگین کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قومی احتساب بیورو کو ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں اور یہ معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں نہ لے جایا جائے۔
مزید پڑھیں: رینٹل پاور کیس: سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر فردِ جرم عائد
تاہم اس موقع پر چند سیاستدانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس ڈیل کو منسوخ کرتے ہوئے ترک کمپنی سے مکمل 12 کروڑ ڈالر وصول کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کے نتیجے میں ترک کمپنی نے 2013 میں سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے اپنے 80 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جہاں ان کا موقف تھا کہ ان کے جہاز کو 16 ماہ تک کراچی ایئرپورٹ سے جانے کی اجازت نہیں دی گئی جس سے اسے بہت نقصان پہنچا لہٰذا انہیں رقم ادا کی جائے اور بعدازاں ترک کمپنی یہ مقدمہ جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