کراچی اور بارش: برسہا برس سے برسا برس
بحیرہ عرب کے ساحل پر آباد کراچی، تقریباً 300 سال پرانا شہر ہے۔ 3 صدیاں قبل ٹھٹہ کی دریائی بندرگاہوں اور لسبیلہ کی سمندری بندرگاہوں کے ناکارہ ہوجانے کے بعد کراچی سندھ کی واحد بین الاقوامی سمندری بندرگاہ کے طور پر ابھرا۔ پھر اس ننھے سے قصبے نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور بہت جلد خود کو دنیا کے اہم شہروں میں شامل کرلیا۔
20ویں صدی کے وسط میں جب برِصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ’پاکستان‘ کے نام سے ایک نئی اسلامی مملکت ابھری، تو یہی شہر کراچی اس نوزائیدہ ملک کا دارالحکومت بن گیا۔
ہندو مسلم دو قومی نظریے کے تحت ہونے والی اس تقسیم کے نتیجے میں بھارتی حدود میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنا پڑی جو تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت سمجھی جاتی ہے۔
اس وقت دارالحکومت چونکہ کراچی تھا اس لیے مہاجرین کی بڑی تعداد نے اپنا رخ کراچی ہی کی طرف کیا، اور پھر اس وقت کراچی نہ صرف یہ کہ ایک بین الاقوامی بندرگاہ تھا، بلکہ وفاقی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں کے سب سے زیادہ مواقع بھی اسی شہر میں تھے۔
قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی اور اس وقت یہ برِصغیر کا سب سے زیادہ صاف ستھرا شہر کہلاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب بھارت سے آنے والے مسلمان مہاجرین کی بڑی تعداد نے کراچی کو اپنے رہنے کے لیے منتخب کیا تو 1951ء تک صرف 3 سال کے عرصے میں اس شہر کی آبادی 11 لاکھ تک پہنچ گئی۔
اپنی غریب پرور صفات اور روزگار کی بہتات کے باعث یہ شہر نہ صرف مہاجرین، بلکہ ملک بھر کے دیگر لوگوں کو بھی اپنی جانب کھینچتا رہا اور آج ’منی پاکستان‘ کہلائے جانے والے اس شہر کی آبادی 2 کروڑ سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔
میری پیدائش سندھ کے شہر خیرپور کی ہے۔ 1972ء میں جب ہمارا خاندان خیرپور سے کراچی منتقل ہوا تو میری عمر صرف 6 سال تھی۔ کراچی میں لالو کھیت اور بڑا بورڈ کے علاقوں میں چند ماہ گزار کر ہم پہلے ہی سال شہر کی مضافاتی آبادی قائد آباد آگئے اور پھر ہمارے اگلے کئی سال یہیں گزرے۔ جہاں کراچی کے اس دور کی عیدیں، تفریحات اور رسوم و رواج میرے لیے یادگار ہیں، وہیں اس دور کی بارشیں بھی بڑی سہانی ہوا کرتی تھیں۔
اس زمانے میں اکثر گھر کھلے صحن والے اور ایک منزلہ ہوا کرتے تھے۔ کمروں کی چھتیں بھی کنکریٹ کی بجائے نالی دار جستی چادروں کی ہوتی تھیں اور ان کی ڈھال صحن کی جانب رکھی جاتی تھی تاکہ بارش کا پانی چھت پر رُکے بغیر سیدھا صحن کی طرف آکر بہہ جائے۔
ان جستی چادروں کی چھتوں کی وجہ سے اس بات کا تو امکان ہی نہیں تھا کہ بارش کا پہلا قطرہ مکان کی چھت پر گرے اور مکینوں کو پتہ نہ چلے۔ بادلوں سے زمین کی طرف لپکنے والے ابتدائی قطروں سے ہی جستی چادروں کی چھتوں پر جلترنگ بجنا شروع ہوجاتے اور لوگ خوشی سے جھومتے ہوئے کمروں سے نکل کر کھلی جگہوں کی طرف لپکتے۔ بچے زور زور سے تالیاں بجاتے شور مچاتے دروازوں سے باہر نکل کر گلیوں اور میدانوں کی طرف دوڑ لگا دیتے۔
’اللہ میاں پانی دے، سو برس کی نانی دے‘
’آرَم پارَم چھما چھم، گیٹ سے نکلے جیسے ہم‘
