عالمی برادری کی سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت
عالمی برادری نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
14 ستمبر کو سعودی عرب میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والی دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے 2 پلانٹس پر ڈرون حملے کیے گئے تھے جس کی ذمے داری ایران کے حمایت یافتہ یمن کے حوثیوں باغیوں نے قبول کی تھی۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، برطانیہ اس گھڑی میں بھرپور قوت کے ساتھ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے سعودی آئل تنصیبات پر 'ایرانی حملے' کے ثبوت جاری کردیے
برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اس کی تیل کی تنصیبات پر اس حملے سے عالمی منڈیوں اور ترسیلات پر اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے امریکا کی جانب سے جاری کردہ حملے کی سیٹلائٹ تصاویر اور ایران پر الزام کے حوالے سے کہا کہ حملے کے ذمے دار کے حوالے سے تصویر واضح نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں ہمارے سامنے تصویر مکمل طور پر واضح ہو۔
ادھر یورپی یونین نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو ذمے دار ٹھہرانے سے قبل حقائق کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کا امریکی الزام مسترد، جنگ کیلئے تیار ہیں، ایران
یورپی یونین کی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ انتہائی ضروری ہیں کہ سعودی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے پہلے حقائق جان لیے جائیں اور پھر اس کے بعد ذمے داروں کا تعین کیا جائے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مغرینی نے آرامکو کی تیل کی دو تنصیبات پر حملہ خطے اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔
سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کا ردعمل دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن نے اہداف لاک اور لوڈ کرلیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب تیل تنصیبات پر حملے میں ایران براہ راست ملوث ہے، امریکا
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر اپنے پیغام میں کہا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ ہوا ہے، امریکا ذمہ داران کو جانتا ہے اور اس کے پاس اس کا جواز بھی موجود ہے، امریکا نے تصدیق کی بنیاد پر اہداف لاک کرلیے ہیں اور وہ بالکل تیار ہے۔
جرمنی نے بھی اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے شہریوں اور ان کی تنصیبات پر اس طرح کے حملوں کا کوئی جواب پیش نہیں کیا جا سکتا۔
امریکا کے برعکس جرمنی نے ایران پر کسی بھی قسم کا الزام عائد نہیں کیا تاہم جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے خطے کے تناؤ میں اضافہ ہو گا اور اس حملے کے ذمے داران کو فوری طور پر سامنے لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب تیل تنصیبات پر حملے میں ایران براہ راست ملوث ہے، امریکا
جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی پارٹی کے ایک قانون دان نے کہا کہ اس حملے کے بعد جرمنی نے سعودی عرب ہتھیاروں کی ترسیل پر عائد پابندی اٹھانے پر غور شروع کردیا ہے۔
کرسچن ڈیموکریٹس پارٹی کے خارجہ پارلیمانی پالیسی کے ترجمان جوارگن ہارڈٹ نے کہا کہ دفاعی ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی اٹھانا ہمارے اسٹریٹیجک مفاد میں ہے تاکہ سعودی عرب اپنی حفاظت کر سکے۔
یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی سفارتخانے میں قتل کے بعد جرمنی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کردی تھی۔
ادھر فرانسیسی حکومت کے ترجمان نے بھی ابقیق اور خریس میں واقع تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے صورتحال کو پریشان کن قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ فرانس اس گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے اور اس طرح کے اقدامات سے صرف تناؤ میں اضافہ ہو گا اور خطے کا امن داؤ پر لگ جائے گا۔
ایران پر جارحیت ناقابل قبول ہو گی، روس
دنیا کی دیگر عالمی طاقتوں کے برعکس ان حملوں کے بعد روس نے ایران کی مکمل طور پر حمایت کی ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
روسی صدر پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوو نے کہا کہ یہ ایک انتہائی ناخوشگوار واقعہ ہے جس سے عالمی توانائی کی مارکیٹس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ کر کے ایسا اقدام نہ اٹھائیں جس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو۔
روس نے ایران کے خلاف ممکنہ امریکی کارروائی کے حوالے سے کہا کہ ایران پر کسی بھی قسم کی جارحیت یا طاقت کا استعمال بالکل قبول نہیں اور اس سے صرف خطے کا استحکام خطرے سے دوچار ہو گا۔