ورلڈکپ 2019ء اپنے اختتام کو پہنچ گیا، اور اس ایونٹ کا اختتام جس تاریخی میچ پر ہوا ہے، اس نے پورے ایونٹ کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا ہے۔
ہر بڑے ٹورنامنٹ کی طرح اس مرتبہ بھی کچھ کھلاڑیوں نے غیر معمولی کارکردگیاں پیش کیں، جن میں سرِ فہرست روہت شرما، کین ولیمسن، جو روٹ، مچل اسٹارک اور شکیب الحسن ہیں۔ یہ سب کہنہ مشق کھلاڑی ہیں، آزمائے ہوئے اور تول میں پورے۔ ان سب کا ایک نام ہے اور کھیل کی رونق بڑھانے میں ان کے کردار سے ہم سب ہی واقف ہیں۔
پھر کچھ بڑے اور پرانے نام ہیں، جو اس ایونٹ کے بعد کھیل سے رخصت ہوگئے، اور جو شاید اب ہمیں کبھی کھیل کے میدان میں پرفارم کرتے نظر نہ آئیں۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جنہیں ورلڈ کپ سے پہلے کم ہی لوگ جانتے تھے۔ لیکن جب انہیں یہ بتانے کا موقع ملا کہ وہ کون ہیں، تو انہوں نے ذرا بھی جھجھک نہیں دکھائی، اور پوری دنیا کو بتادیا کہ کرکٹ کے اصل مستقبل تو اب وہی ہیں۔
انضمام الحق کھیل کے مستند بلے بازوں میں سے ایک ہیں، مگر وہ کبھی بھی بڑا نام نہیں بن سکتے تھے، اگر وہ 92ء کے سیمی فائنل میں وہ یادگار اننگ نہیں کھیلتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کھلاڑی بھی خود کو ملنے والے موقعے سے فائدہ اٹھا لے تو اصل سکندر وہی ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: کرکٹ ٹیمیں اور مساوی مذہبی و لسانی نمائندگی کا مسئلہ
اور ایسے ہی کچھ سکندر ورلڈ کپ 2019ء کے بعد دنیا کے سامنے ابھر کر آئے ہیں جنہیں بلاشبہ لمبی ریس کا گھوڑا بھی کہا جاسکتا ہے۔
تو آئیے ہم چند منتخب ناموں کا جائزہ لیتے ہیں۔
شاہین آفریدی
یہ 2004ء کی بات ہے جب شاہین آفریدی صرف 4 سال کے تھے، اور ان کے بڑے بھائی ریاض آفریدی کا ٹیسٹ ڈیبیو ہوا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ریاض آفریدی بس وہی ایک واحد ٹیسٹ میچ کھیل سکے، کیونکہ اس کے بعد وہ انجریز کا شکار ہوگئے اور دوبارہ ان کو موقع نہیں مل سکا۔
لیکن انہوں نے ہمت ہارنے کے بجائے اپنے بھائی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ شاہین کو ٹیپ بال سے ہارڈ بال کی طرف لانے والے وہی ہیں۔ ویسے تو شاہین نے اپنا پہلا تعارف فرسٹ کلاس ڈیبیو پر اس وقت کروا دیا تھا جب انہوں نے میچ کی دوسری اننگ میں محض 39 رنز کے عوض 8 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا تھا۔
لیکن ان کو اصل شہرت پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی وجہ سے ملی۔ پھر اسی پی ایس ایل نے ان کے لیے ٹیم کے دروازے کھولے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں 3 میچ کی سیریز ان کی انٹرنیشنل لیول پر پہلی قابلِ ذکر کارکردگی تھی۔ یہیں سے وہ پاکستان کے مضبوط باؤلنگ اٹیک میں ایک سنجیدہ امیدوار کے طور پر تسلیم کیے گئے۔
