• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

آمدن سے زائد اثاثے: خورشید شاہ 9 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

شائع September 21, 2019
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

سکھر: احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن اسمبلی خورشید شاہ کا 9روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیا۔

جج امیر علی مہیسر نے سکھر کی احتساب عدالت میں خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت کی، جہاں نیب نے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو پیش کیا۔

سماعت کے آغاز میں جج امیر علی مہیسر نے نیب حکام سے خورشید شاہ پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے شواہد طلب کیے تاہم شواہد نہ لانے پر نیب حکام کو آدھے گھنٹے میں شواہد لانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 30 منٹ تک ملتوی کردی گئی۔

مزید دیکھیں: پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ پولی کلینک ہسپتال منتقل

جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو احتساب عدالت کے جج نے خورشید شاہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو نیب سیل میں صحت کے حوالے سے کوئی مسئلہ تو نہیں جس پر پیپلز پارٹی کے رہنما نے جواب دیا کہ انہیں صحت کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت دی جائے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ’میں معزز سیاستدانوں میں سے ایک ہوں اور میں نے کئی پلاٹ فلاحی کاموں کے لیے دیئے ہیں'۔

خورشید شاہ کے وکلا پینل کے ایک وکیل مکیش کمار کارڑا نے نیب کی جانب سے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کے خلاف 2014 میں بھی نیب نے کیس بنایا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خورشید شاہ کی گرفتاری کشمیر سمیت دیگر مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کی گئی ہے۔

یہ بھی دیکھیں: 'خورشید شاہ کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں'

دوسری جانب نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں انکوائری شروع کی گئی ہے، تاہم خورشید شاہ کے عدم تعاون کی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب نے خورشید شاہ کو خطوط بھیجے مگر انہوں نے تعاون نہیں کیا۔

بعد ازاں جج امیر علی مہیسر نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد خورشید شاہ کا 9 روز جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کردی۔

ساتھ ہی عدالت نے خورشیدشاہ کو نیب کی حراست میں ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات اور گھر سے کھانا منگوانے کی بھی اجازت دی۔

نیب منی ٹریل پیش نہیں کرسکا، وکیل خورشید شاہ

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کے وکیل قربان ملانو کا کہنا تھا کہ نیب خورشید شاہ کے خلاف کوئی منی ٹریل یا شواہد پیش نہیں کرسکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب نے صرف ان کے سوسائٹی کے بنگلے کا نقشہ پیش کیا ہے جس کے بھی پیپلز پارٹی کے رہنما تیسرے یا چوتھے خریدار ہیں اور سوسائٹی بھی سرکاری نہیں بلکہ نجی ہے۔

قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ کو سخت سیکیورٹی میں نیب نے احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ گرفتار

واضح رہے کہ نیب کی مشترکہ ٹیم نے آمدن سے زائد اثاثے سے متعلق کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو 18 ستمبر کو بنی گالہ میں قائم ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا۔

اگلے دن خورشید شاہ کی طبیعت ناساز ہونے پر انہیں مقامی ہسپتال کے امراض قلب وارڈ میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز نے ان کا معائنہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی حراست میں خورشید شاہ کی طبیعت ناساز، ہسپتال منتقل

نیب کے ذرائع کے مطابق پی پی پی کے رہنما کے خلاف نیب میں 3 تحقیقات چل رہی ہیں اور ان کے خلاف تمام مقدمات میں ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

البتہ خورشید شاہ نے نیب کی جانب سے عائد تمام الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

خورشید شاہ کے خلاف انکوائری

خیال رہے کہ 31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما پر ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلاحی پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اپنے فرنٹ مین یا ملازمین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔

نیب کے مطابق خورشید شاہ کے خلاف انکوائری میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (اے) اور شیڈول کے تحت بیان کردہ جرائم کے کمیشن میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کا الزام: ’500 ارب روپے کے اثاثوں‘ کا انکشاف

اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

ان دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے پہلاج رائے گلیمر بینگلو، جونیجو فلور مل، مکیش فلور مل اور دیگر اثاثے بھی بنا رکھے ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری کی بہن فریال تالپور بھی گرفتار

اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کی رہائشی اسکیموں، پیٹرول پمپز، زمینوں اور دکانوں سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کرلیں ہیں۔

یاد رہے کہ خورشید شاہ بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، مریم نواز اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگئے، جو کرپشن کے الزامات پر زیر حراست یا ضمانت پر ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024