• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

نائیجیریا پولیو جنگ میں پاکستان کو شکست دینے کو تیار

شائع July 13, 2019 اپ ڈیٹ July 14, 2019
پاکستان میں 2019 کے سات ماہ میں 41 کیسز سامنے آ چکے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں 2019 کے سات ماہ میں 41 کیسز سامنے آ چکے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں رواں ماہ جولائی کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پولیو کے مزید 4 نئے کیسز سامنے آنے سے ملک میں اب تک سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 41 تک پہنچ گئی تھی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ رواں برس جہاں پاکستان میں گزشتہ چند سال کے دوران سب سے زیادہ پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے، وہیں اس سال انسداد پولیو مہم کو بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار مقررہ وقت سے پہلے بند کردیا گیا تھا۔

رواں برس کے ابتدائی 7 ماہ میں پاکستان بھر سے اب تک 41 کیسز سامنے آ چکے ہیں جب 2017 میں پورے سال میں پولیو کے محض 8 اور گزشتہ برس 12 کیسز رپورٹ کیے گئے تھے۔

2 سال قبل تک ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بس پاکستان کے پولیو فری ہونے کی منزل زیادہ دور نہیں لیکن سال 2019 کے شروع ہوتے ہی انسداد پولیو مہم کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کے پولیو فری ہونے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا خیال کچھ مشکل دکھائی دینے لگا، لیکن وہ دن دور نہیں جب پاکستانی قوم اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے گی۔

پاکستان میں پولیو پروگرام آغاز سے اب تک

انسداد پولیو پروگرام پاکستان میں باقائدہ طور پر سن 1994میں شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے، انسداد پولیو مہم کو دنیا بھر میں شروع کیا گیا دنیا کے بیشتر ممالک نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور متعدد ممالک اپنے مقررہ وقت میں اس مرض پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔

پولیو کے خاتمے میں پاکستان کا مقابلہ دنیا کے کئی ایسے ممالک سے تھا جن کے حالات پاکستان جیسے تھے یا ان کے حالات پاکستان سے بھی بدتر تھے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ ممالک جن کے حالات ہم سے بھی ابتر تھے وہ بھی تھوڑی بہت تاخیر کے بعد پولیو جیسے مرض پر قابو پانے میں کامیاب گئے لیکن پاکستان تاحال اس کوشش میں ناکام ہے۔

پولیو فری کی جنگ جیتنے والے ممالک میں ہمارا پڑوسی ملک اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت بھی ہے اور اس وقت پولیو فری کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے دنیا کے تین ممالک کی جستجو جاری ہے اور بد قسمتی سے ان آخری تین ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اس وقت پولیو فری کی جنگ لڑنے والے ممالک میں پاکستان، افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں، مگر اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ ہم سے بدتر حالات میں موجود نائیجریا جلد ہم سے بازی لے جائے گا اور وہ پولیو فری ملک بن جائے گا، کیوں کہ گزشتہ 22 ماہ سے نائیجیریا میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا اور اس بات کا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نائیجیریا کو رواں ماہ جولائی کے آخر یا پھر آئندہ ماہ تک پولیو فری قرار دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 2019 کے 7 ماہ میں 41 پولیو کیسز رپورٹ

نائیجریا کے پولیو فری ہوجانے کے بعد باقی دنیا کے صرف 2 ممالک ایسے رہ جائیں گے، جہاں پولیو کے خلاف مزید چند سال تک جنگ جاری رہنے کا امکان ہے اور ان 2 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

پولیو فری ہونے کی جنگ لڑنے والے باقی 2 ممالک میں پاکستان اور افغانستان شامل ہیں، تاہم ان دونوں میں سے بھی افغانستان کے پہلے پولیو فری ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، کیوں کہ اب تک افغانستان میں پاکستان کے مقابلے کم پولیو کیسز سامنے آئے ہیں۔

اس وقت تک پاکستان سے 41 جب کہ افغانستان سے محض 10 پولیو کیسز سامنے آ چکے ہیں اور اس حساب سے افغانستان کے ہم سے پہلے پولیو فری ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

پاکستان اس دوڑ میں سب سے پیچھے کیوں؟

امکان ہے کہ نائیجریا کو اگلے چند ہفتوں میں پولیو فری قرار دیا جائے گا—فوٹو: افریقا چیک
امکان ہے کہ نائیجریا کو اگلے چند ہفتوں میں پولیو فری قرار دیا جائے گا—فوٹو: افریقا چیک

