• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:37pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:39pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:37pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:39pm

بلوچستان سے کیمبرج یونیورسٹی تک ایک پاکستانی سائنسدان کا سفر

تربت کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے عبدالصمد نے برطانیہ میں بحیثیت ایک کامیاب خلائی سائنسدان اپنا کیریئر کیسے بنایا؟
شائع September 17, 2019 اپ ڈیٹ September 18, 2019

ابھی بھارت کے چاند کی جانب بھیجے گئے مشن چندریان ٹو کا بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے (آئی ایس آر او) سے رابطہ منقطع ہوئے محض چند دن ہی ہوئے ہیں اور قیاس آرائیوں اور تبصروں کا شور تھما نہیں ہے۔

اگرچہ آئی ایس آر او نے خلائی گاڑی کو چاند کی سطح پر سالم حالت میں ڈھونڈ لیا ہے مگر ان کا ابھی تک اس سے رابطہ بحال نہیں ہوسکا۔ کیا بھارت کا یہ مشن تکمیل کو پہنچ سکے گا؟ عین ممکن ہے کہ ایسا ہو جائے۔ لیکن اس فیلڈ میں پاکستان خود کس مقام پر کھڑا ہے اور کیا پاکستان کا پہلا انسانی مشن خلا میں بھیجنے کا منصوبہ حقیقت کے روپ میں ڈھل سکے گا ؟

ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کے خیال میں ایسا ممکن ہے۔

ڈاکٹر صمد کو کیمبرج یونیورسٹی میں کام کرنے والے پہلے پاکستانی خلائی سائنسدان کا اعزاز حاصل ہے۔

ڈاکٹر صمد سے کوئٹہ میں ہونے والی ایک ملاقات میں مجھے چند سوالات پوچھنے کا موقع ملا جن کا تعلق بلوچستان کی تحصیل کیچھ کے علاقے بلیدہ سے ہے۔ مگر تمام تر مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہو ئے وہ کیمبرج یونیورسٹی میں بحیثیت سیٹلائٹ اور خلائی سائنسدان کیریئر بنانے میں کامیاب رہے۔

ڈاکٹر صمد نے ابتدائی تعلیم کراچی کے علاقے لیاری میں ایک اردو میڈیم اسکول میں حاصل کی، ابتدائی مشکلات کے باوجود انہوں نے پاکستان میں انجینئرنگ کے بہترین ادارے غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ سے گریجویشن مکمل کرتے ہوئے 2 گولڈ میڈلز حاصل کیے اور ان کی یونیورسٹی نے انہیں سال 2009 کے لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے بہترین گریجویٹ انجینئر کے ایوارڈ کے لیئے نامزد بھی کیا۔

پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر صمد نے کیمبرج یونیورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کا آغاز کیا اور بعد میں انہیں اسی یونیورسٹی میں سینئر محقق اور استاد کے طور پر ملازمت دی گئی۔

2016 میں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں گریفین سینٹر میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کا آغاز کیا اور تب سے ان کے شب و روز خلائی سائنس سے متعلق ٹیکنالوجی بنانے میں گزرتے ہیں۔

ان کے کیرئیر میں ایک شاندار موڑ اس وقت آیا جب یورپین اسپیس ایجنسی نے انہیں ایک ایسے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ملازمت دی جو خلا میں بھیجی جانے والی سپیس کرافٹ (خلائی گاڑیوں) سے متعلق تھا۔

ڈاکٹر صمد کی ٹیم کو یہ ا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے زیرو گریویٹی( کشش ثقل کی غیر موجودگی ) میں پہلی دفعہ کاربن کی ایک خاص قسم گریفین پر تجربات کیے۔

ڈاکٹر صمد سے ہونے والی بات چیت کے کچھ اقتباسات میں ذیل میں پیش کر رہی ہوں ۔

بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق ہونے کے باوجود آپ دنیا کی چند بہترین ین یونیورسٹیوں میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ کیا آپ اپنی جدوجہد کی کہانی ہمیں سنانا چاہیں گے؟

میرا بچپن بلیدہ میں گزرا جو تربت کے قریب واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ 80 کے عشرے کے اختتام اور 90 کے اوائل کا دور تھا۔ ہمیں اس علاقے میں جو لڑکوں کا واحد سکول دستیاب تھا، اسے مقامی زبان میں "ٹاٹ اسکول " کہا جاتا ہے جس میں بچے بوریوں سے بنے ٹاٹوں پر بیٹھتے اور تختی پر گھرکے بنائے ہوئے قلم "لوح" سے لکھا کرتے تھے۔اگرچہ ہمیں اسکول میں اردو زبان میں پڑھایا جاتا تھا مگر بدقسمتی سے ہم اردو زبان بولنے سے قاصر تھے۔

