• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

’نئے پاکستان‘ میں عمران خان نے کتنے یوٹرن لیے؟

وزیراعظم نے پاکستان میں واضح طور پر سیاست میں یو ٹرن کو متعارف کروایا اور اس کو ایک کامیاب رہنما کے لیے ضروری قرار دیا۔
شائع August 21, 2019

قیام پاکستان کے بعد سے ملک کی سیاست میں بہت سے نشیب و فراز آئے، کبھی ملک پر جمہوری حکمرانوں نے حکومت کی تو کبھی کئی سالوں تک ملک کو فوجی آمریت بھی سہنا پڑی۔

ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے جہاں متعدد سیاسی جماعتوں نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی وہیں آمر بھی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کرتے نظر آئے۔

گزشتہ سال جولائی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ملک کا اقتدار سنبھالا، یہ اقتدار عمران خان کی 23 سالہ سیاسی جدوجہد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔

عمران خان کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا — فائل فوٹو بشکریہ وزیراعظم انسٹا گرام اکاؤنٹ
عمران خان کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا — فائل فوٹو بشکریہ وزیراعظم انسٹا گرام اکاؤنٹ

عمران خان نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھتے ہوئے سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے ملک میں نوجوان اور متوسط طبقے کی قیادت کو سامنے لانے اور ملک میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا، اس کے علاوہ عمران خان سیاست کے آغاز سے ہی ملک کی نام نہاد اشرافیہ اور ان کے اقتدار میں آنے جبکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار میں 'باریاں' لگانے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے، جو ہنوز جاری ہے۔

لیکن عمران خان کو گزشتہ سال ملک کا اقتدار سنبھالتے ہی کچھ ایسے اقدامات کرنا پڑے جو ان کے برسوں میں کیے گئے اعلانات اور بیانات سے متصادم تھے، ابتدا میں ناقدین نے ان اقدامات کو عمران خان کا واضح یو ٹرن قرار دیا اور بعد ازاں عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ ان کی جانب سے مذکورہ معاملات میں یو ٹرن لینا ملک و قوم کے مفاد میں تھا اور ایسا انہوں نے جان بوجھ کر کیا۔

انہوں نے گزشتہ سال نومبر میں اپنے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا تھا کہ یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، تاریخ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی، عمران خان کے مذکورہ بیان کے بعد ان پر مخالفین کی تنقید میں اضافہ ہوا۔

دوسرے ہی روز وزیرِ اعظم عمران خان کے یو ٹرن سے متعلق بیان پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف انہیں آڑھے ہاتھوں لے لیا اور سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ عمران خان یو ٹرن والے بیان پر بھی یوٹرن لیں گے۔

پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ بھی عمران خان کے ناقدین میں شامل ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ بھی عمران خان کے ناقدین میں شامل ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ عمران خان کے یوٹرن کے لیے انتظار فرمائیں، (انہیں اپنے بیان پر یوٹرن لینے میں) زیادہ دیر نہیں لگے گی، ان کے علاوہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف نے بھی عمران خان کے یو ٹرن سے متعلق بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

رواں سال جون میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رکن خورشید شاہ نے وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں کیے جانے والے اعلانات اور ان پر لیے جانے والے یوٹرنز کی نشاندہی کچھ اس طرح کی تھی۔


خورشید شاہ نے تقریر کے دوران عمران خان کے اعلانات کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ :

  • قرضہ نہیں لوں گا (لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف سمیت متعدد سے قرض لیا)

  • پیٹرول، گیس، بجلی سستی کروں گا (جبکہ پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا)

  • میٹرو بس نہیں بناؤں گا (پشاور میں ایسی ہی ایک بس سروس پر کام کا آغاز کیا گیا)

  • ڈالر مہنگا نہیں کروں گا (پی ٹی آئی کی حکومت میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا)

  • ہندوستان سے دوستی نہیں کروں گا (پی ٹی آئی کی حکومت نے ابتدا میں بھارت کی جانب خیر سگالی کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تاہم بعد میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے)

  • ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دوں گا (مسلم لیگ (ن) کی جانب سے متعارف کروائی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو معمولی رد و بدل کے ساتھ نافذ کیا گیا)

  • آزاد امیدواروں کو نہیں لوں گا (حکومت بنانے کے لیے اراکین کی تعداد مکمل کرنے کے لیے آزاد اُمیدواروں کو شامل کیا گیا)

  • سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں لوں گا (اس پر عمل دارآمد بھی نہیں کیا گیا)

  • وزیراعظم کو لائبریری اور گورنر ہاؤس پر بلڈوزر چلاؤں گا (اس اعلان پر بھی عمل نہیں کیا گیا)

  • بیرون ملک دورے نہیں کروں گا (عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ایک سال ہی میں امریکا، سعودی عرب اور انڈونیشیا سمیت متعدد ممالک کے کئی دورے کیے)

  • عام کمرشل فلائٹ میں جاؤں گا (اس اعلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا)

  • ہیلی کاپٹر کے بجائے ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر جاؤں گا (اب تک اس اعلان پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا)

  • مختصر کابینہ بناؤں گا (عمران خان کی کابینہ میں وزرا اور مشیروں کی تعداد میں متعدد مرتبہ اضافہ ہوا)

  • جس پر الزام ہوگا اسے عہدہ نہیں دوں گا (پی ٹی آئی کے متعدد موجودہ اور سابق وزرا کو مقدمات کا سامنا ہے)

  • جو حلقہ کہیں گے کھول دوں گا (اپوزیشن کی شدید تنقید کے باوجود اس اعلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا)


رواں سال مارچ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی مخالف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول بھٹو اور ان کے والد کرپشن سے یوٹرن لے لیتے تو آج عدالتوں میں نہیں پھرنا پڑتا۔

بعد ازاں اسی ماہ کی 20 تاریخ کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیراعظم پر الزام لگایا تھا کہ عمران خان نیازی کا دعویٰ تھا کہ عدالتی سزا پر جہانگیر ترین کو پارٹی سے نکال دوں گا، لیکن انہوں نے یوٹرن لے کر انہیں کابینہ میں بٹھا لیا۔

جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔

پی ٹی آئی کی رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا تھا — فائل فوٹو: اے پی
پی ٹی آئی کی رہنما جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا تھا — فائل فوٹو: اے پی

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'

شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں۔'

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔

جہاں ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان عمران خان کے یو ٹرن سے متعلق بیانات کی حمایت میں پیش پیش نظر آئے تو وہیں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی عمران خان کے یو ٹرن سے متعلق بیانات کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی لیڈر اپنے ابتدائی وعدوں سے پیچھے ہٹ جائے یا یوٹرن لے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔

عمران خان نے ملائیشیا کا دورہ کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان نے ملائیشیا کا دورہ کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ بعض مرتبہ لوگوں نے غلطیاں کیں اور وہ اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹے کیونکہ انہیں جب احساس ہوتا ہے کہ ایسا کرنے میں ہی عقلمندی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’بعض مرتبہ ہم غٖلط راستے پر چل پڑتے ہیں، ہم واپس پلٹ جاتے ہیں لیکن صرف اس وقت جب ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہم پرفیکٹ نہیں ہیں‘۔

پی ٹی آئی اپنے قائد عمران خان کے یو ٹرنز کے حوالے سے بیانات اور اقدامات کا دفاع کرتی ہے، یو ٹرن کا معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے یہ مشورہ تک دیا کہ حکومت کو ‘وزارت یو ٹرن بنانی چاہیے‘۔

وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان کو بنے ایک سال ہوگئے ہیں اور اس دوران انہوں نے مختلف یوٹرن اور ایسے فیصلے کیے جنہیں کافی تنقید کانشانہ بنایا گیا۔


