کیا پولیس ٹھیک ہوسکتی ہے؟ نوآبادیاتی دور سے پاکستان تک ایک جائزہ
آج پولیس تشدد پر ہم سب مضطرب ہیں اور ہر آئے روز ایک نئی خبر سے ہمیں پالا پڑ رہا ہے۔ لوگوں کو لاپتہ کرنا، ماورائے قانون قتل، عقوبت خانے چلانا، مخالفین کو جعلی کیسوں میں پھنسانا، انہیں غدار یا دہشت گرد قرار دلوانا، وہ معاملات ہیں جن کی ایک سو (100) سال سے طویل تاریخ ہے۔
اس سب کے پیچھے جو مائنڈ سیٹ اور تال میل ہے اسے سمجھے بغیر اصلاحات کا کوئی ایجنڈا پایۂ تکمیل کو پہنچ ہی نہیں سکتا۔
جنوبی ایشیائی ریاستوں خصوصاً بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں جدید ریاستی محکمے اور ادارے نوآبادیاتی آقاؤں نے بنائے کہ جن میں عوام کو سٹیزن (یعنی شہری یا باسی) کے بجائے محکوم یا رعایا سمجھا جاتا تھا۔
قبل از انگریز عہد میں ان فارمل (غیر روایتی) عدم مرکزیت کا دستور عام تھا۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے ہمیں قبل اور بعد از انگریز دور کے فرق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ٹیکس اکٹھا کرنا ہوتا، تعلیم اور انصاف کا مسئلہ ہوتا یا جنگ کے لیے بھرتیاں کرنی ہوتیں، یہ سب مرکز کی مداخلت کے بغیر ممکن تھے۔ مدارس، پٹ شالائیں، گردوارے، خانقاہیں اور تعلیم دینے والے دیگر ادارے قومی نصاب کے بغیر کام کرتے تھے۔ جب بادشاہ کو کسی مہم میں فوج اکٹھا کرنی ہوتی تھی تو وہ پنج ہزاری اور اٹھ ہزاری عہدیداروں کو حکم جاری کرتے تھے یا پھر جتھے داروں کو فوجی یا سپاہی بھرتی کرنے کا کہتے تھے۔ جتھے داری سسٹم اورنگزیب کے بعد پنجاب سے کابل تک بنا تھا اور یہ 1849ء تک چلتا رہا تھا۔
پرانے بندوبست کے برعکس جدید نوآبادیاتی ریاست کا بنیادی کلمہ ہی مرکزیت پسندی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید نوآبادیاتی ریاست کے تحت بنائے گئے تمام تر محکموں اور اداروں میں مربوط مرکزیت پسند نظام بدرجہ اتم موجود تھا۔
29 مارچ 1849ء کو جب نوآبادیاتی آقاؤں نے رنجیت سنگھ کی بادشاہت 'لہور دربار' کو گرایا تھا تو انگریزوں کا برٹش انڈیا پر قبضہ مکمل ہوگیا تھا۔ اس قبضے کے بعد انگریزوں نے مرکزیت پسند ڈھانچہ بنانے کا کام شروع کیا۔ یہ ڈھانچہ 1850ء کےریلوے اور لوکل باڈیز ایکٹ سے شروع ہوا اور تعلیم کے حوالے سے 1854ء کے ووڈز ڈسپیچ سے ہوتا ہوا براستہ امپیریل سول سروس یعنی آئی سی ایس، پولیس ایکٹ 1861ء تک پہنچا۔
19ویں صدی کے آخری عشروں میں 3 اہم فیصلے کیے گئے کہ 1882ء میں لوکل باڈیز ریفارمز کے تحت مخصوص طبقات کو محدود حقِ رائے دہی دیا گیا تو 1894ء میں ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی اور پھر علاقائی فوجیں ختم کرکے برٹش انڈین آرمی بنائی گئی۔
1901ء کے بعد اس ڈھانچے میں ایک مربوط انٹیلی جنس سسٹم کا اصافہ ہوا جو دھیرے دھیرے تمام ڈھانچے پر چھا گیا۔ اس ضمن میں پیٹرک فرینچ کی کتاب 'لبرٹی اینڈ ڈیتھ' میں شافی معلومات مجتمع کی گئی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ ڈھانچہ بنایا جا رہا تھا تو سندھ بمبئی پریذیڈینسی کے زیرِ انتظام تھا، بلوچستان قبائلی علاقہ تھا اور موجودہ خیبر پختونخوا اور دلّی صوبہ پنجاب میں تھے جبکہ برٹش انڈیا کا مرکز بنگال میں شہر کلکتہ تھا۔