میرے والد اپنی زرعی زمینوں پر کام کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے کراچی کے مضافات میں واقع علاقے حب ، بلوچستان کی زمینوں پر کام کا آغاز کیا جس کے بعد ہم کراچی کے علاقے لیاری کے قریب منتقل ہو گئےاور میں نے وہاں ایک اردو میڈیم سکول الکریم میں تعلیم کا آغاز کیا۔

میں جب چھٹی کلاس میں پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ آگے بڑھنے کے لیئے انگریزی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے۔ جس کے بعد میں اپنے والد کے ساتھ کلفٹن میں واقع ایک عیاری سکول میں داخلے کے لیے گیا ۔ مگر چونکہ میرا اب تک کا تعلیمی ریکارڈ شاندار نہ تھا اور میں انگلش بھی نہیں بول سکتا تھا اس لیے پرنسپل نے مجھے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ تم جس فیلڈ میں آگے بڑھنا چاہتے ہو وہ دراصل تمہارے لئے ہے ہی نہیں۔

ڈاکٹر صمد یورپین اسپیس ایجنسی کے دیگر سائنسدانوں کے ہمراہ —  فوٹو بشکریہ ای ایس اے
ڈاکٹر صمد یورپین اسپیس ایجنسی کے دیگر سائنسدانوں کے ہمراہ — فوٹو بشکریہ ای ایس اے

یہ سلسلہ چلتا رہا اور بہت سی جگہوں پر ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد بلاآخر میں نے اپنے علاقے لیاری میں نئے بننے والے اسکول وا ئٹ روز گرامر اسکول میں داخلہ لے لیا اور میں اس کے پہلے بیچ کے طلبہ میں سے ہوں۔

اگرچہ یہ بھی الکریم اسکول کی طرح چھوٹا تھا مگر یہاں سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جاتا تھا۔ جب میں نویں کلاس میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ زیادہ تر طلبہ بورڈ کے امتحانات کی تیاری کے لیے گائیڈ کا سہارا لیتے ہیں۔

میں اس صورتحال سے قطعا غیر مطمئن تھا اور جب میں نے اس حوالے سے اپنے والد سے بات کی تو ان کے الفاظ " آپ کسی اور کے خوابوں کی ہو بہو نقل تیار نہیں کر سکتے "زندگی بھر میرے ساتھ رہیں گے۔ اگرچہ میرے ارد گرد ہر کوئی انہی گائیڈز کی مدد لے رہا تھا مگر اوروں کے راستے پر چلنے کے بجائے میں نے زندگی کا اصول بنا یا "کہ جو بھی کرنا ہے خود کرنا ہے۔"

میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد میں نے اس دور میں کراچی کے بہترین ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا جہاں میرے چنداساتذہ جیسے شہزاد مسلم خان اور کامل شیر نے مجھے انجینئرنگ کے شعبے میں جانے کے لیے متاثر کیا۔ میں نے 2009 میں پاکستان کے ایک بہترین انجینئرنگ ادارے غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ سے دو گولڈ میڈلز حاصل کرتے ہوئے گریجوئیشن مکمل کی اور میری یونیورسٹی نے مجھے سال 2009 کے لئے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے بہترین انجینئر ایوارڈ کے لئے نامزد بھی کیا۔

غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ میں میرے استاد اور مجھے تربیت دینے والے میرے کوچ افضل اے خالد کا نام نانو ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں کسی تتعارف کا محتاج نہیں ہے، انہوں نے ہی ایک محقق کی حیثیت سے کیریئر بنا نے میں میری مدد اور تربیت کی۔

گریجویشن کے بعد کچھ عرصے تک میں پاکستان کے ایک ادارے انرگو سے وابستہ رہا لیکن اس دوران میں سارا زور اپنے تعلیمی کیریئر کو آگے بڑھانے کے مواقع ڈھونڈنے پر رہا۔

اس کے بعد میں نے متحدہ عرب امارات کی خلیفہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ لیا جسے ایم آئی ٹی اور ٹوکیو یونیوسٹی کا تعاون بھی حاصل تھا ۔ یہ پی ایچ ڈی 2016 میں مکمل ہوا اور اسی برس میں نے کیمبرج یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ ریسرچر کے طور پر کام کا آغاز کیا، بعد میں یونیورسرسٹی نےمیرا تقرر بحیثیت سینئر محقق اور استاد کیا۔