فیاض الحسن چوہان پھر صوبائی وزیر بنادیئے گئے

فیاض الحسن چوہان کو نازیبا بیان دینے پر صوبائی وزیر کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
فیاض الحسن چوہان کو نازیبا بیان دینے پر صوبائی وزیر کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی اور اس دوران ان کی جانب سے لیے گئے یوٹرن پر بات کی جائے تو اس میں ایک اہم معاملہ فیاض الحسن چوہان کو پنجاب کے صوبائی وزیر اطلاعات سے ہٹانے کے کچھ ہی ماہ بعد انہیں دوبارہ صوبائی کابینہ کا حصہ بنانا بھی شامل ہے۔

فیاض الحسن نے لاہور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کیا تھا، جس میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی پاکستان میں دراندازی کی کوشش کے جواب میں انہوں نے سخت الفاظ میں بھارتیوں کے بجائے 'ہندوؤں' کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ان کے بیان کی ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہوئی جس پر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، بعد ازاں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن ڈاکٹر درشن اور کھئیل داس کوہستانی نے فیاض الحسن چوہان کے خلاف قرارداد میں وزارت سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا۔

جس پر فیاض الحسن چوہان کو رواں سال 5 مارچ کو متنازع بیان دینے پر صوبائی وزیر اطلاعات کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن 5 جولائی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیاض الحسن چوہان کو پنجاب کی صوبائی کابینہ میں دوبارہ شامل کرتے ہوئے انہیں محکمہ جنگلات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

اس سے قبل گزشتہ برس اگست میں فیاض الحسن چوہان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ایک تقریر میں پاکستان فلم انڈسٹری، اداکارہ نرگس اور میگھا کے خلاف نازیبا گفتگو کرتے نظر آئے تھے۔

ویڈیو میں انہوں نے عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی فلم ’جوانی پھر نہیں آنی-2‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کیا کوئی وکھری(weird) جوانی ہے جو سینما گھروں پر آئی ہوئی ہے، کیا یہ انسانیت ہے؟ آدھی ننگی عورتوں کی تصاویر پرنٹ کرکے سینما گھروں کے باہر لگادی ہیں، ایسے لوگوں کے لیے وہ ٹوٹے(porn) موجود ہیں جو وہ دیکھ لیتے ہیں‘۔

جس پر انہیں عوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


وفاقی وزیر حماد اظہر کا قلمدان ایک روز بعد ہی تبدیل

حماد اظہر کو پہلے وزیر مالیات بنایا گیا تھا — فائل فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان
حماد اظہر کو پہلے وزیر مالیات بنایا گیا تھا — فائل فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

حکومت نے حماد اظہر کے وفاقی وزیر مالیات کا حلف اٹھانے کے ایک روز بعد ہی ان سے محکمہ مالیات کا قلمدان واپس لے لیا تھا۔

کابینہ ڈویژن کی جانب سے 8 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں سابق وزیر مملکت برائے مالیات کو وفاقی وزیر برائے مالیات تعینات کیا گیا تھا بعد ازاں انہیں ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن کی جانب سے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں حماد اظہر کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔

تاہم جولائی 8 کے نوٹیفکیشن میں رد وبدل کے بعد 9 جولائی کو کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ جون میں حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا تھا۔


فواد چوہدری سمیت کئی وزرا کے قلمدان تبدیل

فواد چوہدری سے وزیر اطلاعات کا قلمدان واپس لیے جانے کے بعد فردوس عاشق اعوان مشیر اطلاعات مقرر کیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری سے وزیر اطلاعات کا قلمدان واپس لیے جانے کے بعد فردوس عاشق اعوان مشیر اطلاعات مقرر کیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

رواں سال اپریل میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔

وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا۔

کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا گیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی اور ندیم بابر کو پیٹرولیم ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔

اس کے علاوہ غلام سرور کو وفاقی وزیر ہوا بازی کا قلمدان سونپا گیا ہے، اس سے قبل ان کے پاس وزارت پیٹرولیم کا قلمدان تھا، انہوں نے پارٹی چھوڑنے کی دھمکی بھی دی تھی۔


بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر طوفان

بریگیڈیئر اعجاز شاہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے قابلِ اعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے— فوٹو قومی اسمبلی ویب سائٹ
بریگیڈیئر اعجاز شاہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے قابلِ اعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے— فوٹو قومی اسمبلی ویب سائٹ

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔

خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اقدام کی سخت مخالفت کردی تھی۔

بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔

بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔

انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔

ڈان اخبار میں ظہور کا شائع ہونے والا خاکہ
ڈان اخبار میں ظہور کا شائع ہونے والا خاکہ

پی پی پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ 'صاف ستھرے' سیاست دانوں کو کابینہ کا حصہ بنائیں گے، تاہم اب قوم نے دیکھا کے انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھیوں کو ہی ایک کے بعد ایک اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا۔

پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔

علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔

دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے


اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان

اعظم سواتی نے دسمبر میں وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
اعظم سواتی نے دسمبر میں وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

حال ہی میں وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔

معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔

رواں سال 29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔


آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اسد عمر سے وزیر خزانہ کا قلمدان واپس
اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا کر عبدالحفیظ کو مشیر خزانہ کا قلمدان سونپا گیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی/ڈان
اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا کر عبدالحفیظ کو مشیر خزانہ کا قلمدان سونپا گیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی/ڈان

اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔

اس بیان کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اسد عمر کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے ان سے وزارت خزانہ لے لی گئی تھی اور عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کرنے اک اعلان کیا گیا تھا، واضح رہے کہ عبدالحفیظ شیخ نے اس سے قبل صدر پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کے دور میں وزیر خزانہ سمیت وزارت کے مختلف عہدوں پر خدمات دیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

یاد رہے کہ وزارت واپس لیے جانے کے بعد آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے تمام معاملات اسد عمر طے کر چکے تھے اور معاہدے پر دستخط کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے وفد کا دورہ اسی ماہ کے آخر میں متوقع تھا.

اس سے قبل ذرائع ابلاغ میں 15 اپریل کی صبح سے ہی یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ حکومت نے وزیر خزانہ سمیت 5 اہم وزارتوں کے قلمدان میں تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں اعلان متوقع ہے تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان خبروں کی تردید کی تھی۔

وزیراعظم نے ماہر معیشت، ٹیکنو کریٹ اور سابق وزیر خزانہ ڈاکڑ عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کیا تھا۔

بعد ازاں وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیوں کے بعد وفاقی وزرا، وزیر مملکت، مشیر اور معاون خصوصی کی نئی فہرست بھی جاری کی گئی۔


آئی ایم ایف سمیت متعدد ممالک سے قرضوں کا حصول

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ابتدا سے ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر الزامات لگائے کہ انہیں سابق حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے خزانہ خالی جبکہ ملک معاشی بد حالی کا شکار ملا تاہم دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما ان دعوؤں کی تردید کرتے رہے۔

عمران خان نے انتخابات 2018 سے قبل ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر متعدد مرتبہ الزامات لگائے تھے کہ دونوں جماعتوں نے ملک پر حکمرانی کرتے ہوئے مختلف ادوار میں اربوں ڈالر کا قرضہ لیا اور اسے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے خرچ کیا۔

عمران خان ان دعوؤں کے ساتھ یہ بھی اعلان کرتے تھے کہ اگر وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو کبھی بھی آئی ایم ایف یا دیگر عالمی مالیاتی اداروں سمیت بیرون ملک سے قرضے نہیں لیں گے بلکہ کفایت شعاری کرتے ہوئے ملکی وسائل کو ہی بروئے کار لائیں گے اور مقامی وسائل سے استفادہ کریں گے تاکہ قوم پر قرضوں کا بوجھ نہ بڑھ سکے، اس حوالے سے وہ اکثر ترکی کی مثال دیتے تھے کہ کس طرح ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت نے ملک کا قرضہ ختم کیا اور خود کفیل ہوئی۔

