مقبوضہ کشمیر کے مکینوں کو ایک ماہ سے بھارتی پابندیوں اور کرفیو کا سامنا
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے محاصرے، پابندیوں اور کرفیو کو ایک ماہ مکمل ہوگیا۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقبوضہ وادی میں مواصلاتی نظام بند ہے جبکہ کرفیو کے باعث مارکٹیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہے۔
خبر رساں ادارے نے کشمیر میڈیا سروس کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 5 اگست سے انٹرنیٹ، موبائل، لینڈ لائن فونز اور ٹی چینلز کی مسلسل بندش کے باعث مقبوضہ کشمیر کا دنیا سے رابطہ منطقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلسل پابندیوں کے باعث بدترین انسانی بحران جنم لے رہا ہے کیونکہ وہاں لوگوں کو خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ ہسپتالوں میں بھی ادویات کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی
اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ہی بھارت کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں اور کرفیو کے باعث انتظامی عملے کو فرائض کی انجام دہی کے لیے پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں تاجر بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں کیونکہ دکانیں اور ان کے کاروبار اب تک بحال نہیں ہوسکے۔
رپورٹ کے مطابق تاجروں کا کہنا ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی غیر موجودگی میں کاروبار کو معمول پر لانا مشکل ہے۔
وہ کہتے ہیں 2016 میں خراب صورتحال 6 ماہ تک جاری رہی لیکن کاروبار کی ایسی صورتحال نہیں تھی جیسے اس مرتبہ ہے کیونکہ موبائل سروس کی بندش نے تجارت کو مکمل طور پر مفلوج کردیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جموں میں صنعتوں کو تقریباً 500 کروڑ روپے کا نقصان ہوچکا ہے کیونکہ وہ نہ ہی آرڈر وصول کر رہے ہیں اور نہ ہی وادی اور دیگر اضلاع سے انہیں وصولیاں ہورہی ہیں۔
مقبوضہ وادی میں بھارتی پابندیوں نے سیاحتی صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ مقبوضہ وادی میں شہریوں کے معاش کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔
مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی
خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرتے ہوئے وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔
آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھا دیا تھا، بعدازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرنے کے بعد کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی تھی۔
بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں سرکاری ملازمین کی بھرتیوں کا منصوبہ
اس حوالے سے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک فرد کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے الزام لگایا کہ "انہوں نے ہمیں مارا، ہم ان سے پوچھتے رہے کہ 'ہم نے کیا کیا ہے؟ اگر ہم جھوٹ بول رہے ہیں، اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے؟ تو آپ گاؤں والوں سے پوچھ سکتے ہیں؟' لیکن انہوں نے کچھ نہیں سنا، نہ ہی کچھ کہا لیکن بس وہ ہمیں مارتے رہے"۔
اپنی کہانی سناتے ہوئے مذکورہ فرد نے بتایا تھا کہ 'انہوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا، انہوں نے لاتیں ماریں، ہمیں لاٹھیوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے اور تاروں سے مارا، انہوں نے ہماری ٹانگوں کے پیچھے مارا اور جب ہم بےہوش ہوجاتے تو وہ ہمیں اٹھانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیتے اور جب وہ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے، جس پر ہم چیختے تو ہمارے منہ کو مٹی سے بھر دیا جاتا'۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔
اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: لاک ڈاؤن کے باوجود 500 مظاہرے، سیکڑوں افراد زخمی
1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔
اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔
آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