ڈان تحقیقات: لینڈ مافیا کے ریکٹس اور تباہی کی پیش گوئی
بحریہ ٹاؤن و دیگر کی بے لگام لالچ کے اختتامی حصے میں ضلع ملیر اور جامشورو میں بغیر روک ٹوک کے ریت کی کان کنی اور زمینی پانی کو نکالنے کے معاملے پر نظر ڈالیں گے۔
ایسی صورتحال میں جہاں قانون کو پیروں تلے روند دیا جاتا ہو ایسے میں ملیر اور جامشورو میں زمین پر قبضہ علاقے میں جرائم پیشہ افراد کو بڑی تقویت دیتا ہے۔
مئی کے وسط میں سخت گرمی کا دن تھا کہ مول ندی جو ایک موسمی ندی ہے اور وہ کراچی کے تقریباً 30 میل شمال میں ملیر ندی سے منسلک ہوجاتی ہے، اس کے کنارے پر تقریباً نصف درجن ڈمپر کھڑے تھے، اس دوران کئی کھدائی کرنے والے بڑی مقدار میں دریا کی گاد (ریت) کو نکال رہے تھے۔
اس موقع پر ایک ڈمپر ڈرائیور عمر بات کرنے کے لیے قریب آیا، اس نے ڈان کو بتایا کہ روزانہ 24 گھنٹے میں تقریباً 65 ڈمپر 3 راؤنڈ ٹرپ کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'تقریباً تمام ریتی بحریہ ٹاؤن کے لیے ہے لیکن اس میں سے کچھ شہر میں بھی جاتی ہے، ابھی رمضان ہے تو تھوڑا سکون ہے کیونکہ زیادہ تر ڈرائیور سوات اور شانگلہ سے ہیں تو وہ عید کے لیے اپنے گھر چلے جاتے ہیں'۔
دریا کے کنارے سے بجری اور ریتی کی نقل و حمل کے لیے خصوصی طور پر ایک چوڑا بغیر کارپیٹڈ ٹریک بنایا گیا ہے، اس کا راستہ مول ندی سے ملیر اور بحریہ ٹاؤن کراچی (بی ٹی کے) تک ہے۔
یہاں تک کہ رمضان کے دوران 20 منٹ کے اندر ڈان کی ٹیم نے یہ بھی دیکھا کہ تقریباً 5 ڈمپر بحریہ ٹاؤن کراچی کی سمت میں جارہے ہیں اور ان کے پہیے دھول کے بادل بنا رہے ہیں۔
اس حوالے سے علاقے کے طاقتور قبائی سربراہ ملک اسد سکندر کے مطابق ریتی نکالنا 'مکمل طور پر قانونی ہے اور یہ کام مقامی لوگوں کی جانب سے (حکومت سے) لیز کی بنیاد پر کیا جارہا'۔
تاہم سندھ ایکٹ 2003 (کسی بھی زمین سے ریتی اور بجری سمیت معدنیات نکالنے کی ممانعت) کے مطابق اس طرح کی کھدائی جس کا اثر 'اگر اس علاقے کی سیاحت، آثار قدیمہ اور ماحول پر پڑتا ہے' تو اس کے لیے کوئی رعایت یا اجازت نہیں دی جاسکتی۔
قبضہ مافیا کی سروس میں موجود کمدار و دیگر موقع پرست سمیت مقامی بااثر افراد علاقے میں مختلف ریکٹس سے مٹھی بھر کے خوب پیسے بنا رہے ہیں۔
اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے سندھی ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر رکھمان گل پالاری کا کہنا تھا کہ ریت اور بجری کو نکالنے کے قلیل اور طویل مدتی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جبکہ 'یہ سب کیرتھر نیشنل پارک کے لیے معاون علاقہ ہے'۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اس پارک کا ایکو سسٹم سب آپس میں جڑا ہوا ہے اور جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہیں جبکہ کھیل کے محفوظ مقامات کی تمام قدرتی حالت بھی باقی رہنے والے علاقے پر منحصر ہیں'۔
ہنگول کے بعد کیرتھر پاکستان کا دوسرا بڑا وائڈلائف کا محفوظ مقام ہے اور چنکارا ہرن، اڑیل، ہائناس (لکڑ بگا) اور نایاب سندھ آبیکس، ان بہت سے جانوروں میں شامل ہیں، جو یہاں پائے جاتے ہیں۔
ریت اور بجری کو نکالنا کسانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ریت پانی کے بہاؤ کو کم کردیتی ہے اور یہ زمین میں پانی جانے سے قبل اسے فلٹر کرنے کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
ندی کے کنارے سے تھوک کی طرح لوٹ مار کے اس عمل نے علاقے کو متاثر کردیا ہے اور جامشورو اور ملیر کے بڑے حصوں میں واٹر ٹیبل خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔
مول ندی کے بہت قریب زمین پر سبزیوں کی کاشت کرنے والے کریم برفت کا کہنا تھا کہ 'ہم 40 یا 50 فٹ کی گہرائی سے پانی کھینچتے تھے اب یہ سطح 200 فٹ تک جا پہنچی ہے، ریت کی ایک موٹی پرت نے ہر چیز کو کور کرلیا ہے، جس کے باعث فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور مویشوں کے لیے جو گھاس بچتی ہے وہ جل جاتی ہے'۔
ریت پر تعمیر جاگیریں
مزاحمت بے سود: کچھ افراد، جنہوں نے ریت اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی، انہیں مارا پیٹا گیا اور پولیس کے ذریعے لاک اپ میں ڈال دیا گیا۔
دوسری جانب کریم جیسے کسانوں نے اپنے ذریعہ معاش کو ختم ہوتے دیکھا، کمدار اور لینڈ مافیا میں موجود دیگر موقع پرستوں سمیت مقامی بااثر افراد، علاقے میں متعدد ریکٹس سے خوب پیسہ کما رہے ہیں۔
4 سال پہلے ان میں سے ایک دکان میں کام کرتا تھا، ایک دوسرا شخص ملیر کے کاٹھور بازار میں چینی اور آٹا بیچتا تھا جبکہ تیسرے شخص کی اسی مارکیٹ میں درزی کی دکان تھی، ان لوگوں سمیت دیگر کمداروں کے پاس آج اپنے ڈمپرز اور کھدائی کرنے والی بھاری بھرکم مشینیں ہیں اور وہ بھینسوں کے باڑے جبکہ ان میں اکثر کار شوروم وغیرہ کے بھی مالک بن چکے ہیں۔
اس حوالے سے تلخی سے بات کرتے ہوئے گاؤں کے ایک شخص نے بتایا کہ ’جن لوگوں کے پاس 10 سال پہلے 10 بکریاں تک نہیں تھیں آج ان کے پاس لاکھوں روپے کے ڈمپرز کے ساتھ ساتھ لینڈ کروزرز، ویگو اور کیا نہیں ہے؟ گاؤں کے بہت سے گھروں میں بجلی نہیں اور ان افراد نے اپنے گھروں کی چھت پر بڑے بڑے سولر پینلز لگا رکھے ہیں، اس سے بہت مایوسی پھیل رہی ہے۔
شاید کوئی تو یہ سوال کرے گا کہ زمین پر قبضوں کا یہ سلسلہ آخر کب اختتام پذیر ہوگا اور کون اسے روکے گا؟
ریت اور بجری نکالنے والے ریکٹس اصل میں پیسہ کما رہے ہیں، اس کا ایک ڈمپر بحریہ ٹاؤن میں 22 ہزار روپے کا ہے ’کچھ ڈمپرز دوسرے مقامات پر بھی جاتے ہیں لیکن سب سے بڑا کاہگ پڑوس میں ہی موجود ہے، اس مجموعی رقم میں کمدار یا مالک، ایندھن اور مرمتی اخراجات نکال کر 6 ہزار 500 روپے کماتے ہیں جبکہ دیگر رقم پولیس اور مبینہ قبائلی سربراہان سمیت اعلیٰ سطح پر موجود ’اسٹیک ہولڈرز‘ کو پہنچائی جاتی ہے۔
ضلع ملیر میں دیہہ بولاری کے ساتھ دیہہ مولی کے احاطے سے قریب ترین گوٹھ میں کمدار وہاں سے گزرنے والے ڈمپروں سے ضلع بندی ٹیکس کی صورت میں 800 روپے حاصل کرتے ہیں۔
دوسری جانب وہ کسان، جن کے مولی ندی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی زرعی اراضی پانی کی کمی کے باعث ختم ہورہی ہے، انہیں معاوضے کی صورت میں 200 روپے فی ڈمپر ادا کیے جاتے ہیں، لیکن ایک بوڑھے شخص نے یہ رقم قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ’ کیا یہ میری تباہی کی قیمت ہے؟'
لیکن علاقے کی تعمیراتی طلب پوری کرنے لیے صرف آبی گزرگاہوں سے ریت اور بجری نہیں نکالی جارہی بلکہ بحریہ اسپورٹس سٹی کے قریب ضلع ملیر اور جامشورو کی حدود میں بھی ریت کی کان کنی جاری ہے، جہاں ایک جانب بحریہ ٹاؤن کراچی کے منصوبے پر عمل کرتے زمین کی قدرتی شکل کو بری طرح تبدیل کیا جارہا ہے (اور اس سے پیدا ہونے والی ریت کو بھی تعمیرات میں استعمال کیا جارہا ہے تو وہیں علاقے کا پہاڑی سلسلہ ختم ہو کر زمین بن گیا ہے اور دریا کا قدرتی راستہ سکڑ چکا ہے)۔
زمین کو خشک کرنا
تعمیرات کے لیے پانی درکار ہوتا ہے اور بحریہ ٹاؤن کراچی جیسے بڑے منصوبے کے لیے لاکھوں گیلن پانی درکار ہے، ضلع ملیر اور اس کے گرد و نواح میں کمرشل استعمال کے لیے پانی نکالنے پر دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود علاقے میں زیر زمین پانی کا رخ اس جانب موڑ دیا گیا ہے۔
