• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

‘بیوروکریٹس سے متعلق نیب قوانین کا جائزہ بدنیتی پر مبنی ہے‘

شائع August 21, 2019 اپ ڈیٹ August 22, 2019
سیاسی افراد کو ہی خصوصی قانون کا سامنے ہے
—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سیاسی افراد کو ہی خصوصی قانون کا سامنے ہے —فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے کاروباری افراد اور سول بیوروکریٹس کے حوالے سے نیب قوانین کا ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ ’امیتازی اور بدنیتی‘ پر مبنی ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے الزام لگایا کہ وفاقی کابینہ کا فیصلہ سیاسی افراد کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔

مزیدپڑھیں: ’نیب بذات خود سرکاری ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا‘

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ سول بیوروکریسی کے خلاف اس وقت تک تحقیقات،ریفرنس اور گرفتاری عمل میں نہیں لائی جائے گی جب تک ان کے ساتھیوں پر مشتمل سپروائزری کمیٹی اس کی منظوری نہ دے دے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پہلے ہی مختلف احتساب قوانین رائج ہیں، جس میں عدلیہ، عسکری اور سول بیوروکریسی کا احتساب ’ان کے ساتھی‘ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف سیاسی افراد کو ہی خصوصی قانون اور خصوصی عدالتوں کا سامنا ہے۔

رضا ربانی نے مطالبہ کیا کہ اگر باقی اداروں کے افراد کا احتساب ان کے ساتھی کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کے ارکان کا احتساب بھی پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب کرے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے کو دنیا کے آخری کونے تک نہیں چھوڑیں گے’

ان کا کہنا تھا کہ ’مذکورہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ وفاقی کمیشن برائے احتساب قائم کیا جائے، جہاں سب کے لیے ایک قانون ہو‘۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وفاقی کمیشن برائے احتساب معاشرے کے ہر طبقے کا بلا تفریق احتساب کرے گا۔

واضح رہے کہ 19 اگست کو سول سروس اصلاحات کے سلسلے میں تشکیل دی گئیں 2 ٹاسک فورسز نے تجویز دی تھی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سپروائزری کمیٹی کی منظوری کے بغیر کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ سول سروس ملازم کے خلاف کارروائی نہ کرے۔

مذکورہ سپروائزری کمیٹی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج، وفاقی حکومت میں بطور سیکریٹری یا اس سطح کے عہدے پر فرائض انجام دینے والے 3 افراد پر مشتمل ہو اور اس میں شامل افراد کی ریٹائرمنٹ کی مدت کو سپروائزری کمیٹی میں شمولیت سے قبل 2 سال ہوچکے ہوں۔

مزیدپڑھیں: نیب کا بائیکاٹ نہیں کریں گے، اسے تھکائیں گے، آصف زرداری

اس قسم کی تجاویز کو وفاقی حکومت کو ارسال کرنے کا فیصلہ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا جس کی سربراہی وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی ڈاکٹر عشرت حسین نے کی تھی۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ طریقہ کار ہر اس فرد کے لیے استعمال کیا جائے گا، جو سول سروس سے کسی بھی طرح منسلک ہو یعنی کانٹریکٹ بنیاد یا ریٹائرڈ ملازم ہو، تاہم یہ بات مدِ نظر رہے کہ اس سے مراد صرف سرکاری ملازمین ہیں، سرکاری عہدوں پر موجود سیاسی شخصیات نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024