زیرِ قبضہ برطانوی جہاز کی تحقیقات کا انحصار عملے کے تعاون پر ہے، ایران
ایران کا کہنا ہے کہ زیرِ قبضہ برطانوی جہاز کی تحقیقات کی رفتار کا انحصار اس کے عملے کے تعاون پر مبنی ہے۔
خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق برطانوی بحری جہاز اسٹینا امپیرو کو 19 جولائی کو عملے کے 23 افراد کے ساتھ پاسداران انقلاب نے قبضے میں لیا تھا۔
پاسداران انقلاب نے گزشتہ روز ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں اسٹینا امپیرو کو اسپیڈ بوٹس نے گھیرا ہوا تھا جس کے بعد ہیلی کاپٹر سے رسی کے ذریعے فوجیوں کو جہاز میں اترتے ہوئے دیکھا گیا۔
جہاز کا عملہ کیپٹن سمیت 18 بھارتی، 3 روسی ایک فلپائنی اور ایک لٹوین شہری پر مشتمل ہے۔
مزید پڑھیں: برطانوی تیل بردار جہاز کو آبنائے ہرمز سے قبضے میں لیا گیا، ایران
ایرانی صوبے ہرمزگان کی بندرگاہ اور میری ٹائم اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل اللہ مراد عفیفی پور نے کہا کہ ’ تمام افراد بالکل ٹھیک ہیں اور کشتی پر موجود ہیں اور کشتی کو محفوظ مقام پر کھڑا کیا گیا ہے ‘۔
انہوں نے پریس ٹی وی کو بتایا کہ ’ ہم ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں بحری جہاز سے متعلق تحقیقات بھی کرنی ہیں ‘۔
ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ’ تحقیقات کا انحصار کشتی پر موجود عملے کے تعاون اور معاملے کو دیکھنے کے لیے شواہد تک ہماری رسائی پر ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم جلد از جلد تمام معلومات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے‘۔
قبل ازیں ہرمزگان میں پورٹس اور میری ٹائم آرگنائزیشن آف ایران کے سربراہ نے ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ قبضے میں لیے گئے جہاز کا عملہ محفوظ ہے۔
اللہ مراد عفیفی پور نے کہا کہ ’ بندر عباس پورٹ پر جہاز میں سوار عملے کے تمام 23 افراد محفوظ ہیں اور ان کی صحت بھی اچھی ہے‘۔
بحری جہاز کے سویڈن میں مقیم مالکان اسٹینا بلک نے کہا گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ بھارت، روس، لٹویا اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے عملے سے ملاقات کے باضابطہ درخواست کررہے ہیں۔
اسٹینا بلک نے ایک بیان میں کہا کہ ایران نے عملے سے ملاقات کے لیے باقاعدہ درخواست کا کہا تھا۔
ایرانی پاسداران انقلاب نے برطانوی تیل بردار جہاز کو مبینہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر قبضے میں لیاتھا۔
برطانیہ کا رد عمل کے لیے غور
دوسری جانب برطانیہ کے جونیئر وزئر دفاع ٹوبیاس ایل ووڈ نے بتایا کہ برطانیہ ایران کو ردعمل دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کررہا ہے۔
انہوں نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ ’ ہماری پہلی اور اہم ترین ذمہ داری اس بحری جہاز کے مسئلے کا حل یقینی بنانا، اس سمندر میں دیگر برطانوی جہازوں کی موجودگی کو محفوظ بنانا ہے اور پھر ہم اس سے آگے غور کریں گے‘۔
ایران پر پابندیوں کے امکانات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’ ہم مختلف آپشنز پر غور کررہے ہیں، ہم اپنے ساتھیوں، بین الاقوامی اتحادیوں سے بات کریں گے کہ حقیقت میں کیا ہونا چاہیے‘۔
یہ بھی پڑھیں: تیل بردار جہاز پر قبضہ: برطانیہ کی ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی
گزشتہ روز ڈیلی ٹیلی گراف نے رپورٹ کیا تھا کہ برطانوی ٹینکر قبضے میں لینے کے بعد برطانیہ، ایران پر پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ نے 4 جولائی کو عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ زدہ شام میں تیل فراہم کرنے کے الزام میں ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضے میں لیا تھا۔
جبل الطارق کی عدالت عظمیٰ نے زیر تحویل دو ایرانی تیل بردار جہاز کی حوالگی کے معاملے میں مزید 30 دن کی توسیع دے دی تھی۔
گزشتہ ہفتے برطانیہ نے ایران پر اس کا تیل بردار جہاز روکنے کا الزام عائد کیا تھا لیکن ایرانی پاسداران انقلاب نے اس الزام کو مسترد کردیا تھا۔
برطانوی بحریہ نے کہا تھا کہ 3 ایرانی پیراملٹری کشتیوں نے آبنائے ہرمز میں برطانیہ کے تیل بردار جہاز کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور اس کی ویڈیو بھی موجود ہے۔