پاک بحریہ نے 4 مارچ 2019 کو پہلی بار کسی بھارتی آبدوز کی پاکستانی آبی حدود میں در اندازی ناکام نہیں بنائی بلکہ ایسا وہ کئی بار کامیابی سے کر چکے ہیں، نومبر 2016 میں بھی بھارت کی ایک آبدوز پاکستان کی آبی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی، جس کو کامیابی سے روکا لیا گیا تھا، یوں کئی بار ملکی آبدوزوں نے بھارتی نیوی پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔
نیوی کا زیر آب فلیٹ 1964 میں قائم کیا گیا تھا، اس وقت سے اس فلیٹ نے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو شاندار انداز سے نبھایا ہے۔
1971 کی پاک ہند جنگ میں پاکستانی آبدوز ہنگور (Hangor) نے بھارتی نیوی کا جنگی بحری جہاز آئی این ایس کُکری (INS Kukri) تباہ کیا تھا۔
پاکستان نیوی کے زیر آب سرگرم رہنے والے اسکوارڈن نے گزشتہ 4 دہائیوں میں خود کو بھر پور انداز سے باصلاحیت ثابت کیا ہے۔
پاکستان نیوی کی تاریخی آبدوز ہنگور کراچی میں میری ٹائم میوزیم میں عوام کے لیے موجود ہے، جس سے عوام اپنی نیوی کے شاندار ماضی سے وابستگی ظاہر کرتے ہیں جبکہ اس کے درخشاں حال سے بھی واقف ہوتے ہیں۔
آبدوز کو میری ٹائم میوزیم میں رکھے جانے کی بنیادی وجہ نوجوان نسل کو پاک بحریہ کی کامیابیوں اور قربانیوں سے روشناس کروانا ہے۔
تاریخی آبدوز ہنگور کے کمانڈنگ افسر کمانڈر احمد تسنیم تھے، بعد ازاں وہ ترقی پا کر وائس ایڈمرل کے عہدے پر فائز ہوئے، اور قومی بحری بیڑے کی قیادت کی۔
1971 میں جب بھارت اور پاکستان میں جنگ شروع ہوئی، تو ہنگور آبدوز نے کئی کامیاب معرکے سرانجام دیئے، 9 دسمبر 1971 کو بھارت کی مغربی بندرگاہ پر اس آبدوز نے بھارتی آبدوز شکن جہاز کی موجوکی سے متعلق معلومات جمع کیں۔
پی این ایس/ایم ہنگور کو ملنے والی معلومات کے مطابق 2 جہاز آئی این ایس کرپان اور آئی این ایس کُکری بحر ہند میں متحرک ہیں، پاکستان کی آبدوز نے ان دونوں جہازوں پر تارپیڈوز سے حملہ کیا، اس حملے میں آئی این ایس کُکری مکمل طور پر تباہ ہوا جبکہ آئی این ایس کرپان کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
1945 میں ختم ہونے والی جنگ عظیم دوم کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی آبدوز نے دشمن کے جنگی جہازوں کو تارپیڈوز سے تباہ کیا ہو۔
کراچی میں جب آپ کارساز سے شاہراہ فیصل جا رہے ہوں، تو بائیں جانب آپ کو میری ٹائم میوزیم میں ایک ہوائی جہاز کھڑا نظر آئے گا، یہ وہ جہاز ہے جو 5 سال قبل تک بحریہ میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، تاہم اب یہ ڈی کمیشن ہو چکا ہے۔
2012 میں کراچی کے مہران نیول ایئربیس پر ایک تقریب منقعد ہوئی، جس میں نیوی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ بریگیٹ بی آر 1150 اٹلانٹک کی نیوی میں خدمات کی مدت پوری ہو گئی، اس جہاز نے 36 سال تک بحریہ میں خدمات انجام دیں۔
یہ جہاز بہت سی خصوصیات کا حامل تھا، جس میں دشمن کے علاقے کی نگرانی کے ساتھ طویل دورانیے کی پرواز کی خصوصیات شامل تھیں۔
بی آر 1150 اٹلانٹک کو جنگی بحری جہازوں اور آبدوزوں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
2 انجنوں کا حامل یہ جہاز 1976 سے 2012 تک بحریہ کے زیرِ استعمال رہا، اٹلانٹک جہازوں کے اسکوارڈن نے 7 ہزار 7سو مشن انجام دیئے، جس کے لیے 28ہزار گھنٹوں تک پرواز کی گئی۔
یہ جہاز 26 اینٹی سب میرین وارفیر اسکوارڈن (اے ایس ڈبلیو) کا حصہ تھا، یہ اسکوارڈن اس جہاز کی شمولیت کے ساتھ وجود میں آیا، اس اسکوارڈن کو 1971 کی جنگ کے واقعات کے تجزیئے کے بعد بنایا گیا تھا۔
اس جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ نیوی کے پاس دشمن کی آمد کی پیشگی اطلاع دینے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں، جبکہ نیوی کی فضائی نگرانی کی استطاعت بھی موزوں نہیں، یہی وہ وجوہات تھیں کہ جس کے باعث بھارتی جہاز کراچی کی بندرگاہ کے قریب آنے میں کامیاب ہوئے۔
اس اسکوارڈن کو قائم کرتے ہوئے مدنظر رکھا گیا کہ یہ مستعدی سے پاکستانی آبی حدود کی فضائی نگرانی کے ساتھ ساتھ آبدوزوں کی نقل و حرکت اور امدادی مشن انجام دے سکے۔
اس حوالے سے حکومت نے بہت سی تجاویز پر غور کیا، بالاخر فرانسیسی ساختہ اٹلانٹک جہاز خریدنے کا فیصلہ کیا، جس کے تمام معاہدوں اور دیگر امور کو 1974 میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔
ابتدائی طور پر 1976 میں اسکوارڈن میں 3 اٹلانٹک جہاز شامل کیے گئے، جبکہ اس کو 29 اے ایس ڈبلیو اسکوارڈن کا نام دیا گیا، خیال رہے کہ یہ پاکستان کے قیام کا 29واں سال تھا، جس کی مناسبت سے اس اسکوارڈن کا نام رکھا گیا۔
1989 میں نیوی نے اس جہاز میں تبدیلیاں کرکے میزائل کا اضافہ کیا،جس کے بعد یہ جہاز لانگ رینج میری ٹائم ایئر کرافٹ (ایل آر ایم پی ایس) بن گیا۔
پاکستان بحریہ نے آبی حدود کی نگرانی اٹلانٹک طیاروں سے شروع کی تھی، اب جدید پی سی تھری اورین طیاروں سے یہ کام لیا جاتا ہے، جو بہترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔
تصاویر : وقار محمد خان ، توصیف رضی ملک — ویڈیوز : کامران نفیس
تبصرے (2) بند ہیں