انڈس ڈیلٹا کے بچوں کی بات سنو!
ماؤ ژی تنگ اور ریڈ آرمی کی تخلیق کردہ ’لانگ مارچ‘ کی اصطلاح پاکستان کی سیاسی لغت میں ایک خاص مقام حاصل کرچکی ہے۔ تاہم پاکستان کے لانگ مارچوں میں شاذ و نادر ہی مارچ یا پیدل سفر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، کیونکہ مارچ کے زیادہ تر شرکا کار، ٹرین اور کبھی کبھار تو جہازوں پر سوار ہوکر جلسہ گاہ تک پہنچتے ہیں اور اپنی سیاسی مانگیں سامنے رکھتے ہیں۔
اس قسم کے ہر مارچ کو 24 گھنٹے میڈیا کوریج فراہم کی جاتی ہے اور تجزیات پیش کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات پر مارچ کے شرکا کے مطالبات چھائے ہوتے ہیں اور اخبارات کی شہہ سرخیوں پر بھی ان کی مانگیں غالب ہوتی ہیں۔ اس طرح کے مارچوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر اس قدر جائزے اور تجزیے پیش کیے جاتے ہیں کہ اکتاہٹ سی ہونے لگتی ہے۔
تاہم چند ہفتے قبل ایک حقیقی لانگ مارچ ہوا جس میں انڈس ڈیلٹا پر واقع کھارو چھان سے مایوسیوں اور غربت کے ستائے درجنوں کاشتکاروں پر مشتمل ایک گروہ ٹھٹہ شہر تک پیدل سفر کرکے پہنچا۔
جھلسا دینے والی گرمی میں ان لوگوں نے 150 کلومیٹر پیدل سفر کیا۔ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتے پہنچتے مارچ کے شرکا کی تعداد 2 ہزار تک بڑھ چکی تھی۔ اسپوٹ لائٹ سے دُور میڈیا کی بہت ہی محدود توجہ کے ساتھ وہ لوگ اپنے درد اور مشکل حالات کی طرف توجہ دلوانے کے لیے پیدل چلے اور تکالیف برداشت کیں۔
یہ لوگ مرتے ہوئے انڈس ڈیلٹا کے بچے ہیں جو ہماری توجہ سیاسی محاذ آرائیوں سے ہٹا کر ان کے علاقوں میں ایک دہائی سے شدید سے شدید تر ہونے والی آفت کی طرف مبذول کروانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک ایسی آفت جس نے ان لوگوں سے خوشحال زندگی چھین کر ظلم و ستم اور غربت و افلاس کا شکار بنا دیا ہے۔
ہمالیہ سے لے کر ڈیلٹا تک 3 ہزار کلومیٹر پر مشتمل دریائے سندھ تاریخی اعتبار سے تہذیب کی جائے پیدائش ہونے کے ساتھ بے شمار افراد کی زندگی اور رزق کا سامان بنتا چلا آیا ہے۔ تاہم اب کسی حد تک ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اور بڑی حد تک بُری اور تنگ نظر پالیسیوں کے سبب اس دریا کے کئی حصے خشک ہوچکے ہیں، جس کے تباہ کن نتائج کا سامنا ڈیلٹا اور اس سے متصل علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو کرنا پڑا ہے۔
انڈس ڈیلٹا پاکستان کی ساحلی پٹی کے ساتھ تقریباً 150 کلومیٹر پر پھیلا ہے جو کسی وقت میں کراچی سے رَن کچھ تک 6 لاکھ ہیکٹرز (15 لاکھ ایکڑوں) رقبے پر محیط تھا۔ وہاں کئی جنگلات تھے، کھاڑیاں تھیں اور مڈ فلیٹس یا زرخیز نرم زمین کے حصے تھے، اب تو کئی جنگلات، کھاڑیاں اور مڈفلیٹس کا تو وجود ہی باقی نہیں رہا، البتہ یادوں میں ڈھونڈیے تو شاید مل جائیں۔
کسی دور میں پاکستان کے 97 فیصد تمر کے جنگلات اسی علاقے میں پائے جاتے تھے۔ یہ جنگلات مچھلیوں، جھینگوں اور کیکڑوں کے لیے ایک اہم مسکن اور آماجگاہ تصور کیے جاتے ہیں جبکہ یہ سائیکلون اور سونامی جیسے طوفانوں سے بھی قدرتی طور پر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گزرتے برسوں کے ساتھ دریا کے سکڑتے بہاؤ کے ساتھ ساتھ یہ اہم ترین قدرتی وسیلہ بھی محدود ہوتا چلا گیا ہے۔ 1966ء اور 2003ء کے درمیان مختصر سے وقفے میں ہم نے 86 فیصد تمر کے جنگلات کا رقبہ کھو دیا تھا۔