اگرچہ ورلڈکپ سے پہلے انگلینڈ کے خلاف سیریز ان کے لیے خاصی مایوس کن تھی تاہم منیجمنٹ نے ان پر اعتماد برقرار رکھا اور انہوں نے اس اعتماد کا حق نیوزی لینڈ کے خلاف ادا بھی کردیا جب ڈاؤن اینڈ آؤٹ پاکستانی ٹیم معنوی لحاظ سے اپنا ناک آؤٹ میچ کھیل رہی تھی۔ یہاں شاہین کا ہی اسپیل تھا جس نے پاکستانی ٹیم میں یقین پیدا کیا اور اس کا کھویا ہوا اعتماد واپس دلایا۔ یہ سوئنگ باؤلنگ کا شاندار مظاہرہ تھا۔ یہ مظاہرہ افغانستان کے خلاف ایک لو اسکورنگ میچ میں بھی جاری رہا اور بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کے آخری ورلڈکپ میچ میں تو شاہین آفریدی اوج کمال تک پہنچ گئے۔
لارڈز کے تاریخی میدان میں شاہین آفریدی نے پاکستان کی طرف سے سب سے بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔ شاہین آفریدی نے اب تک 19 ایک روزہ میچوں میں 40 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ یہ پاکستان کی طرف سے 19 میچ کھیلنے کے بعد وکٹوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ شاہین آفریدی نے اس ورلڈکپ میں صرف 5 میچ کھیل کر 16 وکٹیں حاصل کی ہیں، لہٰذا اب یہ محض امید ہی نہیں، بلکہ یقین بھی ہے کہ ان کو روکنا اب آسان نہیں ہوگا۔
جوفرا آرچر
برطانوی باپ اور بارباڈوس کی ماں سے جنم لینے والے جوفرا آرچر نے اپنی کرکٹ ویسٹ انڈیز سے شروع کی تھی۔ بارباڈوس اور ویسٹ انڈیز کی طرف سے انڈر 19 سطح پر وہ کھیلتے رہے۔ اسی دوران وہ سسیکس کاونٹی کی طرف سے بھی کھیلنا شروع کرچکے تھے۔
فرسٹ کلاس کرکٹ کی بات کی جائے تو آرچر نے اپنا ڈیبیو 2016ء میں پاکستان کے خلاف کیا تھا، جہاں ان کا شکار بننے والوں میں اظہر علی، محمد حفیظ اور مصباح الحق جیسے تجربہ کار کھلاڑی شامل تھے۔ تب تک آرچر اپنے برطانوی پاسپورٹ کی بنیاد پر انگلینڈ کی نمائندگی کا خواب دیکھ چکے تھے، لیکن یہ ایک لمبا سفر تھا۔
اس دوران مختلف لیگز میں انہوں نے اپنے بھرپور جوہر دکھائے۔ انگلش سلیکٹرز خام مال پر بہت نظر رکھتے ہیں، خاص کر افریقن اور غرب الہند سے آنے والے خام مال پر۔ آرچر میں چونکہ دم تھا، جنون تھا، قابلیت تھی اور اس کے اظہار کا مخصوص ویسٹ انڈین اسٹائل بھی۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے اپنے قوانین میں تبدیلی کرکے ان کی شمولیت کی راہ ہموار کی۔
ورلڈ کپ سے چند ماہ پہلے تک جس لڑکے کی انگلش ٹیم میں شمولیت بھی ابہام کا شکار تھی وہ نہ صرف انگلش ٹیم کے لیے کھیلا بلکہ اس ورلڈ کپ میں انگلینڈ کا سب سے کامیاب باؤلر بھی ٹھہرا۔ ورلڈکپ فائنل میں جہاں اربوں لوگوں کے اعصاب چٹخے ہوئے تھے انگلینڈ کی طرف سے سپر اوور کے لیے آرچر کو گیند تھمائی گئی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ نوجوان کھلاڑی نے نہ صرف یہ ذمہ داری لینے کی جرأت کی بلکہ اسے نبھایا بھی۔
خاص کر جب 3 گیندوں پر صرف 5 رنز درکار تھے، آرچر نے اس وقت کیریکٹر شو کیا اور اپنی سلیکشن کو بالکل ٹھیک ٹھیک ثابت کردیا۔ یہ کامیابی کی ایک حقیقی کہانی ہے جو بظاہر خواب لگتی ہے۔
ان کی اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا اب بالکل آسان ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں آرچر کا نام یقیناً بڑے معرکوں میں سنا جائے گا۔
الیکس کیری
اس بار آسٹریلوی ہیرو نہ تو ساؤتھ ویلز سے تھا اور نہ ہی وکٹوریہ سے، بلکہ ساؤتھ آسٹریلین الیکس کیری نے آسٹریلیا کے لیے وہ کام کیا جو کبھی ایڈم گلکرسٹ کیا کرتے تھے۔
