دنیا میں 2 ارب سے زائد افراد صحت مند غذا سے محروم ہیں، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے دنیا بھر کی حکومتوں سے بھوک کے خاتمے کے لیے کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت دنیا میں 2 ارب سے زائد افراد صحت مند غذا سے محروم ہیں جن کی اکثریت شمالی امریکا یا یورپ میں ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے 'فوڈ سیکیورٹی اور نیوٹریشن' کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق صحت مند غذا سے محروم 2 ارب سے زائد افراد کو صحت کے مسائل کے خطرات کا سامنا ہے۔
رواں برس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی کُل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ‘محفوظ، مقوی اور مطلوبہ خوراک کے حصول کے لیے مجبور ہے’۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحت مند خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد یورپ اور شمالی امریکا میں آبادی کا 8 فیصد ہیں۔
رپورٹ کے ایڈیٹر سینڈی ہولیمن کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں بھوک سے آگے کے مسائل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم صرف بھوک پر توجہ دیں گے تو پھر ہم بہت سے بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھتے ہوئے نظر انداز کر رہے ہوں گے’۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے حکومتوں کو تجویز دی ہے کہ وہ صرف زیادہ خوراک پیدا کرنے کے بجائے خوراک کی دستیابی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیں۔
جوز گریزیانو سلوا کا کہنا تھا کہ ‘حکومتوں کا زیادہ زور خوراک کی پیدوار پر ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ خوراک دستیاب ہوگی تو لوگ کھا لیں گے لیکن یہ بات اس طرح درست نہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم خوراک کی تقسیم، مارکیٹ، لوگوں کا رویہ اور لوگوں کی ثقافت کو نہیں دیکھ رہے ہوتے’ حالانکہ اس وقت دستیاب دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں بھوک کے شکار افراد سے زیادہ تعداد موٹے لوگوں کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف دنیا میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں بھی 2018 کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے، غذائی قلت میں اضافہ زیادہ تر افریقہ، مشرق وسطیٰ کے متعدد علاقے، لاطینی امریکا اور کیربیئن میں ہوا ہے۔
برطانیہ کے ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جین مائیکل گرینڈ کا کہنا تھا کہ ‘ہم خواتین اور لڑکیوں کے لیے عدم مساوات اور کمزور صحت جیسے مسائل کے حوالے سے پائی جانے والی وجوہات کا پتہ لگائے بغیر بہتری نہیں لاپائیں گے’۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 میں دنیا میں 82 کروڑ 20 لاکھ افراد موٹاپے کا شکار تھے۔
رپورٹ کے ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ ‘موٹاپے کا مسئلہ بے قابو ہوگیا ہے، ہمیں ایشیا میں بھوک کا بڑا مسئلہ درپیش تھا لیکن اب موٹاپے میں اضافے جیسے مسئلے کا شکار ہیں جو بھوک سے زیادہ سنگین ہے’۔