بارشیں برستیں اور خوب برستیں۔ کئی کئی دن تک جھڑی لگی رہتی اور جل تھل ایک ہوجاتا۔
نہ جانے مجھے کیوں یہ لگتا ہے کہ اس زمانے کے گلی کوچوں میں کچرا آج کے مقابلے میں بہت کم پایا جاتا تھا۔ پولی تھین کے شاپنگ بیگ تو خیر اس وقت ہوتے ہی نہیں تھے۔ چپس، چھالیہ، شیمپو، مصالحے وغيره کے ’ساشے‘ کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔
گھر کا سودا سلف لانے کے لیے تنکوں کی ٹوکری یا کینوس کا تھیلا ہوتا تھا۔ دودھ کا ڈول، گھی کا مرتبان، دہی کا پیالہ، تیل کی بوتل، آٹے کا ڈبا، چینی کی برنی اور اس طرح کی کئی چیزیں ہم گھر سے ساتھ لے کر جاتے اور دکاندار سے سودا ڈلوا کر لاتے تھے۔
دیگر سودا بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کی بجائے خاکی کاغذ کے لفافوں میں ملتا تھا۔ پیکنگ میٹیریل اور پروڈکٹ پریزنٹیشن کا کوئی وبال نہیں تھا۔ اس لیے معاشرے میں کچرا بہت کم ہوتا تھا۔ جا بجا کچرے کے ڈھیر نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے جب بارش ہوتی تو ڈھلوانوں میدانوں میں بارش کا جو پانی جمع ہوجاتا وہ صاف ستھرا اور کچرے سے پاک ہوتا تھا، بلکہ لوگ ان برساتی تالابوں میں بلا تردد نہا بھی لیا کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ قائدآباد پر ہمارے گھر کے برابر میں ایک کنکریٹ کا پکا نالا تھا جو ریڈیو پاکستان کالونی کے برساتی پانی کی ملیر ندی تک نکاسی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ برسات کے دوران یہ نالا پہاڑی نالوں کی طرح گرجتا برستا شور مچاتا بہتا تھا اور محلے کے بچے اس کے اندر خوب اودھم مچایا کرتے تھے۔
برسات کے ختم ہونے پر کہیں کوئی تعفن نہیں اٹھتا تھا۔ کچرا کنڈیوں کی سڑاند کا کوئی تصور نہیں تھا۔ گٹر اور برساتی پانی کے ملغوبے کا کئی کئی دن تک بدبو پھلانے جیسا کوئی عذاب نہیں ہوتا تھا۔ برسات کے بعد بچے کھیل کود اور سیر و تفریح کے لیے دُور دُور جاتے۔ بارش کے بعد ہلکی سی دھوپ نکلتے ہی ہم میدانوں میں بیربہوٹیاں پکڑنے نکل جاتے۔ زمین پر نگاہیں جمائے بچے بار بار صدا بلند کرتے:
’بلبوٹی بلبوٹی پنجے کھول تیرا ماموں آیا‘
سرخ رنگ کی مخملی بیر بہوٹی یہ سنتے ہی شرما کر اپنے کھلے پنجے بھی بند کرلیتی۔ تھوڑی ہی تگ و دو کے بعد ہر بچہ اپنے پاس موجود ماچس کی ڈبیوں میں کئی بیر بہوٹیاں پکڑ کر اپنے گھر لے آتا تھا اور سب کو فخر سے اپنا یہ مخملیں شکار دکھاتا۔
گیلی اور نرم ریتیلی زمین پر بچے ایک اور مزے کا کھیل بھی کھیلتے تھے۔ اس میں ایک بچہ ہاتھ میں چھری یا پیچ کس پکڑ کر ایک ایک قدم کے فاصلے پر اسے اچھالتے ہوئے بار بار زمین میں گھونپتا جاتا اور آگے بڑھتا جاتا، حتیٰ کہ چھری گر جاتی اور دوسرے بچے کی باری آجاتی۔
قائد آباد اور ملیر دونوں علاقے ملیر ندی کے اطراف میں آباد ہیں۔ ملیر ندی ہر سال برساتی پانی کے ریلوں سے بھر جاتی اور یہ بپھرا دریا کئی کئی روز بہتا رہتا تھا۔ لوگ دُور دُور سے قافلے بنا کر ملیر ندی کے کناروں پر پہنچتے اور ملیر ندی میں بہتے پُرزور و پُرشور پانی کا ہیبت ناک نظارہ کرتے۔
کچھ من چلے اپنی تیراکی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس خطرناک پانی میں بھی چھلانگ لگا دیتے اور اپنی تیراکی کے جوہر دکھانے کی کوشش کرتے۔ اس خطرناک حرکت کے نتیجے میں کچھ تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔
آج ہم کراچی کی ان موسلادھار، شاندار اور یادگار بارشوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ بارشیں آج کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ ہفتے بھر کی جھڑی لگنا کوئی انوکھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ خاص طور پر جمعے کے دن بارش شروع ہونے کا مطلب ہی یہی لیا جاتا تھا کہ اب یہ بارش لازماً اگلے جمعے تک چلے گی۔
کراچی میں ملیر ندی کے علاوہ کئی اور بھی ندی نالے ہوا کرتے تھے جو بڑی سے بڑی برسات کے پانی کو آناً فاناً سمندر تک پہنچا دیتے تھے۔ لیاری ندی، تھدو ندی، جھڈو نالا، گجر نالا اور یہ سب ندی نالے بڑے وسیع، کچرے سے پاک اور خودرو پودوں یا عارضی باغبانی و کھیتی باڑی کا مرکز ہوتے تھے۔
کراچی کے نکاسی آب کے لیے یہی ندی نالے استعمال ہوتے تھے اور اس وقت ان کی وسعت کی وجہ سے ان کے اندر بہنے والے برساتی پانی کو سمندر تک پہنچنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ ان نالوں کے اندر نہ کوئی کچرا پھینکتا تھا اور نہ ہی ان میں قبضہ کرکے مکانات بنانے کی اجازت تھی۔
بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں اور یہ آموں کا بھی موسم ہوتا تھا۔ درختوں پر جگہ جگہ کوئل کوکتی سنائی دیتی تھی۔ آم تو خیر بارش سے پہلے ہی بازار میں آجاتے تھے لیکن لوگ زیادہ رغبت سے اس وقت کھاتے تھے جب ان پر ایک برسات گزر جائے۔ اس وقت لوگوں کا خیال یہ ہوتا تھا کہ بارش کے بعد آنے والے آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بارش ہوتے ہی آموں کے ٹھیلوں پر خریداروں کی یلغار ہوجاتی تھی۔
آموں کے ساتھ کالے کالے جامن بھی کھائے جاتے تھے۔ آم کھانے کے بعد اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے دودھ کی کچی لسی ضرور پی جاتی تھی۔ ہر گھر کے صحن میں کم از کم ایک درخت ضرور ہوتا تھا جس میں بارش ہوتے ہی رسی کا جھولا بندھ جاتا۔ گھر کی بچیاں برسات کا مزا لینے کے لیے ان جھولوں پر خوب زور زور سے جھولتیں اور ساتھ ہی بارش کے گیت بھی گاتی جاتیں:
’جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو‘
’ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے‘
’اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا‘
مرد، بچے اور بچیاں تو بارش کے مزے لینے میں مگن ہوجاتے اور عورتیں چولہوں کی طرف متوجہ ہوتیں۔ اب پکوڑے تلے جا رہے ہیں، سوجی کا حلوہ پک رہا ہے، پوریاں بن رہی ہیں، کڑکڑاتے تیل سے کچوریاں اتر رہی ہیں، نرم گندھے ہوئے میدے سے میٹھا مال پُڑا تیار ہو رہا ہے، میٹھی اور بیسنی روٹیاں بن رہی ہیں اور ہر گھر سے اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں۔ بچوں کو بازار دوڑایا جا رہا ہے کہ وہ جلدی سے جاکر گرما گرم جلیبیاں اور سموسے لے کر آئیں۔
اب پوریوں کچوریوں سے نمٹ کر لوگ شام کی چائے پی رہے ہیں۔ شام ہوتے ہی اس بات کا خدشہ سر اٹھانے لگتا کہ بلب کی روشنی پر خوب پتنگے آئیں گے اور جینا حرام کریں گے۔ چنانچہ ہر بلب کے اوپر مومی لفافہ چڑھایا جاتا، تاکہ روشنی کی تیزی کم ہوجائے اور پتنگے نہ آئیں۔
برسات کئی کئی دن جاری رہتی، حتیٰ کہ بچے نہا نہا کر اور بڑے چھتریاں اٹھائے اٹھائے تھک جاتے۔ بالآخر ساون بیت جاتا اور بارشیں ختم ہوتیں۔ برسات کے چند ہی دن بعد کراچی کی سرزمین سر سبز ہوجاتی۔ کھلے میدان، سڑکوں کے کنارے، ریلوے لائنوں کے اطراف اور سارے خالی پلاٹ ہری بھری نرم گھاس سے ڈھک جاتے۔ شہر کے مضافات میں ملیر اور گڈاپ کے ویرانے اور نشیب و فراز سوات اور کاغان کی وادیوں کا منظر پیش کرنے لگتے اور اس سرسبزی و شادابی کو دیکھ کر اہلیانِ کراچی کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا۔
ملیر ندی کے اطرف اور کراچی کے مضافات میں بے شمار کنویں ہوا کرتے تھے جن کے میٹھے پانی سے کھیتی باڑی اور باغبانی ہوا کرتی تھی۔ ان کنووں میں پانی ہونے کادار و مدار انہی بارشوں پر ہوتا تھا۔ ندی نالوں میں سال میں کم از کم ایک مرتبہ برساتی پانی کا بھر کر بہنا ان کنووں میں پانی ہونے کے لیے ضروری ہوتا تھا۔ چنانچہ بارشیں بھی خوب ہوتی تھیں اور کنویں بھی سارا سال ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھرے رہتے تھے۔ کون سا پھل اور کونسی ایسی سبزی تھی جو کراچی کے باغات میں پیدا نہ ہوتی ہو۔
پھلوں میں آم، کیلا، پپیتا، امرود، شریفہ، ناریل، شہتوت، جامن، کھجور، چیکو، تربوز، خربوزہ، انگور، بادام، لسوڑا، جنگل جلیبی، املی، آملہ، بیر، انار، کٹھل، ککروندا، بیلگری، پیٹھا، لیموں اور دیگر۔
اسی طرح سبزیوں میں بھنڈی، توری، ٹماٹر، ہری مرچ، پالک، دھنیا، پودینہ، پیاز، گوبھی، کدو، شلجم، گاجر، مولی، کھیرا، ککڑی، کریلا، ٹنڈے، گوار پھلی، شملہ مرچ، بینگن، لہسن، سیم کی پھلی، سلاد کے پتے اور پھر طرح طرح کے پھول، گلاب، چنبیلی، گیندا، رات رانی، دن کا راجہ، بوگن ولیا، سدابہار، نازبو، سورج مکھی، گل داؤدی اور اس ساری باغبانی اور کھیتی باڑی کا انحصار انہی بارشوں پر ہوتا تھا۔
برسات کے دنوں میں اکثر ہم دوستوں کے ساتھ مل کر ان باغات کا رخ کرتے۔ باغات میں پھل درختوں سے توڑ کر کھاتے، باغ کے ٹیوب ویل پر ٹھنڈے اور تیز رفتار پانی سے خوب نہاتے اور گھر واپس آتے ہوئے باغ کے بلوچ رکھوالے سے گھر کے لیے بلا معاوضہ سبزی بھی لیتے۔
پھر اللہ جانے ان سب چیزوں کو، اس شہر کو، کس کی نظر لگ گئی۔ آبادی میں نہ جانے کیسے بے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا۔ افراتفری اور نفسا نفسی بڑھتی چلی گئی۔ شہر کی سیاست پر عدم برداشت اور تشدد غالب آتا چلا گیا۔
جن گلیوں پر پہلے بارش کی پھواریں برستی تھیں، ان گلیوں میں بے تحاشا خون بہنے لگا۔ شہر کی سیاسی قیادت اب زبان، رنگ و نسل اور فرقہ پرستی کے ایوانوں سے گزر کر برسرِ اقتدار آنے لگی۔
شہر کے ترقیاتی کام تشدد اور قتل و غارت میں کھو کر رہ گئے۔ سب سے اہم چیز اپنی جان کی حفاظت قرار پائی۔ گھروں کی دیواریں اونچی سے اونچی ہوتی چلی گئیں۔ آہنی گرل اور تالے کا کاروبار تیزی سے پھلنے پھولنے لگا۔ ندی نالوں پر لوگوں نے قبضے کرلیے۔ ہر جگہ اینگے بینگے ٹیڑھے میڑھے مکان تعمیر ہوتے چلے گئے۔
سڑکیں وہی کی وہی رہیں مگر ٹریفک بے تحاشا بڑھتا چلا گیا۔ لاکھوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، کاریں، بسیں اور ٹرک اپنے شور اور دھویں کے ساتھ شہر پر قابض ہوتے چلے گئے۔ خوبصورت، پائیدار اور مہنگی جاپانی موٹر سائیکلوں کی جگہ بھدی، نا پائیدار اور سستی چینی موٹر سائیکلوں نے لے لی۔ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں معمولی قسطوں پر ملنے لگیں اور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام دن دونی رات چوگنی بڑھتا رہا۔ موٹر سائیکل والے سائلنسر نکال کر ایک بلند و بیہودہ آواز کے ساتھ راہگیروں کے کان پھاڑتے ہوئے موٹر سائکل دوڑانے میں فخر محسوس کرنے لگے۔
