• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدعا

شائع August 26, 2019
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی—فائل/فوٹو:ڈان
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی—فائل/فوٹو:ڈان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست جمع کرادی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا ہے کہ میری درخواست کے ساتھ دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

ضمنی ریفرنس کی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا ہے کہ موجودہ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے دیگر اراکین نے ریفرنس نمبر 427 کے فیصلے میں تعصب ظاہر کیا ہے۔

مزید پڑھیں:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

شکایت کنندہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کرتے ہوئے انہوں نے درخواست میں کہا ہے کہ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اب صدر عارف علوی کی طرف سے دائر ریفرنس سننے کے مجاز نہیں ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو صدارتی ریفرنس خارج کرنے کی ہدایت کی جائے اور ان کے خلاف جو احکامات جاری کئے گئے ہیں ان کو کسی بھی قانونی اشاعت کا حصہ بننے سے روکا جائے۔

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور دیگر اراکین نے گزشتہ ہفتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک وکیل کی جانب سے دائر کیے گئے ضمنی ریفرنس کو مسترد کردیا تھا تاہم چیف جسٹس نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بھی تحریر کردی تھیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ریفرنس سے متعلق صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط کے حوالے سے وکیل نے موقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس نے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ کونسل نے اس ضمنی ریفرنس کو مسترد کرتے ہوئے اپنا فیصلہ جاری کردیا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلے میں کہا تھا کہ ریفرنس میں دائر الزامات جج کو ہٹانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا ہے کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

انہوں نے موقف اپنایا ہے کہ میری درخواست میں بہت اہم آئینی سوالات ہیں جو عدلیہ کہ آزادی اور صدر مملکت کی آزادانہ رائے سے متعلق ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا ہے کہ میری درخواست میں وفاقی کابینہ کی منظوری اور جس طریقے سے میرے اور میرے اہل خانہ کے کوائف اکٹھے کیے گئے ہیں اس حوالے سے گزارشات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں تمام زیر التوا درخواستیں سننے کی بھی استدعا کی ہے اور کہا ہے کہ عدالت عظمی ان کی درخواست کے ساتھ دیگردرخواست گزاروں کی درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دے۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 7 اگست کو عدالت عظمیٰ میں ان کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو چیلنج کر دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کو ذاتی طور پر چیلنج کیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ میری درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو روک دی جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں جج صاحبان پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزمات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کو خط

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا باعث نہیں ہورہا۔

خط میں انہوں نے کہا تھا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024