• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

گوادر سے کاشغر تک

شائع July 25, 2013

xinjiang uyghur autonomous region map 670x350
زنجیانگ یویغر کا نقشہ -- فوٹو گوگل میپس

اسلام آباد سے ڈھائی گھنٹہ کی پرواز پر یورومقی ہے جو چین کے خودمختار علاقے زنجیانگ یویغر (Xinjiang uighur) کا صدرمقام ہے-

یورومقی ایئرپورٹ سے مزید آگے 320 کلومیٹرکے فاصلے پریورو ایشیائی کانٹیننٹل پول ہے جہاں پہنچنا ناممکنات میں سے ہے- اسے دنیا کا ایسا علاقہ قراردیا جاتا ہے جو چاروں طرف سےمکمل طورپرزمین سے گھرا ہوا ہے-

اس بلند مقام سے گوادر کے ساحل کا نظارہ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے وسیع سمندرکے عین وسط سے زمیں کا ایک ٹکڑا-

ممکن ہے گوادر سے کاشغر کی راہداری چین کے مشرقی سمندری ساحلی علاقے کیلئے جہاں آبادی کا بڑا حصہ آباد ہے، اتنی زیادہ آسان نہ ہو- لیکن خود زنجیانگ ایک پھیلا ہوا خطہ زمیں ہے جہاں کی آبادی بائیس ملین اور معیشت کا حجم 104 بلین ڈالر ہے-

یہ تیل کی پیداوار سے مالامال علاقہ ہے جس کی شرح ترقی نے گزشتہ دہائیوں میں چین کے باقی ماندہ علاقوں کو پیچھے چھوڑدیا ہے-

لیکن اس ترقی سے حاصل ہونے والےفوائدغیرمتوازن ہیں- یہ علاقہ ملک کے دیگر علاقوں سے اب بھی پیچھے ہے اور بیجنگ کی حکومت کی شدید خواہش ہے کہ اس علاقے میں ترقی کے فوائد پہنچیں اوریویغرکی بے چینی کو دور کیا جاسکے-

اس سلسلے میں اٹھایا جانے والا پہلا اہم قدم یورومقی اکنامیکل اینڈ ٹیکنولوجیکل ڈیویلپمنٹ زون کا قیام ہے جہاں چینی اورغیرملکی سرمایہ کارسرمایہ کاری کررہے ہیں- ان منصوبوں میں ہوا سے چلنے والے ٹربائنوں، لوہے اور فولاد، تیل اور گیس کی کھدائی کرنے والے آلات کے علاوہ اشیائے خوردونوش، مشروبات اور دیگر اشیاء صارفین شامل ہیں-

زنجیانگ کا علاقہ وسطی ایشیائی ممالک سے ملا ہوا ہے جس کا سب سے بڑا شراکت دار چین ہے اور روس سے بھی آگے ہے- اس کی تجارت کا بڑا حصہ خشکی کے راستے سے ہوتا ہے- چنانچہ، ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان (ٹی ڈی اے پی) کیلئے ہورگوس فری ٹریڈ زون جو زنجیانگ اور قزاقستان کے بارڈر پرقائم ہے بہت اہمیت کا حامل ہے-

مغربی چین میں خشکی کی سب سے بڑی بندرگاہ کے طور پر یہ وسط ایشیا کے علاقے میں پاکستانی مال برآمد کرنے کا ایک اہم مرکز بن سکتا ہے-

اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں افغانستان سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی جہاں مستقل جاری جنگ (وار لارڈزم) نے ہمیں وسط ایشیا میں جانے سے روک رکھا ہے-

دریں اثناء ٹی ڈی اے پی کا ہم رتبہ زنجیانگ ریجن بیورو، جس پر برامدات اور تجارت کو فروغ دینے کی ذمہ داری ہے، اس کوشش میں ہے کہ یہاں صنعتیں لگائی جائیں جن کے ذریعہ وسط ایشیا کی مستقبل کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے- مثلا کیمیائی اشیاء، زرعی پیداوار، مشینیں، ادویات اور بجلی پیدا کرنے والے آلات و اوزار-

اس کا ایک اورمنصوبہ یہ بھی ہے کہ گلگت - بلتستان سرحد پرواقع کاشغر کوعلاقائی لاجسٹک سنٹر بنا دیا جائے- اس کے لئے جو ترغیبات دی جا رہی ہیں اس میں سستی زمین فراہم کرنے کے علاوہ مالیاتی ترغیبات بھی شامل ہیں جس میں ٹیکس کی معافی، کم قیمت پر بجلی کی فراہمی، ٹرانسپورٹ اور کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی بھی شامل پے-

چینیوں کاحتمی منصوبہ یہ ہے کہ کاشغر اور ہورگوس کو شینزین(chenzhen) اور زیامین (xiamen) کی طرح ترقی یافتہ بنا دیا جائے-

بلاشبہ چین کا منصوبہ یہ ہے کہ اس علاقے میں اشیاء کی پیداوار بڑھائی جائے اور انھیں خشکی کے راستے پڑوسی ممالک کو اور گوادر کے ذریعہ مغرب کو یعنی افریقہ اور یورپ کو برآمد کیا جائے-

اس کے نتیجے میں نہ صرف مصنوعات کی تجارت کو بلکہ خام مال اور نیم خام مال کی برآمد میں مدد ملیگی اور ٹی ڈی اے پی کو موقع ملیگا کہ وہ پاکستان کی مصنوعات کو برآمد کرنے کے ابھرتے ہوئے امکانات سے فائدہ اٹھائے-