آپ نے سیٹلائٹ اور خلائی سائنس جیسی مشکل اور نو آموز فیلڈ میں کیریئر بنانے کے بارے میں کب سوچنے کا آغاز کیا ؟

میں نے اس بارے میں کبھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی ۔ غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ سے میٹالرجی اور مٹیرئیل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے توانائی اور ماحولیات کے شعبے میں استعمال ہونے والے آلات پر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا۔2016 میں کیمبرج گریفین سینٹر میں شمولیت اختیار کرتے وقت تک میں نے اس کیریئر کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کبھی خلا میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی پر کام کروں گا۔

کیمبرج یونیورسٹی ایک معیاری تعلیمی اداراہ ہے جو مختلف کمپنیوں اور ایجنسیوں کے ساتھ تحقیق میں معاونت کرتا ہے ۔ اسی سلسلے میں یورپین اسپیس ایجنسی اور چند اور تنظیموں نے کیمبرج گریفین سینٹر سے اپنے ایک مسئلے کے حل کے لئے رجوع کیا تھا جو انہیں خلا میں بھیجے جانے والی کرافٹ میں درپیش تھا۔

ڈاکٹر صمد صفر کشش ثقل سے متعلق تجربات کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ اے ایس اے
ڈاکٹر صمد صفر کشش ثقل سے متعلق تجربات کرتے ہوئے — فوٹو بشکریہ اے ایس اے

چونکہ میں نے اس مسئلے کا ایک درست حل پیش کیا تھا لہذا مجھے اس منصوبے کے لیے منتخب کر کیا گیا۔ تب سے میں اسی طرح کے کئی اور منصوبوں پر بھی کام کرتا رہا ہوں اور ہماری ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے پہلی دفعہ گریفین پر زیور گریویٹی میں تجربہ کیا۔

اس کے بعد سے ہم اس طرح کے متعدد زیرو گریویٹی کے تجربات کرتے رہے ہیں جس کا انتظام ہمارے لیے یورپین اسپیس ایجنسی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک ساؤنڈ راکٹ بھی خلا میں بھیجا تھا جو زمین سے تقریبا 1 لاکھ 50 ہزار کلومیٹر کی بلندی تک گیا تھا۔

مستقبل میں ہم اسی طرح کی کچھ اور اسپیس کرافٹ جیسے اسپیس رائیڈ کو استعمال کرنے کا رادہ رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لئے کچھ تجربات بین الاقوامی خلائی مرکز پر بھی کیئے جائیں گے۔

ان منصوبوں پر کام کرنے کے لئے مجھے حال ہی میں یونیورسٹی نے سینئر سائنسدان کی عہدے پر ترقی دی ہے۔

آپ کو کیمبرج گریفین سینٹر پر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے جو یورپین اسپیس ایجنسی اور کئی دیگر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے چل رہا ہے۔ یہاں کام کا تجربہ کیسا رہا ؟

کیمبرج یونیورسٹی کو تحقیق کے میدان میں ایک جداگانہ مقام حاصل ہے جو بہت کم یونیورسٹیوں کے حصے میں آیا ہے اور ایسا ہی اس کے گریفین سینٹر کے لیے بھی ہے۔ یہاں کا ماحول تحقیق کے لئے مکمل سازگار ہے جہاں ہر طرح کی سہولیات اور بہترین ساتھیوں کے علاوہ گاہے بگاہے مدعو کیے جانے والے بہترین سائنسدانوں کی وجہ یہاں کام کا تجربہ کچھ اور زیادہ منفرد تجربہ ہوجاتا ہے۔

لیکن یہاں کام کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہےکیونکہ ہر کسی کو روزانہ کی بنیاد پر کچھ بلکل مختلف سوچتے ہوئے موجودہ دور کے سائنسی چیلنجز سے نمٹنا ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کی حکومتوں ، تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ اشتراک سے مختلف سائنسی فیلڈ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے بلاشبہ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

آپ کو کیمبرج یونیورسٹی میں کام کرنے والے پہلے پاکستانی خلائی سائنسدان کا اعزاز حاصل ہے ، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ قوم آپ سے کیا توقعات رکھتی ہے؟ آپ کے خیال میں پاکستان میں خلائی سائنس کی ترویج کے لیے سپارکو کے لئے کون سے اقدامات ناگزیر ہیں ؟

میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں میں جذبہ پیدا کرنے اور انھیں اس فیلڈ میں آگے آکر کچھ کر دکھانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور جس کی ذمہ داری مجھ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ احساس مجھے ہمیشہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ ایک سائنسدان کی حیثیت سے میں نے ابھی بہت محنت کرنی اور خود کو بہتر کرنا ہے تاکہ میں مستقبل میں در پیش خطرناک چیلنجز کا مقابلہ کر سکوں۔

میرے خیال میں سب سے پہلے تو سپارکو کو مقامی تعلیمی اداروں میں ایسے تحقیقی منصوبوں کا آغاز کرنا چاہیئے جن کا تعلق خالصتا ََ ملک کے لئے ایک حکمت ِعملی تیار کر نے سے ہو ، جس سے طلبا ء طالبات کا اس فیلڈ سے براہ ِ راست ربط بنے گا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہزاروں ذہین دماغ موجود ہیں جنہیں اگر صحیح طرح گائیڈ کر کے سہولیات دی جائیں تو بہت سا ملکی ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے گا۔ مگر اس کے بجائے ہمارے تعلیمی ادارے طلبہ طا لبات سے کم کوالٹی والے ایسے تحقیقی مقالے لکھوانے میں مصروف ہیں جن کا تجرباتی سائنس سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔

میں پاکستان میں ایک تعلیمی ادارے اور چند تنظیموں کے تعاون سے ایک چھوٹا سیٹلائٹ بنا نے کے منصوبے پر کام کررہا ہوں جس کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔ اس طرح کے منصوبے تعلیمی اداروں میں روٹین کا حصہ ہونے چاہئے جس کے لئے سپارکو کو کچھ نئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

کسی بھی خلائی مشن کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لئے انجینئرز، سائنسدانوں اور محققین کی ایک بڑی ٹیم کام کرتی ہے۔آپپ کے خیال میں پاکستان میں بہت کم وسائل کے ساتھ کیا ایسا ممکن ہے اور کیا پاکستان کا پہلا انسانی خلائی مشن حقیقت بن سکے گا؟

یقینا وسائل کے علا وہ ایک اچھی لیڈر شپ بھی کسی منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ مگر میرے خیال میں اگرپاکستان یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس مشن کو ہر صورت میں مکمل کرنا ہے تو کوئی شک نہیں کہ ہم ایسا نہ کرسکیں۔

خلامیں انسانی مشن بھیجنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ اصل کارنامہ تو یہ ہے کہ کوئی ایسا تحقیقی منصوبہ بنایا جائے جس پر اب تک کسی بھی دوسرے ملک نے کام نہ کیا ہو اور یہ پاکستان اور اس کی معیشت دونوں کے لئے فائدہ مند بھی ثابت ہو۔

آپ کے خیال میں پاکستانی نوجوان نسل کے لیے اسٹیم ( سائنس، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور ریاضی ) کی تعلیم کتنی اہمیت رکھتی ہے ؟

میں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور متعدد یونیورسٹیوں لیکچرز دیتے ہوئے نوٹ کیا کہ یہاں طلبہ میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کا شوق متاثر کن ہے۔ خاص طور پر بلوچستان کے طلبہ میں علم کی پیاس غیر معمولی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک بہتر اور تابناک مستقبل کے لئے ملکی سطح پر ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں ۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں ملکوں کی معیشت کا انحصار تیز تر معلومات پر ہے جس کا ایک بہترین ذریعہ ایسے پر عزم اور پر تجسس دماغ ہیں۔

کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ نے خلائی سائنس میں دلچسپی کب لینا شروع کی؟

دنیا بھر میں مختلف سائنسی فیلڈز میں تحقیق کے دوران سائنس کمیونٹی کو جو مسائل درپیش ہوتے ہیں ان کا کسی نہ کسی طرح آپس میں ربط ہوتا ہے جو مجھے متجسس کرنے کا باعث بنے۔ میں ایک محقق کی حیثیت سے مخصوص مادوں سے تیار کردہ آلات پر کام کررہا ہوں جس سے میرا رجحان اس طرف مائل ہوا کہ ہمیں خلا میں استعمال ہونے والے آلات کی تیاری کے لیے مخصوص مادوں پر کام کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر صمد ای ایس اے کے معروف ایسٹرونوٹ جین فرانسسکو کلروے — فوٹو بشکریہ ای ایس اے
ڈاکٹر صمد ای ایس اے کے معروف ایسٹرونوٹ جین فرانسسکو کلروے — فوٹو بشکریہ ای ایس اے