تجربہ کار ایرون فنچ، ڈیوڈ وارنر اور اسٹیو اسمتھ نے ٹاپ آرڈر میں آسٹریلیا کے لیے بہت رنز بھی بنائے اور میچ بھی جتوائے لیکن اس ورلڈکپ میں آسٹریلین مڈل آرڈر کا سارا دار و مدار الیکس کیری پر رہا۔ جب بھی آسٹریلین ٹاپ تھری بلے باز ناکام ہوئے الیکس کیری ہی تھے جنہوں نے ذمہ داری دکھائی۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں جب ٹاپ آرڈر خشک پتوں کی طرح بکھر گیا تھا تو یہ کیری ہی تھے جنہوں نے پہلے اسٹیو اسمتھ اور پھر نیتھن کولٹر نائیل کے ساتھ مل کر ٹیم کو ایک قابلِ عزت مجموعے تک پہنچایا اور یوں آسٹریلیا 15 رنز سے فتحیاب ہوا تھا۔
بھارت کے خلاف ایک ہاری ہوئی بازی میں قابلِ شکست بیٹنگ کارکردگی ہو یا پھر نیوزی لینڈ کے خلاف مشکل میں بنائے گئے 71 رنز، الیکس کیری ہر مشکل وقت میں ڈٹ کر کھڑے رہے۔
مزید پڑھیے: ’لارڈز کا معجزہ‘، انگلینڈ بن گیا ورلڈ چیمپیئن
تاہم جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ احترام دلوایا وہ سیمی فائنل میچ میں انگلینڈ کے خلاف ان کا مردانہ وار کھیل تھا۔ جب صرف 14 رنز پر 3 آسٹریلوی بلے باز میدان بدر ہوچکے تھے تب کیری نے میدان سنبھالا اور زخمی شیر کی طرح لڑے۔ جوفرا آرچر کے خونی باؤنسر کے بعد بھی جس طرح پٹی باندھ کر وہ کھیلتے رہے وہ عزم اور استقلال کی ایک شاندار کہانی تھی۔
درحقیقت قابلیت کے ساتھ جب بہادری شامل ہوجائے تو بنتا ہے گلیڈی ایٹر، جسے تاریخ یاد رکھتی ہے، اور الیکس کیری نے اس ورلڈکپ میں اپنی بہادری، قابلیت اور استقامت کی مثال چھوڑ دی ہے۔
نکولس پوران
محض 7 رنز پر 3 ویسٹ انڈین بلے باز پویلین پہنچ چکے تھے، اور ایسی مشکل صورتحال میں وہ نوجوان کھلاڑی بیٹنگ کے لیے آیا۔ ابھی وہ سیٹ ہونے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ 32 پر چوتھا کھلاڑی بھی ہمت ہار گیا۔ یہی نہیں بلکہ 52 پر پانچویں وکٹ گری حتٰی کہ 70 رنز پر 8 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔
لیکن اس نوجوان نے ہمت نہ ہارنے کا عہد کیا ہوا تھا۔ جب 50ویں اوور میں وہ آؤٹ ہوا تو ٹیم کا اسکور 208 تک پہنچ گیا تھا، جن میں 143 رنز اس کے تھے، جسے دنیا آج نکولس پوران کے نام سے جانتی ہے۔
بات ہو رہی ہے 2014ء میں ہونے والے انڈر 19 ورلڈکپ کی۔ یہ ایک سپر سٹار کی پہلی جھلک تھی لیکن بہت محدود ناظرین تک۔ پھر کیریبین پریمئیر لیگ سے لیکر انڈین پریمئر لیگ تک قابلیت کے جوہر دکھانے والے اس لڑکے کو ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع بھی میسر آگیا۔
جب ورلڈکپ کیرئیر کا اپنا پہلا میچ کھیلنے نکولس میدان میں اترا تو یہ اس کے ون ڈے کیرئیر کا صرف دوسرا میچ تھا۔ یہاں 19 گیندوں پر 34 ناٹ آؤٹ رنز کی اننگ کسی اور کو یاد ہو یا نہ ہو لیکن پاکستانی اس دھلائی کو شاید ہی بھولے ہوں کیونکہ اسی دھلائی کا وبال آخر تک ہمارے ساتھ چمٹا رہا، اور ہم سیمی فائنل تک نہیں پہنچ سکے۔
انگلینڈ کے خلاف مشکل وقت میں 63 رنز کی اننگز نے پوران میں موجود احساسِ ذمہ داری کے جذبے کی کھل کر وضاحت کی۔ اسی طرح آسٹریلیا کے خلاف بوقت ضرورت تیز 40 رن نے دکھایا کہ لڑکا ٹیم کے لیے کھیلنا جانتا ہے اور میچ کی صورتحال کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔
اسی ورلڈکپ میں سری لنکا کے خلاف ہاری ہوئی بازی میں ایک بار پھر نکولس پوران نے خوب دل سے معرکہ آرائی کی اور کیرئیر کی پہلی شاندار سنچری بنائی۔ میچ تو ویسٹ انڈیز ہار گیا لیکن ایک نیا ہیرو ضرور انہیں مل گیا۔
اس ورلڈ کپ میں جہاں ویسٹ انڈیز اجتماعی طور پر کوئی قابلِ قدر کارنامہ انجام نہیں دے سکا وہاں نکولس پوران جیسے نئے خون نے بڑے اسٹیج پر اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا ہے۔ شروع دن سے پوران کے بارے جو پیش گوئیاں جاری تھیں موقع ملتے ہی اس نے انہیں حقیقت کا روپ دینا شروع کردیا ہے۔ امید ہے کہ ویسٹ انڈیز کے لیے یہ لڑکا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔
وین در ڈوسن
جنوبی افریقہ کے لیے یہ ورلڈ کپ ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے۔ کہاں لوگ انہیں ٹاپ 4 میں رکھ رہے تھے اور کہاں وہ سب سے پہلے ٹورنامنٹ سے خارج ہونے والی ٹیم بن گئی۔
یہ سب یقیناً افریقی شائقین کے لیے مایوس کن پہلو ہے۔ جنوبی افریقہ، جس کے لیے بیٹنگ کا شعبہ کبھی جیک کیلس، گیری کرسٹن، گریم اسمتھ اور اے بی ڈی ویلئیرز جیسے مہان بلے باز سنبھالتے تھے، مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ ہاشم آملہ کا بلا خاموش ہوچکا ہے جبکہ فاف ڈوپلیسی پر کپتانی کا بوجھ ہے۔ ایسی صورت میں جنوبی افریقہ کو بلے بازی کے میدان میں اب نئے ہیروز کی تلاش ہے، اور ایسے ہی ہیروز کی تلاش میں انہیں کم از کم ایک ہیرو تو مل چکا ہے۔
یہاں بات ہورہی ہے اس سال ڈیبیو کرنے والے راسی وین در ڈوسن کی۔ پاکستان کے خلاف اپنے پہلے ہی میچ میں انہوں نے 93 رنز بنا کر بتا دیا تھا کہ وہ یہ بار اٹھا سکتے ہیں۔ ڈوسن کی خاص بات ان کا ہر پوزیشن پر ایڈجسٹ ہوجانا ہے۔ اب تک دستیاب 14 اننگز میں وہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق نمبر 3 سے لیکر 5 تک بلے بازی کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیے: کالی آندھی کب ہمارا پیچھا چھوڑے گی؟
اس ورلڈ کپ میں انہوں نے مسلسل اچھا کھیل پیش کیا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ہی میچ میں جب ہار یقینی ہوچکی تھی، تب بھی وہ ڈٹے رہے۔ پھر بنگلہ دیش کے خلاف بھی انہوں نے اچھی کوشش کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ایک لو سکورنگ میچ میں جب سارے بڑے نام پویلین لوٹ چکے تھے تب وین در ڈوسن نے 67 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ بھی رہے، لیکن افسوس کہ ٹیم کی کشی پار نہ لگ سکی اور جنوبی افریقہ کو ایک اور شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
آخر کار انہوں نے اپنا سارا غصہ ٹورنامنٹ کی سب سے ٹاپ ٹیم آسٹریلیا پر اتارا اور ان کی 95 رن کی عمدہ اننگز کی بدولت جنوبی افریقہ کسی قدر عزت بچا کر وطن لوٹنے میں کامیاب ہوسکا۔ اس ورلڈ کپ میں وہ افریقہ کے دوسرے کامیاب ترین بلے باز ٹھہرے جو تقریباً ہر میچ میں ہی اسکور کرتے نظر آئے۔ موجودہ جنوبی افریقی ٹیم کو بیٹنگ مسائل کا ایک اچھا حل وین در ڈوسن کی صورت نظر آرہا ہے۔
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں