• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

کشمیر تنازع: پاکستان کا عالمی برادری سے بھارت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ

شائع September 4, 2019 اپ ڈیٹ September 5, 2019
ملاقات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا — فوٹو: پی آئی ڈی
ملاقات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا — فوٹو: پی آئی ڈی

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ سے ملاقات کے دوران عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت رکوانے اور اس کے غیر قانونی اقدام کو واپس لینے کے لیے نئی دہلی پر دباؤ ڈالا جائے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے وزرائے خارجہ نے مسئلہ کشمیر پر دورہ پاکستان کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کیں۔

وزیر اعظم عمران خان سے سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل بن احمد الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید بن سلطان النہیان نے وزیر اعظم آفس میں ملاقات کی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ملاقات میں موجود تھے۔

اعلامیے کے مطابق ملاقات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن ہے، مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو فوری طور پر اٹھایا جائے جبکہ کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کا احترام ہونا چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ بھارتی اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہیں، بھارت دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بے بنیاد فلیگ آپریشن کا ڈرامہ کر سکتا ہے، جبکہ بھارتی اقدامات سے خطے کے امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ غیر قانونی اقدامات واپس لے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر سعودی عرب اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اپنے ممالک کی قیادت کی ہدایت پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

سعودی عرب،متحدہ عرب امارات ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد مختصر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے، دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے پوری صورتحال پر ہمارے موقف کو سمجھا ہے اور ہم پرامید ہیں کہ دونوں ممالک ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات الگ ہی نوعیت کے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کے اسٹریٹجک تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات کا خطے کے دوسرے ممالک سے تعلقات سے موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔'

وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائن میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 'کشمیر رابطہ گروپ' کا اجلاس ہوگا، پاکستان تنظیم کے کردار کو نمایاں دیکھنا چاہتا ہے، او آئی سی کا باقاعدہ اجلاس بلانے کے لیے سوچ بچار کر رہے ہیں، جبکہ اجلاس بلانے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت بہت ہی اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'او آئی سی کے اجلاس میں یو اے ای اور سعودی عرب کا اہم کردار ہوگا، جبکہ دونوں ممالک کے مندوبین جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی حمایت کریں گے۔'

وزرائے خارجہ کی پاکستان آمد

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دونوں رہنماؤں کا استقبال کیا—فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دونوں رہنماؤں کا استقبال کیا—فوٹو: اسکرین شاٹ

اسلام آباد کے نور خان ایئربیس پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور امارتی ہم منصب عبداللہ بن زاید بن سلطان النہیان کا پرتپاک استقبال کیا۔

اس دوران شاہ محمود قریشی نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے غیر رسمی گفتگو بھی کی۔

بعد ازاں وزیرخارجہ کے ہمراہ سعودی وزیر عادل الجبیر اور اماراتی وزیر عبداللہ بن زاید بن سلطان دفتر خارجہ گئے، جہاں تینوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان بات چیت ہوئی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا سعودی ولی عہد کو تیسری مرتبہ فون، خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال

واضح رہے کہ اس سے قبل 7 مارچ کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

مارچ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرنے کے لیے سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر اہم دورے پر پاکستان پہنچے تھے، جہاں انہوں نے پاکستانی رہنماؤں سے پاک بھارت کشیدگی اور خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔

واضح رہے کہ اماراتی وزیر خارجہ بھی ایسے وقت میں دورہ کر رہے ہیں جب خطے کی مجموعی صورتحال بھارت کی جانب سے 5 اگست کے اقدامات کے باعث کشیدہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے غیر رسمی گفتگو بھی کی — فوٹو: نوید صدیقی
شاہ محمود قریشی نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے غیر رسمی گفتگو بھی کی — فوٹو: نوید صدیقی

تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جاری صورتحال کے دوران ہی 24 اگست کو متحدہ عرب امارات نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا تھا۔

متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد بن زید النہیان نے نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور انہیں امارات کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’آرڈر آف زیاد‘ سے نوازا تھا جبکہ اس دوران انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’آپ (ایوارڈ) کے حقدار ہیں‘۔

بعد ازاں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات یا کسی بھی ملک کو اپنی مرضی سے کسی بھی ملک کے ساتھ باہمی تعلقات قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی وزیر خارجہ کی پاک ۔ بھارت مسائل کے پرامن حل کیلئے تعاون کی یقین دہانی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیے جانے پر میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ 'بین الاقوامی تعلقات مذہبی جذبات سے بالاتر ہوتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان سرمایہ کاری کے حوالے سے تعلقات کی تاریخ ہے تاہم میں جلد یو اے ای کے وزیر خارجہ سے ملاقات کروں گا اور انہیں مقبوضہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے بتاؤں گا'۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024