جرمانے کی عدم ادائیگی پر اضافی سزا کاٹنے والے کو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ جرمانہ نہ بھرنے کے سبب اضافی سزا پوری کرنے والوں سے بھی جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک حکم میں کہا کہ ’جرمانہ نہ بھرنے کی صورت میں قید اصل میں ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ملنے والی سزا ہے، تاہم یہ جرمانے کا متبادل نہیں‘۔
اس حکم سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ اگر مجرم جرمانہ بھر دے گا تو اس کے اثاثوں یا جائیدادوں کو ضبط نہیں کیا جائے گا۔
مذکورہ حکم نامہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحیٰ آفریدی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ماتحت عدالتیں معاملات صحیح طریقےسے دیکھیں تو یہ سپریم کورٹ تک نہ آئیں
بینچ نے احتساب عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ کے دیئے گئے مختلف فیصلوں کے حوالے سے کی گئی متعدد درخواستوں کی سماعت کی۔
خیال رہے کہ یہ اپیلیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے مختلف افراد کے خلاف دائر کردہ ریفرنسز اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی مختلف سزاؤں اور جرمانوں سے متعلق تھیں۔
ان مقدمات میں ٹرائل کورٹ نے جرمانے کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں مجرمان کے اثاثے ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ مزید 2 سال قید کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: آف شور ٹیکس بچانے پر اب جیل، جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا
ان سزاؤں کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جہاں سزاؤں میں معمولی کمی ضرور کردی گئی۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے جرمانے کی ادائیگی، اثاثے و جائیدادیں ضبط کرنے اور اضافی سزا سے متعلق ٹرائل کورٹ کا حکم برقرار رکھا۔
اسی کے ساتھ جرمانے کی ادئیگی کے حوالے سے ایک معاملہ یہ بھی زیِر بحث آیا کہ کیا نیب جرمانے کے متبادل کے طور پر یا عدم ادائیگی کی صورت میں متعلقہ اثاثے یا جائیدادیں ضبط کر سکتا ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سارے کام ہمیں ہی کرنے ہیں تو حکومت کیا کرے گی، سپریم کورٹ
جس پر وکلا نے اعتراض کیا کہ جرمانے کی ادائیگی کی جگہ مزید سزا کاٹنے کی صورت میں نہ ہی جرمانے کی رقم حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اثاثے ضبط کیے جاسکتے ہیں۔
اس سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے مجرمان کے اس موقف کی تائید میں فیصلہ دیا تھا کہ جرمانے کی جگہ اضافی سزا کاٹنے پر جرمانہ نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی اثاثے ضبط کیے جاسکتے ہیں۔
یہ خبر 10 اگست 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