دوسری طرف کاغذ کے لفافوں کی جگہ کالے نیلے پیلے شاپنگ بیگز نے لے لی۔ یہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ گلتی ہیں نہ مٹی میں معدوم ہوتی ہیں۔ ان تھیلیوں کے معمولی حجم مگر بے ہنگم پھیلاؤ نے پورے معاشرے کو اپنی غلیظ گرفت میں لے لیا۔
پھر رہی سہی کسر پلاسٹک کی بوتلوں نے پوری کی۔ کولڈ ڈرنک، جوس، تیل، شربت، پانی، کیمیکل غرض ہر چیز ان پلاسٹک کی بوتلوں میں آگئی۔ دنیا بھر میں پلاسٹک کے اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی کامیاب کوششیں کی گئیں مگر یہاں اربابِ اختیار تھیلیاں اور بوتلیں بنانے والوں کے شریکِ کار ہوگئے۔
سڑکیں ناپائیدار، صفائی ناقص و نایاب، آلودگی بے تحاشہ، نکاسی آب کے راستے مسدود اور سیاست تعصب اور کرپشن کا شکار۔ حالات دن بدن دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ پھر تو فطرت نے بھی اس شہر سے منہ موڑا۔ مہربان بارشوں نے اس شہر کا رخ کرنا چھوڑا اور اب جو بھی ابر و باراں اس شہر کی طرف آتے ہیں، بربادی و بے سرو سامانی ہی کا باعث بنتے ہیں۔
کراچی کی وہ مہینوں مہینوں جاری رہنے والی بوندا باندی اور بارشیں تو خواب ہوئیں۔ سال میں بس ایک یا دو دن کی موسلادھار دھار بارش ہی اس شہر کے سارے سرکاری انتظامات کی قلعی کھول دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
کراچی کے وہی باسی جو کسی دور میں بارش ہونے کے لیے دعائیں کرتے تھے، اب بارش کی پہلی بوند سے ہی گھبرا جاتے ہیں۔ والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں اور کام کرنے والے اپنے کام پر جانے سے گھبراتے ہیں۔ کہیں بارش نہ ہوجائے اور ہم واپسی میں سڑکوں پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے شام کو گھر ہی نہ پہنچ پائیں۔
ہماری طالبعلمی کا دور ختم ہوا اور پیشہ ورانی زندگی کا آغاز کیا تو مجھے یاد ہے کہ ہم برسات کے خدشے سے ڈیوٹی پر جانے سے گھبراتے تھے۔ کئی دفعہ یہی ہوا کہ ہم آفس میں بیٹھے ہیں اور باہر طوفانی بارش ہوگئی۔ آفس سے نکل کر تھوڑا ہی آگے آئے ہوں گے کہ پانی میں ڈوب کر گاڑی یا موٹر سائیکل بند ہوگئی۔
اب گاڑی والے تو گاڑی کو دھکا دے کر کہیں آگے پیچھے، فٹ پاتھ پر یا کسی پیٹرول پمپ پر کھڑی کرکے اللہ سے گاڑی کی خیریت کی دعائیں مانگتے ہوئے پیدل گھر کی طرف چل دیتے، مگر موٹر سائیکل والوں کے لیے دوہرا عذاب ہوتا۔ وہ بیچارے برساتی اور گٹر کے پانی میں خود کو بھی کھینچتے اور موٹر سائیکلوں کو بھی گھسیٹتے ہوئے کئی کئی گھنٹوں میں گھر پہنچ پاتے اور پھر اگلے کئی دن بخار میں مبتلا رہتے۔ میں خود ایک مرتبہ اسی طرح کی بارش کے بعد اپنے ویسٹ وہارف والے آفس سے ملیر میں گھر تک پورے 9 گھنٹے پیدل چل کر پہنچا۔
لہٰذا ان حالات میں کراچی والوں کے لیے بس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بارش نہ ہونے کی دعا کیا کریں۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
تبصرے (31) بند ہیں