• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

بھارت: بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار 3 کشمیری 23 سال بعد بے قصور قرار

شائع July 25, 2019
ملزمان کو کبھی بھی پیرول یا ضمانت  پر رہا نہیں کیا گیا تھا — فوٹو بشکریہ انڈین ایکسپریس
ملزمان کو کبھی بھی پیرول یا ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا تھا — فوٹو بشکریہ انڈین ایکسپریس

بھارت کی ریاست راجستھان کی ہائی کورٹ نے سملیتی بم دھماکے کے الزام میں گرفتار 3 کشمیریوں سمیت 6 افراد کو 23 برس بعد ناکافی شواہد کی بنا پر بے قصور قرار دے دیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی کو لطیف احمد باجا، علی بھٹ، مرزا نثار، عبدالغنی اور رئیس بیگ شام 5 بجے کر 19 منٹ پر جیل سے رہا کردیا گیا۔

رئیس بیگ کو 8 جون 1997 کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ دیگر افراد کو 17 جون 1996 سے 27 جولائی 1996 کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔

اس عرصے میں مذکورہ افراد دہلی اور احمد آباد کی جیلوں میں قید تھے لیکن انہیں کبھی بھی پیرول یا ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا تھا۔

22 جولائی کو ملزمان کی رہائی سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ پروسیکیوشن بم دھماکے میں ملزمان کی منصوبہ بندی سے متعلق شواہد پیش کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارتی فورسز کی فائرنگ سے مزید 3 کشمیری حریت پسند شہید

عدالت نے کہا کہ پروسیکیوشن مذکورہ ملزمان اور مرکزی ملزم ڈاکٹر عبدالحمید کے درمیان کسی تعلق سے متعلق شواہد سامنے نہیں لاسکے۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالحمید کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا ہے۔

دو روز قبل رہا ہونے کے بعد پانچوں ملزمان نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے کو اس وقت تک نہیں جانتے تھے جب کرمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (کرائم برانچ) نے انہیں ایک ہی کیس میں قصوروار ٹھہرایا تھا۔

رئیس بیگ آگرہ کے رہائشی ہیں، عبدالغنی مقبوضہ کشمیر کے ضلع ڈوڈا اور دیگر 3 افراد کا تعلق سری نگر سے ہے۔

جیل جانے سے قبل علی بھٹ کا قالینوں کا کاروبار تھا، لطیف احمد باجا دہلی اور کھٹمنڈو میں کشمیری دستکاری کے کاروبار سے وابستہ تھے، مرزا نثار نویں جماعت کے طالبعلم تھے اور عبدالغنی اسکول جاتا تھا۔

عبدالغنی نے کہا کہ ’جس دنیا میں ہم جارہے ہیں ہمارے ذہن میں اس کا کوئی تصور نہیں‘۔

رئیس بیگ نے کہا کہ ’جب ہم جیل میں تھے تو ہم اپنے رشتے دار کھو چکے، میری والدہ، والد اور 2 چچا انتقال کرچکے، ہم رہا ہوچکے لیکن ہمارے وہ سال کون واپس لوٹائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کاریاستی جبر جاری، مزید 8 کشمیری جوان جاں بحق

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کی بہن کی شادی ہوچکی تھی اور اب ان کی بھانجی کی بھی جلد شادی ہونے والی ہے‘۔

رئیس بیگ کے بھائی سلیم نے کہا کہ ’ان تمام سالوں میں ہم نے امید نہیں چھوڑی‘۔

مرزا نثار نے کہا کہ ’گذشتہ شب ہم نہ کھا سکے تھے اور نہ سو سکے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب ہمیشہ جاری رہے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت ان کی عمر محض 16 برس تھی جبکہ حکام نے اس وقت مرزا نثار کی عمر 19 برس ظاہر کی تھی۔

مرزا نثار نے کہا کہ وہ شادی کرنا چاہیں گے اور اپنی زندگی کا نیا آغاز کرنے کی کوشش کریں گے۔

لطیف احمد باجا نے کہا کہ ان کی بھی شادی نہیں ہوئی لیکن انہوں نے اپنے بالوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ کیا انہیں کوئی دلہن ملے گی؟

رہا ہونے والے 5 افراد میں سے 4 نے جماعت اسلامی ہند کے دفتر کا رخ کیا جسے وہ اپنی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔

لطیف احمد باجا نے جیل میں گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ مرزا نثار روزانہ ورزش کرتے تھے۔

عبدالغنی کی 62 سالہ بہن ثریا نے مقبوضہ کشمیر سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی جوانی گزر گئی، ہمارے والدین گزر گئے، میری آنسو خشک ہوگئے اور میں روتے روتے بوڑھی ہوگئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ روز سے میرا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا ہے، مجھ چند دن دیں، پہلے اسے گھر آنے دیں، میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گی‘۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج نے مزید 4 کشمیریوں کو قتل کردیا

بھارتی ریاست کے ضلع دوسہ کے گاؤں سملیتی کے قریب جے پور-آگرہ ہائی وے پر آگرہ سے بیکانار جانے والی بس میں 22 مئی 1996 کو ہونے والے بم دھماکے کے نتییجے میں 14 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوئے تھے۔

مذکورہ دھماکا دہلی کے علاقے لاجپت نگر میں ہونے والے بم دھماکے کے اگلے روز ہوا تھا جس کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ ملزمان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نامی تنظیم سے وابستہ تھے اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان میں سے کچھ ملزمان 1996 میں جے پور میں واقع سوائی مان سنگھ اسٹیڈیم میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی ملوث تھے۔

رہا ہونے افراد کے وکیل شاہد حسن نے کہا کہ ’انہیں کسی وجہ کے بغیر مختلف مقدمات میں نامزد کیا گیا تھا، انہیں 23 سال بعد تمام مقدمات سے بری کردیا گیا ہے‘۔

انہوں نے فیصلے میں تاخیر سے متعلق کہا کہ ٹرائل 2011 میں شروع ہوا تھا۔

سملیتی کیس میں 12 افراد کو ملزم نامزد کیا گیا تھا جن میں سے اب تک 7 کو رہا کیا جاچکا ہے جن میں ایک 2014 میں رہا ہوا اور دیگر 6 افراد 2 روز قبل رہا ہوئے۔

تاہم جاوید خان نامی شخص تہار جیل میں قید ہے اور اب تک لاجپت نگر بم دھماکا کیس میں ملزم برقرار ہے، دیگر 2 ملزمان کو الزامات سے بری کردیا گیا تھا جبکہ ایک شخص وفات پاچکا تھا۔

جسٹس سبینہ اور جسٹس گوردھن بردار پر مشتمل بینچ نے ڈاکٹر عبدالحمید کی سزائے موت اور پپو سلیم کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024