بریگزٹ:یورپی یونین نے برطانوی وزیراعظم کے پیش رفت کے دعوے کو مسترد کردیا
یورپی یونین کے عہدیداروں نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے بریگزٹ پر معاہدے کے حوالے سے بڑی پیش رفت کے دعوے کو مسترد کردیا۔
بورس جانسن نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ 'بریگزٹ معاہدے کے حوالے برلن، پیرس اور ڈبلن میں رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے متحرک ہیں اور بڑی پیش رفت ہورہی ہے'۔
دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیراعظم کے وفد کے ساتھ بریگزٹ معاہدے کے حوالے سے مذاکرت میں حصہ لینے والے یورپی یونین کے نمائندے ڈیوڈ فروسٹ نے بورس جانسن کے دعوے کو مسترد کردیا۔
مذاکرات کے بعد فریقین کے رویے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'درحقیقت لوگ خوف زدہ ہیں اور میں دو روز قبل جزیات پر ہونے والی گفتگو کو مذاکرات نہیں کہوں گا کیونکہ ابھی ہم بہت دور ہیں'۔
مزید پڑھیں:عدالت نے برطانوی پارلیمنٹ معطل کرنے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
رپورٹ کے مطابق جرمنی کے شہر برلن اور فرانس میں منعقدہ مذاکرات کو حوصلہ افزا قرار دیا گیا تھا لیکن برسلز میں مذاکرات سے تمام توقعات منتشر ہوگئی ہیں کیونکہ اس سے قبل بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو معطل کرنے اور بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی کو ترجیح دینے کی باتیں کی تھیں جبکہ وہ باقاعدہ طور پر منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔
یورپی یونین کے ایک اور عہدیدار نے کہا کہ 'یہ بیان حیران کن نہیں ہے بلکہ اس سے لگتا ہے کہ یہ سب مذاق ہے حالانکہ ہم انتہائی سنجیدہ معاملے پر بات کررہے ہیں'۔
ان کاکہنا تھاکہ 'بغیر معاہدے کے علیحدگی کے نتائج انتہائی سخت ہوں گے اور اس کو ایک حقیقت کے طور پر لینے کے بجائے ایک کھیل کی طرح لیا جارہا ہے'۔
یورپی یونین کے نمائندے جین کلاؤڈ جنکر کا کہنا تھا کہ بغیر معاہدے کے بریگزٹ خطرناک ہوگا اور اس کو حل کرنے میں کئی برس لگ جائیں گے اور برطانیہ کے محب وطن اپنے ملک کو اس طرح کے حالات میں دیکھنا نہیں چاہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو معلوم ہے کہ برطانیہ یہ نہیں چاہتا تھا لیکن تاحال متبادل تجویز کا انتظار کررہا ہے، مجھے امید ہے کہ ہم انہیں کچھ سے دے سکیں لیکن وقت نکلتا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملکہ برطانیہ نے پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی
یورپی یونین کے عہدیداروں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگلی ملاقات میں معاہدے کے حوالے سے کوئی صورت بن جائے گی۔
واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم متعدد مرتبہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدگی کا راستہ بنالیں گے تاحال انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کی کوشش کررہے لیکن برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے الگ ہوجانا چاہیے تاہم ارکان پارلیمنٹ کو خدشہ ہے کہ بغیر کسی معاہدے کے علیحدگی سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی۔
برطانیہ کے ایوانِ بالا نے 6 ستمبر کو وزیراعظم بورس جانسن کو بریگزٹ میں تاخیر پر مجبور کرنے کے لیے قانون کی حتمی منظوری دی تھی۔
اس قانون کے مطابق اگر برطانوی وزیراعظم یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدہ کرنے میں ناکام ہوگئے تو یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی حالیہ حتمی مدت 31 اکتوبر سے آگے بڑھا دی جائے گی۔