ملک کے بالائی علاقوں میں جائیں تو اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ صوبہءِ سندھ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں چھوڑ کر ’ضائع‘ کردیتا ہے۔ یہ وہ تصور ہے جسے لاعلمی اور کسی حد تک تنگ نظری نے جنم دیا ہے۔ ایسا کہنے والے خود فریبی کے شکار افراد اپنی لاعلمی کی دنیا میں مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔ کاش کہ اس لاعلمی کے اس قدر بھیانک نتائج نہ برآمد ہوتے۔ دراصل جب تازہ پانی سمندر میں نہیں بہتا تب سمندر زمین کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور یوں یہ زمین کو آہستہ آہستہ کھا رہا ہوتا ہے۔
کافی عرصہ پہلے 2001ء میں حکومتِ سندھ کا کہنا تھا کہ بدین اور ٹھٹہ کی 12 لاکھ ایکڑوں سے زائد زمین سمندر کھا چکا ہے اور اب آپ بخوبی تصور کرسکتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کیسی ہوگی۔
اگر آپ کو تصور کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے تو مارچ کے شرکا سے فقط یہ پوچھ لیجیے کہ وہ کس کرب سے گزرے ہیں۔ کیونکہ سمندر سفاکی اور بے رحمی سے اپنا کام کرتا ہے، ہم اس کی کھائی ہوئی زمین کا تو اندازہ لگاسکتے ہیں لیکن زیریں سطحی حصے (sub-surface) میں رستے اس کے پانی کا تخمینہ لگانا کافی مشکل کام ہے، کیونکہ اس طرح نمکین پانی زیرِ زمین آبی ذخائر میں شامل ہوتا جاتا ہے، جس کے باعث زراعت ناممکن ہوجاتی ہے اور ذرخیز زمینیں بنجر بن جاتی ہیں، یہاں تک کہ پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے باعث لوگ اپنے پورے کے پورے دیہات چھوڑ کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔
کیٹی بندر اور شاہ بندر کی ہی مثال لیجیے جو کسی وقت خوشحال لوگوں کے علاقے ہوا کرتے تھے، جن کا گزر سفر یہاں کی بندرگاہ اور تجارتی سرگرمیوں پر تھا۔ مگر اب تو یہ بقول معروف آرکیٹیکٹ اور کارکن عارف حسن کے یہ ’گھوسٹ ٹاؤنز‘ بن چکے ہیں۔
کسے الزام دیں؟ بلاشبہ دریائے سندھ کے پانی کی مختلف نہروں میں تقسیم نے زمین کے بڑے بڑے حصوں کی آبپاشی میں مدد کی لیکن آگے چل کر ڈیلٹا کو اس کی کیا قیمت چکانی تھی اس حوالے سے زیادہ سوچ و بچار ہی نہیں کیا گیا۔
بلاشبہ، موجودہ حالات ڈیموں کا تقاضا کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت پسندی نظر کیوں نہیں آتی کہ ہمارے پانی کے سنگین مسائل میں ایک بنیادی کردار انتظامیہ اور سپلائی کا بھی ہے؟
1991ء کے پانی کے معاہدے کے مطابق نازک حالات سے دوچار ڈیلٹا کو زندہ رکھنے کے لیے کوٹری بیراج سے نیچے کم از کم 10 ایم اے ایف پانی چھوڑنا لازمی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا بہت ہی کم ہوا۔
اب حالات بدتر سے بدترین ہونے کو ہیں۔ چونکہ ماحولیاتی بحران کے اثرات واضح نظر آنے لگے ہیں اور برف کی تہیں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھلتی جا رہی ہیں، ایسے میں پوری دنیا میں سطح سمندر میں اضافہ ہوگا اور یوں یہ بحران عالمی سطح تک پھیلتا نظر آئے گا۔
یہاں پاکستان میں انسانی و اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی داخلی نقل مکانی کے سلسلے بھی شروع ہوجائیں گے اور یوں ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف ٹھٹہ میں مارچ کے شرکا ہمیں آنے والے کل کی خطرناک صورتحال سے خبردار کر رہے جبکہ ہم میں سے کوئی بھی ان کی طرف کان دھرنے کو تیار نہیں۔
یہ مضمون 22 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (10) بند ہیں