یہ پابندی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے 2004 میں ملیر کے دیہہ چوہار میں واٹر پلانٹ لگانے سے روکنے کے احکامات کے بعد عائد کی گئی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 'اتنی بڑی مقدار میں پانی نکالنے کی ایک مرتبہ اجازت دے دی گئی تو ہر دن، ہر گھنٹے زیر زمین پانی کے ذخیرے میں کمی واقع ہوگی جو جلد کم ترین سطح پر پہنچ جائے گا اور اس سے اپنی ضروریات کے لیے پانی حاصل کرنے والے افراد کے حقوق متاثر ہوں گے اور انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا'۔
اگر نیسلے پلانٹ کو اجازت دے دی جاتی تو یہ بحریہ ٹاؤن سے صرف 3 کلومیٹر پر قائم ہوتا۔
علاقائی حقوق اتحاد، سندھ کے مرکزی کمیٹی کے رکن گل حسن کلماتی کے مطابق ملیر میں تقریباً 200 سے زائد پمپس ہیں جن سے 24 گھنٹوں کے دوران 2 کروڑ 60 لاکھ گیلن پانی نکالا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن میں مزید 25 یا اس سے زائد ایسے پمپس موجود ہیں، جو مسلسل زیر زمین پانی کو کھینچ رہے ہیں جو دور بسے دیہاتوں کو پانی فراہم کرنے کا بھی واحد ذریعہ ہے (ان میں 2 ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کی جانب سے قریبی گوٹھوں کے لیے غیر کمرشل بنیادوں پر لگائے گئے 2 پمپس بھی شامل ہیں)۔
ہائیڈرنٹ مالکان علاقے میں مختلف رہائشی اسکیموں کو پانی فروخت کرتے ہیں مگر زیادہ تر حصہ بڑے پیمانے پر تعمیرات کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کو فروخت کیا جاتا ہے، یہ ایک اور پولیس، کمدار اور دیگر افراد کے غیر قانونی آمدن کا ذریعہ ہے۔
نیب کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ 'بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبہ روز مرہ کے استعمال اور بڑے پیمانے پر تعمیرات کے لیے لاکھوں گیلن پانی کہاں سے حاصل کررہا ہے'۔
قبضے، پانی نکالنے اور مٹی نکلانے کی وجہ سے دیہہ مول کے کتنے گاؤں متاثر ہوئے ہیں؟ کے سوال کے جواب میں مقامی افراد کے گروہ نے گوٹھوں کو اپنی انگلیوں پر گننا شروع کیا جو ان کے اندازے کے مطابق 25 تھے۔
دیہہ مول کی طرح ضلع جامشورو کی دیگر دیہہ میں ریاستی زمینوں بشمول ہتھل بتھ، اتھل پالن، بابر بند اور ساری میں بھی اس ہی طرح غیر قانونی طریقوں سے زمینیں حاصل کی گئی ہے جس کی وجہ سے سوال اٹھتا ہے کہ زمینوں پر قبضہ آخر کہاں جا کر رکے گا اور ان پر کون لگام ڈالے گا۔
ریاست کا اخلاقی دیوالیہ
کراچی کے گردو نواح میں جو ہورہا ہے وہ ریاست کے اخلاقی دیوالیے کا ثبوت ہے۔
سرکاری ادارے خود کو اور اپنے شراکت داروں کے فائدے کے لیے، جہاں ہر قانون کو توڑ رہے ہیں، وہیں انہوں نے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، جس سے وہ ان کی نمائندگی کا دعویٰ کرسکیں۔
جامشورو کی تعلقہ تھانہ بھلہ خان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کہیں موجود نہیں۔
مقامی شخص کا کہنا تھا کہ 'یہاں ہارٹ اٹیک یا پیچیدہ ڈلیوری کا مطلب موت ہے، بہت مشکل ہے کہ کوئی یہاں سے کراچی کے ہسپتال میں وقت پر پہنچ پایا ہو'۔
اس علاقے میں بہت کم لوگوں نے رہائش اختیار کی ہے تاہم سورج ڈھلتے ہی ہر سڑک، ہر لینڈ مارک روشن ہوجاتا ہے، بحریہ ٹاؤن میں بنے آئفل ٹاور کی نقل کو بھی روشن کردیا جاتا ہے تاہم قریبی علاقوں میں قائم دیہات، جہاں کئی سو افراد رہائش پذیر ہیں، اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں۔
ان کے لیے یہاں پر نہ ہی بجلی ہے اور نہ ہی پکی سڑکیں۔
شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے رپورٹس میں شامل چند ناموں کو تبدیل کیا گیا ہے۔