1930ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جاکر 1901ء میں بنائے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کو صوبائی اختیارات ملے اور انہی سالوں میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے صوبہ بنایا گیا۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس مرکزیت پسند ڈھانچے کا اچھا اور بُرا اثر موجودہ پاکستان میں جتنا پنجاب نے بھگتا اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس ڈھانچے سے سب سے زیادہ فائدہ جن مقامیوں نے اٹھایا ان میں سرِفہرست بنگالی تھے جنہیں برٹش انڈیا کے باسی اسی تعلق کی وجہ سے 'بابو' بھی کہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور بنگال میں اس کا ردِعمل بھی فقیدالمثال رہا۔
بابوؤں کی جو فصل نوآبادیاتی آقاؤں نے ہماری سرزمین پر کاشت کی اس کا خمیر اسی مرکزیت پسند ڈھانچے پر اٹھایا گیا اور اس کی قباحتیں بالعموم پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی بیوروکریسی، سیکیورٹی اداروں، عدالتوں وغیرہ میں آج بھی موجود ہیں۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی حاکمیت میں چلنے والے اس بندوبست میں پولیس، پٹواری، استاد اور سول جج اس مرکزیت پسند ڈھانچے کا وہ چہرہ تھا جس کا عوام سے براہِ راست پالا پڑتا تھا کہ پچھلی صدی کی دوسری دہائی میں اس میں ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس افسر کا اضافہ ہوچکا تھا۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ خودمختار محکمے ہیں مگر ان کی ترکیب ایسے بنائی گئی ہے جس میں یہ ایک دوسرے سے ایسے باہم پیوستہ ہیں کہ کسی ایک کو دوسروں سے الگ کرکے سمجھا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب ان میں ریفارمز یا اصلاحات کرنے کی کوشش ہوئی ہے ان میں مزید بگاڑ ہی پیدا ہوا ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں کسی نہ کسی شکل میں یہ بندوبست آج بھی چل رہا ہے۔ اس تمام تر تفصیل کو لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس پس منظر کو سمجھا جائے جس کی ایک پیداوار پنجاب پولیس بھی ہے۔
20ویں صدی کے ابتدائی عشروں سے جب محدود حق رائے دہی کے تحت ڈسٹرکٹ بورڈوں اورصوبائی اسمبلیوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو اس کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت اسی ڈھانچے کی طرف سے آئی کہ پاور شئیرنگ کے لیے یہ تیار نہیں تھا۔ ان اسمبلیوں میں آنے والے اس ڈھانچے کی خامیوں اور قباحتوں کو جانتے تھے اور انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ یہ ریاستی ڈھانچہ کیسے کیسے عوام اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا ہے اور سیاسی کارکنوں پر غداری اور دہشت گردی کے کیس ڈالتا ہے اور عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائی جاتی ہیں۔
یوں ان خدمات کے عوض ان محکموں سے جڑے افراد کی ذاتی دشمنیاں نکالنے اور دیگر غیر قانونی کام کرنے کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ اس پورے نوآبادیاتی ڈھانچے میں کس قدر مالی کرپشن تھی اس کی ایک مثال مشہور عبقری اور اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے بانی اختر حمید خان کا استعفیٰ ہے۔