کیمبرج یونیورسٹی میں ہمیں جو منصوبہ دیا گیا اس میں یورپین اسپیس ایجنسی اور کئی دیگر یورپی تنظیمیں اشتراک کر رہی تھیں ۔ جس سے مجھے ایک ایسا پلیٹ فارم ملا جہاں میں خلائی ٹیکنالوجی میں اپنی مہارتوں کا کھل کر اظہار کر سکوں اور تبھی میں نے پوری تندہی کے ساتھ ایسے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا۔

خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹس میں استعمال ہونے والے آلات کی تیاری میں آپ کو کون سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟

اس حقیقت سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ ہم آج بھی خلااور اس کے ماحول کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ جبکہ خلا میں استعمال ہونے والے آآلات بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خلائی ماحول کے آلات اور انسانوں پر اثرات کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوں۔

اس حوالے سے ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم زمین پر ان آلات کو تیار کر کے انھیں زیرو گریویٹی ( مصنوعی طریقے سے تیار کیا گیا ماحول جہاں کشش ثقل نہیں ہ ہوتی) پر ٹیسٹ کرتے ہیں ۔ اس لئے بعض اوقات ہمیں بہت سی انہونے واقعات اور چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن سے ہمیں بہت مختصر وقت میں نمٹنا ہوتا ہے۔

کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ ایسے خلائی آ لات کا مستقبل کیا ہے جو توانائی یا بجلی استعمال کئے بغیر فعال رہ سکتے ہیں ؟

اگرچہ خلائی ماحول بذات ِ خود ڈھیر سارے چیلنجز اپنے اندر سموئے ہوئے ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہاں بہت سے ایسے کبھی نہ ختم ہونے والے وسائل بھی ہیں جن کے ذریعے چیزیں فعال رہ سکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر خلائی ماحول میں حرارت کی ایک لامتناہی مقدار موجود ہے جس سے ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ ایسے خلائی آلات بنا سکیں جو بجلی کے بغیر چلائے جا سکتے ہیں۔

ہم یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ایسے آلات بھی تیار کر لئے جائیں گے جنھیں کام سرانجام دینے کے لیئے ناصرف بجلی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ خلا میں موجود تابکار شعاؤں اور لامتناہی حرارت کو توانائی ممیں تبدیل کر کے اپنے فعال سر انجام دے سکیں گے۔

آپ مستقبل میں کن خلائی منزلوں کے لیے زیادہ متجسس ہیں؟ جدید پرکشش ٹیکنالوجیز جیسے نانو ٹیکنالوجی کے ساتھ خلا ئی سفر کا کا مستقبل کیا ہے؟

جہاں تک میرا تعلق ہے میں جن خلائی منزلوں کے بارے میں پر تجسس ہوں وہ صرف خلا یا خلائی مشنوں سے متعلق نہیں ہیں۔ درحقیقت میری خواہش ہے کہ ہر اس سائنسی چیلنج کو حل کرنے کے لیے کام کروں جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح میری مہارت اور دلچسپی سے ہو جن میں سے ایک خلا بھی ہے۔

نانو اور کوانٹم ٹیکنالوجیز مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ساتھ مل کر مستقبل میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو متعین کریں گے جن میں خلا میں استعمال ہونی والی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔ میں مائیکرو اور نانو ٹیکنالوجی پر مشتمل ایسے روبوٹ بنتے دیکھ رہا جو خلا اور دوسرے سیارووں پر وہاں کے ماحول ، پانی اور آکسیجن پیدا کرنے کے ذرائع اور پودے اگانے جیسے تحقیقی کام سر ا انجام دے سکیں گے۔ یہ تمام تحقیق متعلقہ سیارے پر انسانینی کالونی بنانے سے پہلے کے مراحل کا ایک حصہ ہوگی۔

مستقبل میں آپ کے منصوبے کیا ہیں، کیا آپ سپارکو کے ساتھ تعاون کرنا چاہیں گے ؟

یقیناً میری شدید خواہش ہے کہ میں سپارکو کے ساتھ تعاون اور کسی بھی طرح اشتراک کروں اور اس حوالے سے مجھ سے جو کچھ بھی ہو سکا میں اس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس مقصد کے لیے میں پاکستان میں بہت سے تعلیمی اداروں سے رابطے میں ہوں اور وہاں صحت مندانہ سرگرمیاں بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اس کے ساتھ ہی میں پاکستانی طلبہ کا تیار کردہ ایک چھوٹا سیٹلائٹ مکمل کروانے کی بھی کوشش کر رہا ہوں اور ہمیں امید ہے کہ ہم ان کی طرف سے اسے لانچ بھی کرسکیں گے۔

مضمون کو انگلش میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@