گیس کے بلوں کی حتمی تاریخ میں اضافے کا اعلان
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے گیس کے بلوں کی مقررہ تاریخ میں اضافے کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد میں معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اور وزیر توانائی عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقامی و صنعتی صارفین کی جانب سے شکایات موصول ہورہی تھیں کہ انہیں جب گیس کا بل ملتا ہے تو اسے جمع کرانے کی تاریخ اگلے ہی روز ہوتی ہے اور اس کے بعد اس پر لیٹ پیمنٹ سرچارج لگ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے عوام کی سہولت کے لیے گیس کے بل کو 48 گھنٹوں کے اندر صارفین تک پہنچانا لازمی قرار دے دیا ہے جبکہ مقررہ تاریخ میں بھی اضافہ کرتے ہوئے صارفین کو بل جمع کرانے کے لیے 15 روز کا وقت دے دیا ہے'۔
پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے کئی شعبے ایسے ہیں جس میں صحیح معنوں میں کوئی مقابلہ نہیں جس کی وجہ سے صنعتوں کی مونوپلی چلتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ان شعبوں کو کھولنا ہوگا تاکہ مزید سرمایہ کار سامنے آسکیں اور عوام کو اس کا فائدہ قیمتوں اور معیار کی صورت میں مل سکے'۔
انہوں نے کہا پیٹرولیم کے شعبے میں 5 ایریاز ہیں جن میں کچھ پالیسی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن
ان کا کہنا تھا کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن میں کام کرنے کے لیے آنے والی کمپنیوں کو 25 سے 30 علیحدہ اجازت چاہیے ہوتی ہے جس کی وجہ سے کئی غیر ملکی کمپنیاں پاکستان آنے سے قاصر تھیں اور کئی چھوڑ کر جاچکی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'کابینہ نے ان اجازت ناموں علیحدہ علیحدہ بحث کرکے ان میں سے 10 کو ختم کردیا ہے اور دیگر پر ہم نے منظوری کے لیے وقت مقرر کردیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ان کی درخواست پر اگر کام نہ ہوسکے تو کمپنی مقررہ وقت کے بعد اپنا کام شروع کرسکتی ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ملک میں پیٹرولیم دریافت کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے 27 نئے بلاک بنادیے ہیں۔
ریفائننگ اینڈ مارکیٹنگ
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 'ملک میں کوئی پیٹرول پمپ لگانا چاہتا ہے تو اسے کم از کم 17 اور زیادہ سے زیادہ 25 اجازت نامے درکار ہوتے ہیں ہم نے اس میں بھی کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کم کرکے 6 سے 7 کردی ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پیٹرول اور ڈیزل کو ذخیرہ کرنے کے حوالے سے بھی چند قوانین ایسے تھے جو نہایت فرسودہ اور غیر ضروری تھے اور اس کام کے لیے 14 سے 19 اجازت نامے درکار تھے تاہم ہم نے اسے کم کرکے 5 سے 6 کردی ہیں'۔ انہوں نے بتایا کہ 'ریفائنری کے شعبے میں ملک کی پیداوار کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لیے پرانی ریفائنری کو جدید کرنے پر سرمایہ کاروں کو ٹیکس مراعات دی جائیں گی'۔
گیس پائپ لائن
ان کا کہنا تھا کہ 'عوام کو سال کے 9 مہینے گیس کا بل مناسب لگتا ہے تاہم سردیوں کے 3 مہینوں میں وہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کا بل غیر مناسب آیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومت عوام میں شعور ہیٹر اور گیزر کے استعمال سے بل پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے ستمبر کے مہینے سے آگاہی مہم چلائیں گے'۔
انہوں نے بتایا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) اور سوئی نادرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے لیے موبائل ایپ بنادی گئی ہے جس پر عوام اپنی شکایات دائر کرسکتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے معلومات بھی ایپ کے ذریعے حاصل کرسکتی ہے۔
معاون خصوصی برائے پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے 6 مہینوں میں 40 ایم ایم سی ایف گیس کو نظام میں شامل کیا ہے اور آئندہ دنوں میں بھی 30 ایم ایم سی ایف مزید گیس کو نظام میں شامل کریں گے’۔
انہوں نے بتایا کہ 'عوام کی سہولت کے لیے گیس کا بل گھروں پر 48 گھںٹوں کے اندر پہنچایا جائے گا اور اس کی مقررہ تاریخ کو بھی بڑھا کر 15 دن کردی گئی ہے'۔
ایل پی جی
ایل پی جی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایل پی جی میں ہماری مقامی پیداوار ضرورت کے مطابق پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہمیں اسے درآمد کرنا پڑتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ نے ایل پی جی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت جہاں بھی گیس کے پلانٹ ہیں وہاں ایل پی جی کی پیداوار ضروری ہوگی'۔
انہوں نے کہا کہ 'ایل پی جی پیدا کرنے والی سرکاری کمپنیوں میں کوٹہ نظام کو کابینہ نے ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے'۔
ایل این جی
ندیم بابر نے بتایا کہ ایل این جی گزشتہ حکومتوں میں ملک میں متعارف کرائی گئی تھی اور اب یہ ملک کا ضروری حصہ بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اب تک ملک میں صرف 2 ہی ایل ین جی ٹرمینل کام کر رہے تھے تاہم حکومت نے بین الاقوامی کمپنیوں کو مزید 5 نئے ٹرمینل لگانے کی کلیئرنس دے دی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) وہ ٹیکس ہے جو صنعتوں پر لگتا ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اس سے جو پیسے اکٹھے ہوں گے ان سے پائپ لائن بہتر کی جائے تاہم وہ تمام رقوم خسارے میں ہی چلی جاتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے تمام صنعت کاروں اور اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس کی شرح ریٹ 50 فیصد کم کردی ہے'۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 'صنعتکار اس نئے ریٹ پر ادائیگی گزشتہ باقیات کو پورا ادا کرکے حاصل کرسکیں گے'۔