آپ 1936ء میں آئی سی ایس افسر بنے تھے۔ بطور آئی سی ایس افسر آپ نے برٹش پنجاب میں جاری کوآپریٹوز کے بندوبست کو مثالی قرار دیا تھا مگر جب انہیں 1943ء میں بنگال کے قحط کے دوران بطور آئی سی ایس افسر کام کرنا پڑا تو یہ درویش صفت خاموش نہ رہ سکا اور لکھا کہ 'اس محکمے میں اتنی کرپشن ہے کہ یہ مرنے والوں کا مال بھی نہیں چھوڑتے'۔
کروفر، کرپشن اور مخالفین کو غداری کے سرٹیفکیٹ دینے والا یہ بدبودار ڈھانچہ ہمیں ورثے میں ملا اور یہی وجہ ہے کہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ، چٹاکانگ اور کراچی میں براجمان بیوروکریسی کو خود کو بدلنے اور بدل چکے وقت سے سیکھنے کا مشورہ دیا۔ وہ 25 مارچ 1948ء کو چٹاکانگ پہنچے اور کہا 'ایک انقلابی تبدیلی آچکی ہے۔ آپ کا تعلق کسی بھی گروہ، مذہب، فرقے، ذات سے ہو مگر اب آپ صرف پاکستان کے سرونٹ ہیں۔ سرونٹ کا کام یہی ہے کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ وہ دن چلے گئے جب اس ملک میں بیوروکریسی کی حکومت ہوتی تھی۔ اب یہاں ایک عوامی سرکار ہے جو جمہوری اور پارلیمانی حوالوں سے لوگوں کو جوابدہ ہے'۔
قائدِاعظم کو تو اتنی مہلت نہ ملی مگر ان کے پیش رو باوجوہ پرانے سسٹم اور گلے سڑے ڈھانچے کو چلاتے رہے۔ قائدِاعظم نے تو بیوروکریسی سے کہا تھا کہ 'نہ تو آپ کا کسے سیاسی جماعت سے تعلق ہے اور نہ ہی آپ حکمران ہیں بلکہ آپ صرف لوگوں کے خادم ہیں'۔ مگر جب مارچ 1951ء میں ملک میں پہلے صوبائی الیکشن کا وقت آیا تو اسی پرانے ڈھانچے کی مدد سے پنجاب میں مخالفین کو ہروایا گیا۔
اس کھیل کا آغاز قراردادِ مقاصد کی ہشیار منظوریوں سے قبل ہی ہوچکا تھا جب 25 جنوری 1949ء کو بظاہر کرپشن کے الزام لگا کر افتخار حسین ممدوٹ کی حکومت توڑ کر گورنر راج لگایا گیا تھا اور پھر مارچ 1949ء کے دوسرے ہفتے مسلم لیگ کے برٹش بنگال میں آخری وزیرِاعلی حسین شہید سہروردی کی اسمبلی رکنیت ختم کرتے ہوئے انہیں غدار اور بھارتی ایجنٹ کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔
بات یہاں پر رکی نہیں بلکہ پنجاب میں انتخابات سے ایک دن قبل آئی جی پنجاب نے فوج میں ایک بڑی سازش پکڑنے کا انکشاف کیا جس کا الزام ایسے فوجیوں پر لگا جو کشمیر پر حکومتی پالیسی کے ناقد تھے۔ پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی جاتے جاتے جن 'ینگ ٹرکس' سے بچنے کی جنرل ایوب کو ہدایت کر گئے تھے اس پر عمل درآمد کے لیے ایوب خان کو بیوروکریٹ قربان علی خان ہی کی مدد لینی پڑی۔
ایک ایسا وقت جب آئین بنانے کے بعد نوآبادیاتی ڈھانچے کو بدلنا اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی مگر حکمران اسی مرکزیت پسند ڈھانچے کے اسیر بنے رہے۔ حکمران ٹولے کے ستائے ممدوٹ اور سہروردی اکٹھے ہوئے، جناح عوامی مسلم لیگ بنائی اور الیکشن میں پنجاب سے یہ جماعت 175 میں سے محض 32 ہی لے سکی مگر اخبارات نے اگلے روز جھرلو کی سرخی بنائی۔ اس جھرلو میں سول بیوروکریسی اور پولیس نے کلیدی کردار ادا کیا۔
تادم تحریر یہ کھیل کم و بیش جاری ہے کہ 2018ء کے انتخابات اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ تاہم اس میں گزرتے وقت کے ساتھ ڈپٹی کمشنر، کمشنر، بیوروکریٹ اور پولیس والے مختار کل نہ رہے بلکہ نئے کھلاڑیوں کے نقیب بن گئے۔ یوں نئے اور پرانے کھلاڑیوں کے ملاپ اور تکرار میں پرانا مرکزیت پسند ڈھانچہ تبدیلی کے راستے پر گامزن ہونے کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف بڑھ گیا۔
بار بار لگنے والے مارشل لا نے بھی اس میں حصہ بقدر جثہ ڈالا مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اشرافیہ بھی کبھی ساتھ مل کر اور کبھی مزاحمت کرتے ہوئے اپنا اثر بڑھاتی رہی۔
1980ء کی دہائی کے بعد طاقت کی غلام گردشوں میں میڈیا، وکلا، پروفیشنلز سمیت نئے مفاداتی گروہ بھی نظر آنے لگے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، اسلام باد، راولپنڈی، حیدرآباد، فیصل آباد، ملتان، گجرانوالہ، سیالکوٹ، سکھر کو نکال کر باقی کل اضلاع میں پرانا بندوبست نسبتا بہت طاقتور ہے۔ ایوب خان سے مشرف تک جب بار بار عدم مرکزیت کو مخصوص طریقے سے استعمال کیا گیا تو خود عدم مرکزیت بھی اک مذاق بن گئی۔
اس مرکزیت پسند ڈھانچے کے کسی ایک کل پرزے یا محکمے کی اصلاح کرنا بظاہر بڑا سہانا خواب لگتا ہے اور اس سراب نے بہت سے اعلی اذہان کو بھی متحرک و متاثر کیا مگر ہر بار اس میں مزید بگاڑ ہی ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے موقر سیاسی رہنماوں اور دانشوروں نے نئے سماجی سمجھوتے یعنی نیو سوشل کنٹریکٹ کی بات کی۔ ایسا کنٹریکٹ جس میں عوام کو سبجیکٹ کی بجائے شہری یا باسی یعنی سٹیزن سمجھا جائے اور انہیں ہر سطح پر فیصلوں میں شامل کرنے کے وسیع مواقع ہوں۔
پولیس کو ٹھیک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر پولیس اس نظام کا محض ایک کل پرزہ یا محکمہ ہے۔ ایک زمانے میں اسے محض سول بیوروکریٹ چلاتے تھے تو آج اس کو چلانے والے نصف درجن سے زیادہ ہیں۔ جس نظام کا یہ حصہ ہے اس کا خمیر مرکزیت پسندی سے اٹھایا گیا ہے اور پاور شئیرنگ کو یہ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔
یہ مائنڈ سیٹ کیا محض پولیس ہی کا ہے؟ اگر آپ تھانیدار کی جگہ ایس پی یا اس سے بڑے رینک والے افسر کو بھی بٹھا دیں گے تو صورتحال یہی رہے گی۔ اصلاحات کی ضرورت اس پورے سسٹم میں ہے جس میں عدالتیں، سیکیورٹی ادارے اور بیوروکریسی شامل ہے مگر اصلاحات کے لیے تصفیہہ اور تسلسل پہلی شرط ہے۔
حوالہ جات:
اس مضمون کے لیے جن کتب اور تحریروں سے مدد لی گئی
سرخ سیاست، سوانح کامریڈ عبدالروف ملک، مطبوعہ2018 جمہوری پبلشرز لاہور
انٹرویو خواجہ مسعود، مطبوعہ عوامی جمہوری فورم 2006
قصہ ایک صدی کا، سوانح غلام نبی ملک، مطبوعہ سنگ میل لاہور 2011
اختر حمید خان کا انٹرویو از زینت حسام مطبوعہ ارادہ
Mid 19th century Punjab by Ganish Das (Originally written in Persian as Char Bagh Punjab in 1850) Translated by Garewal.
Liberty or Death: Partition of India by Patrick French
Father & Daughter by Begum Jehan Ara Shahnawaz
Ranas of Haryana by Talat Rana & Ghaziuddin Rana published 2018
Civil military relations by Dr Saeed Shafqat
Surviving the wreck by Syed Munier Ahmad Published by Readings, Lahore
Ripen Reforms Published by West Pakistan academy Lahore
Sedition report 1918 Prepared by Judge Rowlatt
History of indigenious education in the Punjab by G.W. Litner published in 1882
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