تاہم یہ دعوے اور باتیں اس وقت صرف باتیں ہی ثابت ہوئیں جب عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا، انہوں نے اپنے سابقہ دعوؤں کے برعکس یو ٹرن لیا اور آئی ایم ایف سمیت دیگر بیرون قرضوں کو ملک کی 'بدحالی کا شکار' معیشیت کو سہارا دینے کے لیے انتہائی ضروری قرار دیا۔

اس حوالے سے نہ صرف عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کی بات کی بلکہ ملک کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے قرضوں کے حصول کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین سے بھی قرض کے حصول کے لیے بات کی، مذکورہ قرضوں کے حصول کے لیے عمران خان نے سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کے سرکاری دورے کیے۔

عمران خان کے اس اقدام کو بھی اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ عمران خان نے بیرون قرض لے کر ملک کی معیشیت پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھی اور غریب آدمی کو ضروریات زندگی کے حصول میں مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے علاوہ عمران خان کے غیر ملکی دوروں اور ان پر آنے والے اخراجات کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔


ٹیکس ایمنسٹی اسکیم مخالفت سے حمایت تک

گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں عمران خان ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کرتے رہے ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں عمران خان ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کرتے رہے ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

مئی 2019 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے طویل مشاورت کے بعد اپنی پہلی ٹیکس ایمنسٹی اور اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کروائی تھی۔

اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں طویل عرصے سے زیر غور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2019 کی منظوری دی گئی تھی، واضح رہے کہ اس اسکیم کے تحت کالا دھن رکھنے والے افراد اسے سفید کرسکیں گے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد معیشت کو ڈاکیومنٹیڈ کرنا ہے تاکہ معیشت تیز رفتاری سے چل سکے اور جو ڈیڈ اثاثے ہیں انہیں معیشت میں ڈال کر اسے فعال بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ یہ اسکیم سمجھنے اور عمل درآمد کرنے میں بہت آسان ہو، اس کو حقیقت پسندانہ رکھا ہے اور اس میں قیمت اتنی زیادہ نہیں رکھی گئی ہیں، اس کا مقصد لوگوں کو ڈرانا نہیں بلکہ کاروباری لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ صحیح طریقے سے حصہ ڈالیں۔

اس موقع پر وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کے اعزازی چیئرمین شبر زیدی نے کہا تھا کہ ایف بی آئی، اسٹیٹ بینک اور نادرا سمیت دیگر اداروں کے باہم تعاون اور معلومات کے تبادلے سے سرمایہ کار کا ڈیٹا جمع کر کے انہیں ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائےگا۔

واضح رہے کہ رواں سال 16 اپریل کو کابینہ کے اجلاس میں وفاقی کابینہ کے کچھ وزرا کی جانب سے مخالفت اور تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ مزید وضاحت طلب کیے جانے پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری ملتوی کردی گئی تھی۔

ڈان اخبار میں پی کے کا شائع ہونے والا خاکہ
ڈان اخبار میں پی کے کا شائع ہونے والا خاکہ

عمران خان ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے حامی اور مخالف رہے ہیں، انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادورا میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی کھل کر مخالفت کی تھی تاہم ان پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ 2000 میں جب پرویز مشرف نے ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تو عمران خان نے اس اسکیم کے تحت اپنا لندن کا فلیٹ ظاہر کردیا تھا، جو انہوں نے 1997 میں خریدا تھا، لیکن ظاہر نہیں کیا تھا۔

اسی طرح مارچ 2013 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عمران خان نے کہا تھا کہ اگر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم منظور کی گئی تو وہ اس کے خلاف عدالت عظمیٰ چلے جائیں گے۔

جنوری 2016 کو نواز شریف دور میں پی ٹی آئی چئیرمین نے کہا تھا کہ حکمران اپنے مفادات کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کرتے ہیں، یہ اسکیم ٹیکس چوروں کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دینے کے لیے ہے۔

اس کے بعد 6 اپریل 2018 کو عمران خان نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی بھی بھرپور مخالفت کی تھی۔