رتن تلاؤ کی مندر والی گلی
یہی کوئی پچھلی صدی کا آخری عشرہ تھا، یہ ریڈیو پاکستان اور فریئر مارکیٹ کے درمیانی علاقے کی ایک شانت دوپہر ہے۔ گو کہ اکبر روڈ کی قربت اِسے سوفتے کے وقت بھی مکمل پُرسکون نہیں ہونے دیتی، لیکن یہاں دوپہر کچھ دیر کو سستاتی ضرور تھی۔ کراچی کی اس قدیمی بستی کو ’رتن تلاؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مرکزی طور پر یہ شہر کی دو بڑی سڑکوں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ لیاقت کے درمیان اس طرح مقید ہے کہ اِس کے درمیان اکبر روڈ اور ٹیمپل روڈ کی مزید فصیلیں بھی کھنچی ہوئی ہیں۔ یہیں ٹیمپل روڈ پر نبی باغ کالج کے قریب ایک پرانا مندر ’رتن اسٹریٹ‘ کے نکڑ پر موجود ہے۔ ایک جانب مندر اور دوسری جانب ایک ویران سی عمارت ’امینہ محل‘ کے نام سے آج بھی قائم ہے، بس اسی کے باجو ایک بڑے آہنی دروازے کے پار ایک گلی تھی، جس کے اندر پھر مزید گلیاں نکلتی تھیں، جہاں بہت سے چھوٹے چھوٹے سے مکانات زندگی کرتے۔ وہیں ہماری امّاں (نانی) کا بھی ایک چھوٹا سا آشیانہ ہوا کرتا تھا۔
اس آہنی دروازے کے پار کی گلیوں میں پندرہ، بیس مکانات پر مشتمل گویا ایک محلہ سا آباد تھا، جہاں سب اچھے برے وقت کے ساجھے دار، ہر دکھ ہر سُکھ بانٹ لینے والے، اچھی بری گھڑی کی خوب خبر رکھنے والے تھے۔ یہاں گھروں کی نیچی دیواریں مکینوں کو عدم تحفظ میں مبتلا رکھتیں، تبھی مشترکہ دیوار کے پار ہم سائے کو اچانک کسی افتاد کی خبر دینے کو یہ ’اشارہ‘ طے تھا کہ ’طاق (دیوار میں بنا ہوا خانہ) میں مُصلی (امام دستے میں جس کی زد سے چیزیں کُوٹی جاتی ہیں) مار دینا، ہم سمجھ جائیں گے کہ پڑوسی کسی کٹھنائی میں ہے۔‘
بہت سی وہمی خواتین تو مردوں کی غیر موجودگی میں کسی ناگہانی سے بچنے کی خاطر مردانہ جوتیاں باہر ڈال کر اپنے دل کا اطمینان کرتیں۔ پھر وہ جنگوں کے زمانے میں ’بلیک آؤٹ‘ میں سب کسی کنبے کی طرح ایک دوسرے سے جُڑ جایا کرتے تھے۔ کرفیو کے ہنگاموں میں بھی سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رہتے۔ جب کراچی میں لسانی ہنگاموں کے دوران بلوے کی افواہوں نے خوف پھیلایا، تو یہاں کے نہتے مکینوں نے بھی مشترکہ ’دفاع‘ کی خاطر سر جوڑے اور لال مرچیں گھلے ہوئے پانی کو اپنا ’ہتھیار‘ کیا۔
ان مکانات کے پچھلی طرف بھی ایک اور پرانا مندر لگتا تھا، جس کے بالکل ساتھ ہی غفار مسجد بھی واقع ہے، مسجد کا راستہ پچھلی گلی ’کولمبو اسٹریٹ‘ کی طرف سے ہے۔ اسی پچھلی طرف کے مندر کے حوالے سے یہاں کے مکینوں میں بہت سی پراسرار سی باتیں مشہور تھیں، یہاں مندر کے قریبی مکانات کے مکین بتاتے کہ انہیں کبھی یہاں گھوڑوں کے دوڑنے جیسی آوازیں سنائی دیتی ہیں، اس طرح کی کچھ پراسرار باتیں پیچھے غفار مسجد کے نمازی بھی بیان کرتے۔ سب سے بڑھ کر جو واقعہ یہاں کے مکینوں میں زبان زد عام ہوا وہ یہاں مندر کے قریب واقع ایک گھر میں ’خزانے کی دیگ‘ کا نکلنا تھا۔ ابھی تک تو یہ چیزیں قصے کہانیوں میں ہی سنی اور سنائی جاتی رہی، لیکن یہ واقعہ ان لوگوں کے درمیان ایک گھر سے منسوب کیا جا رہا تھا۔
خیال تھا کہ پیچھے مندر میں پرانے زمانے میں یہ خزانہ دبایا گیا ہوگا، جو زمین کی گردش کے سبب مندر کے ساتھ والے گھر کے نیچے آگیا، جب وہ دیگ نکالی گئی تو اس پر ایک سانپ بھی بیٹھا ہوا تھا، اُس سے ایک مخصوص جملہ بولا گیا تو وہ زمین کے اندر چلا گیا، یہ اس امر کی نشانی تھی کہ خزانہ مکینوں کے نصیب کا تھا، اگر ان کے نصیب کا نہ ہوتا تو وہ سانپ دیگ پر سے نہ ہٹتایا پھر خدانخواستہ انہیں ڈس لیتا۔ کہا جاتا تھا کہ ’دیگ‘ نکلنے کے بعد اُن گھر والوں نے اپنے تئیں اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی اور مزدور تک کا منہ کچھ دے دلا کر بند کر دیا، لیکن ان لوگوں کے دن پھِرتے ہوئے تو سب ہی نے دیکھے، ایک دم سے نہ صرف پہننا اوڑھنا اچھا ہوگیا بلکہ ان لوگوں نے صدقے کے بکرے بھی قربان کیے۔ پھر کچھ ہی دن بعد وہ لوگ وہاں سے کسی شہر کے اچھے علاقے میں کوچ کرگئے۔ یہ تمام واقعات ہمارے ہوش وحواس سے پہلے یہاں بیت چکے تھے۔
تاہم ہماری تقدیر نے نانی کے پرانے گھر کے توسط سے یہاں کے کچھ لمحے ہمارے بھی نصیب میں رکھے تھے۔ ہر ہفتے دوپہر کے بعد دن جب کچھ دیر کو توقف کرتا تھا، تب ہم یہاں اپنی خالہ اور ان کے بچوں کے ہمراہ عازم سفر ہوتے۔ پھر سہ پہر سے رات تک کا وقت ہمارا ’امّاں کے گھر‘ کا ہوتا۔ دو، ڈھائی عشرے پہلے موجود وہ زمانہ آج صدیوں جیسی مسافت کے پار دکھائی دیتا ہے۔
دراصل یہیں تو ہمارا وہ بے فکراپن اور نادانیاں ہمیشہ کے لیے گم ہوئیں۔ امّاں کے اس چھوٹے سے گھر میں کس قدر وسعت تھی کہ بیک وقت بھرے پُرے کنبے کے بہت سارے افراد، اولاد در اولاد اس میں سمائے جاتے تھے۔ گھر کے باہر ایک پٹ کے دروازے کے اوپر ایک دیدہ زیب ’گلوب‘ روشن ہوتا، دروازے کے پار ہی مٹکوں کا گھڑا تھا، جب مٹکے دھل رہے ہوتے، تو ہم مٹکے کے گھڑے میں جمع ہوئے پانی سے ایک دوسرے پر چھینٹے اڑایا کرتے۔ اسی کے نیچے ایک الماری میں پرانا کباڑ پڑا رہتا، جس میں سے موقع تاک کر ہم اپنے کھیلنے کو کو کچھ نہ کچھ اُچکتے رہتے، اس کے دائیں سمت باورچی خانے کے مقابل ایک ’ہودی‘ تھی، ہم نے صرف اپنی نانی کے ہاں ہی ’ہودی‘ دیکھی، اسے آپ پرانے وقتوں کا ’بیسن‘ کہہ لیں کہ پانی کے ایک نل کے گرد ایک احاطہ سا بنا ہوا ہوتا، تاکہ ہاتھ منہ دھونے والے کے کپڑے چھینٹوں سے محفوظ رہ سکیں۔
گھر مرکزی دروازے سے بائیں سمت ایک چھوٹی سی انگنائی اور اس کے مقابل سائے میں ایک بیٹھک نما کمرہ تھا، اندر ایک اور چھوٹا سا کمرہ تھا، لیکن ہم زیادہ تر اسی ’بیٹھک‘ میں ہوتے اور یہیں سوتے جاگتے، ہنستے روتے اور کھاتے پیتے۔ اس ’بیٹھک‘ میں ہماری نانی کا تخت بھی لگا ہوا تھا، ان کی جھُریوں میں قید بڑی بڑی آنکھیں گویا باتیں کیا کرتی تھیں۔ ہوش سنبھالتے ہی ہم نے انہیں جوڑوں کے درد اور ضعیفی کے سبب چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتے ہوئے ہی پایا، تب ہی وہ ہمارے گھر آنے کی خواہش کم ہی پوری کرپاتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہم چلنے پھرنے والی نانیوں کے نواسوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے۔ اس زمانے کے سارے بزرگوں کی طرح اماں کے تخت پر توجہ کا مرکز ان کی پان کی پٹاری تھی، جس کا پان ہر آنے والے کے لیے ایک لازمی جزو تھا، ہم بھی اُن کے ہاتھوں کا پان کھائے بنا کبھی نہ لوٹے تھے، ہماری تو ضد ہوتی تھی کہ ہمیں پان کی چھوٹی کترن کے بجائے ذرا بڑا سا پان بنا کردیا جائے۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب تہوار، تہواروں کی طرح ہوا کرتے تھے، ہر ہفتے کسی مخصوص دن نانی کے ہاں جانا بھی کسی تہوار کی طرح ہوا کرتا تھا، بیش تر گھروں میں یہ دن ’ہفتہ‘ ہوتا، جب جمعے کی چھٹی ہوتی تب بھی، اور جب اتوار کی تعطیل ہوئی، تب بھی زیادہ تر یہی دن مقرر رہا۔ البتہ پہلے ہفتے کے پہلے دن کی فکر مندی، اب ہفتے کے آخری دن کے اطمینان میں ضرور بدل گئی۔ یوں تو یہ بیاہی بیٹیوں کا اپنی ماں سے ملنے کا پروگرام ہوتا، لیکن نواسے نواسیوں کے لیے بھی اسے فراموش کرنا آسان نہیں رہا، یوں بھی کم سنی میں گھومنا پھرنا بہت مرغوب ہوتا ہے، اور جب سفر امی کی بھی امی کے ہاں کا ہو تو اس ممتا کے دو آتشہ ہونے کا لطف ہم سے پوچھیے۔ ایک عجب ہی تعلق ہوتا ہے، جس میں ہمارا اپنی نانی پر مان بھی ہوتا ہے اور وہ بھی ہم پر واری واری جاتی ہیں۔ بیٹیوں سے ہفتے بھر کے حال احوال سننے اور سنانے کے ساتھ ساتھ نواسے نواسیوں کی خاطر مدارت بھی جاری رہتی، نصیحت بھی ہوتی اور شفقت میں گُندھی ہوئی سرزنش بھی۔
ہر شام جب انگنائی کی کرخت دھوپ واپسی کی راہ دیکھتی اور ساحلی ہوائیں در ودیوار کی تمازت ختم کر ڈالتیں، ہم اس انگنائی میں ڈیرے ڈال لیتے، ہمیں نہیں معلوم کہ انسانی یادداشت کی جاگ کتنی عمر سے ہوتی ہے، لیکن ہمیں تو یہاں دودھ کی شیشی ہاتھ میں لیے آسمان تلے دراز ہونا خوب یاد ہے۔ جب نیلگوں گگن پر روئی کے گالوں کی طرح تیز تیز اڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھتے، تو یوں معلوم ہوتا جیسے ہمارا گھر محو سفر ہو۔
ہمیں تو اس شیشی کے پیندے میں ٹھیری ہوئی شکر کی مٹھاس بھی آج تک نہیں بھولتی۔ اس انگنائی میں رکھی ہوئی لکڑی کی جس چوکی کو ہم تخت کرتے، اس کے نیچے پانی کی موٹر نصب تھی جس کی مخصوص آواز بھی ہمیں اُس وقت سماں باندھ دیتی ہوئی محسوس ہوتی، اور تو اور ہمیں تو اسی کے بالکل اوپر لگی ہوئی ٹیوب لائٹ سے آنے والی ایک مخصوص ’ٹیں‘ بھی نہیں فراموش ہوتی۔
باہر نکلیے تو بڑے دروازے کے احاطے میں صاف ستھری گلی میں چند ایک جگہوں پر اسکوٹریں ہیں اور لوہے کے دروازے کے پار سڑک کے پار ایک کریانے کی دکان تھی، جہاں کبھی کبھی ہم جا کر چیز بھی لے آتے اور مندر کے پاس ایک حلوائی تھا، جہاں کے سموسے، جلیبی اور نمک پاروں کے علاوہ رنگ برنگے ’نکتی دانے‘ ہمارے من پسند تھے۔
ہمارے ہوش کے زمانے کے بہ مشکل دو ڈھائی برس یہاں گزرے ہوں گے، پھر جوں ہی ہمارے ابّا (نانا) اس دنیا سے کوچ کرگئے، ویسے ہی نانی کو یہ گھر چھوڑنا پڑگیا۔ اُس کم سنی میں بھی ہم نے اس گھر کے ’ہجر‘ کو بہت محسوس کیا تھا اور ہماری گفتگو میں اکثر اس کا ذکر شامل رہتا۔ وقت کا پہیا یوں ہی آگے بڑھتا ہے، پھر ہم بھی کچھ بڑے ہوگئے اور پھر کچھ برسوں بعد ایک دن امّاں (نانی) نے بھی یہ دنیا چھوڑ دی، مگر ہماری زندگی کا ایک سنہری عہد ذہن کے پردے پر کسی نقش کی طرح محفوظ ہوگیا۔
تبصرے (1) بند ہیں