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان امکانات سے فائدہ اٹھائیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم محض دوسرے ممالک کو مال فراہم کرنے والی راہداری بننے پر ہی اکتفا نہ کریں- صرف دوہزارکلومیٹرلمبی سڑک کو "معاشی راہداری" قرار دینا ناکافی ہے- کیونکہ مشرف کی حکومت کی "قومی تجارتی راہداری" کے الفاظ اب بے معنی ہو چکے ہیں-

ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان ناٹو کنٹینرز کیلئے بارہ سال تک راہداری بنا رہا لیکن اس سے کوئی معاشی فائدہ نہ اٹھا سکا سوائے اس کے کہ اسے ٹرانزٹ فیس ملی- مثلا، انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹینس فورس کیلئے پانی کی بوتلیں بھی دبئی سے منگوائی گئیں-

اب ہمیں اپنی روایتی مصنوعات کی برامدات سے آگے دیکھنا ہو گا اور پاکستان کے علاقائی پیداوار کے اداروں کوایک نیٹ ورک میں لانا ہو گا-

مثال کے طور پر امریکہ کی آٹوموبائل انڈسٹری کے عروج کے زمانے میں جنرل موٹرز نے کچھ پرزے کینیڈا میں بنوانے شروع کر دئے تھے اگرچہ کہ انھیں جوڑ کر کار بنانے کا آخری مرحلہ ڈیٹروآئٹ ہی میں ہوتا تھا-

xinjiang uyghur 670x350
علاقے میں قائم ونڈ فارم -- فوٹو بشکریہ وکی کامنز

اگر ہماری وزارت صنعت اور اس سے ملحقہ ادارے مثلاً اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی گہرائی سے تحقیق اور جستجو کرے تو وہ زرعی شعبے میں اس قسم کے امکانات تلاش کر سکتی ہے- مثلاً زرعی آلات، ٹیکسٹائل اورکھالوں کی پروسیسنگ، جہاں ہم اپنی مصنوعات کوزنجیانگ کے علاقے میں چینی پیداوارکے نیٹ ورک سے جوڑ سکتے ہیں-

دوسری طرف، اگرہم جنوبی ایشیائی علاقائی تجارت کے معاملے میں بھی ایسے ہی اقدامات کریں تو پھر اس سے پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے-

پاکستان میں چاہ بہار کی ایرانی بندر گاہ کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے جو گوادر سے ستّر کلومیٹر دور اسی ساحل پر واقع ہے- تشویش یہ ہے کہ ہندوستان اس بندرگاہ کو افغانستان اور وسط ایشیا میں پہنچنے کیلئے استعمال کر سکتا ہے-

اگرچہ"افغانستان میں ہندوستان" کے عمل دخل کی بے وجہ تکرار میرے مضمون کا موضوع نہیں ہے میں نہیں سمجھتا کہ ان دونوں بندرگاہوں سے اگر ایک فریق کو فائدہ ہو گا تو وہ دوسرے فریق کا نقصان ہو گا-

بلکہ اس کے برعکس میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان دونوں بندرگاہوں کو ستّر کلومیٹر لمبی ریلوے لائیں کے ذریعہ ملا دینا چاہئے تا کہ وہ ایک ہی ٹرانسپورٹ کے نظام کا ایک متبادل راستہ بن جائیں-

گوادر اور چاہ بہار اگرچہ کہ ایک دوسرے سے ملحق ہیں لیکن دونوں کی سمتیں مختلف ہیں-

ایک کی سمت چین کی جانب شمال مشرق اور مشرقی افغانستان کی جانب ہے تو دوسرے کی سمت مغربی افغانستان اور کیسپین کا علاقہ ہے-

اگر ان دونوں بندر گاہوں کو جوڑ دیا جاتا ہے تو پھر ایک ملک دوسرے ملک تک پہنچ سکےگا-

اس سے دونوں ممالک کی معیشتوں کو فائدہ ہو گا- ایک فائدہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ایران اپنی پٹروکمیکل صنعت دونوں بندرگاہوں کے درمیان قائم کر سکتا ہے-

ایسی صورت میں ہمیں متحدہ عرب امارات سے آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور ہمیں ایسی بندرگاہیں ا ور ایئر پورٹ دستیاب ہونگے جو ایک دوسرے کے قریب ہونگے اور یہ پورے کا پورا علاقہ ایک انتہائی ترقی یافتہ لاجسٹک اور ٹرانسپورٹ کا مرکز بن سکتا ہے-

اپنی جانب سے پاکستان کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ چین کی اس تشویش کو دور کرے جو یویغر میں مذہبی علیحدگی پسندوں کی پرتشدد تحریک کے نتیجے میں سرحد کو کھولنے کے سلسلے میں لاحق ہے-

حالیہ برسوں میں پاکستان کی فرقہ وارانہ تنظیمیں گلگت - بلتستان کے علاقوں کے اندر پہنچ گئی ہیں- انھیں غیر فعال بنانا اور اس علاقے کو ان عناصر سے پاک کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر پاکستان کی جہادی تنظیمیں یویغر کے تشدد پسندوں کیلئے پناہ گاہیں فراہم کریںگی تو پھر یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائینگے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

معظم حسین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

shakir Merani Jul 25, 2013 05:00am
DEAR MUAZAM AP DIN KI ROSHNI MEIN KHAWAB KUNE DEKHTAY HEIN.......HUMARAY MULK PAKISTAN MEIN....AISA NI HONAY WALA....APKAY IS TARQI PASAND IDEAS MEIN HUMARI JEHADI BRIGADE KO AMERICI SAZISH NAZAR .....ANI SHORO HO JAI GI......AUR AP KHUD BAKHUD SHIRMINDA HO JAIN GAY.......

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024