حد سے زیادہ منفی پروپیگنڈا

انسداد پولیو مہم جتنا اچھا پروگرام ہے، بدقسمتی سے وہ اتنے ہی بڑے پروپگنڈے کا شکار ہے، زیادہ تر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس منفی پروپگنڈے میں ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد کی کثرت زیادہ ہوتی ہے، بعض اشاعتی ادارے یا ان سے وابستہ افراد سمیت ملک کی اہم ترین شخصیات کی جانب سے انسداد پولیو مہم پر کبھی کبھار مختصر ہی سہی مگر منفی حوالے سے کی گئی بات کے بڑے خطرناک نتائج دیکھنے میں آئے ہیں اور لوگ اپنے پسندیدہ اداروں اور افراد کے بیان کو پولیو قطروں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ انسداد پولیو کے خلاف بولنے والے افراد کے بیانات نے جہاں عوام کے دلوں میں پولیو قطروں سے نفرت پیدا کی، وہیں ایسے افراد کے بیانات نے پولیو ورکرز کے کام میں بھی مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی، جس کے باعث 2012 سے اب تک پورے ملک میں 70 سے زائد ورکرز کو زندگی کے نظرانے دینے پڑے۔

حال ہی میں پشاور سے بھی ایک خبر سامنے آئی کہ پولیو ویکسین پینے سے سیکڑوں بچوں کی حالت غیر ہوگئی، بدقسمتی سے مین اسٹریم میڈیا میں یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلی، مگر بعد ازاں محکمہ صحت کے حرکت میں آنے اور تحقیقات ہونے پر جیسے ہی حقائق سے پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ ایک مقامی اسکول کے پرنسپال کی ایما پر رچائے گئے ڈرامے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں بڑھتا ہوا پولیو اور منفی پروپیگنڈا

اس سے بڑھ کر المیہ یہ رہا کہ سوشل میڈیا پر اکثر صارفین نے پروپیگنڈا پر مبنی وڈیو کو آگے شیئر کیا مگر حقائق عیاں کرنے والی وڈیو بہت کم شیئر ہوئی اور اس طرح عوام میں ویکسین کے حوالے سے منفی تاثر ابھرا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہم کے دوران ورکرز کو بے تحاشہ مشکلات درپیش آئیں اور ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے اور بالآخر مجبورا ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پولیو مہم کو اپنے مقررہ اہداف پورے کیے بغیر بند کردیا گیا۔

والدین کی عدم دلچسپی

ہمارے ہاں سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ والدین ہی اپنے بچوں کی کی صحت کے حوالے سے فکرمند نہیں دکھائی دیتے اور جب معاملہ پولیو جیسی بیماری کا ہو تو حالات اور بھی سنگین ہوجاتے ہیں اور یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ پاکستانی والدین نہ تو پولیو کو موضی مرض سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس سے بچاؤ سے متعلق پولیو کے قطرے پلوانا لازمی سمجھتے ہیں۔

پولیو ٹیم جب ویکسینیشن اسٹیٹس معلوم کرنے کیلیے لوگوں کے دروازوں پر جاتی ہے تو اکثر لوگ یہ کہہ کر دروازے بند کردیتے ہیں کہ ان کے ہاںبچے نہیں ہیں، حالانکہ ورکرز کی جانب سے دروازے پر کی گئی مارکنگ سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ متعلقہ گھر میں بچے موجود ہیں۔

اگرچہ بچوں کی جانب سے لاپرواہی برتنے پر حکومت نے سنگین اقدامات بھی اٹھائے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ والدین ہر ہال میں اپنے بچوں کو پولیو قطریں پلوائیں، تاہم حکومت کی ان کوششوں کے باوجود کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔

تعلیم اور شعور کی کمی سمیت پولیو قطروں سے متعلق پھیلائے گئے غلط تصورات اور پروپیگنڈا کی وجہ سے اچھے گھرانوں کے والدین بھی بچوں کو پولیو قطرے پلوانے سے انکار کردیتے ہیں۔

ناقص انتظامی امور

انسداد پولیو مہم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ناقص انتظامی امور بھی ہیں، یہ درست ہے کہ ماضی میں اس پروگرام پر مطلوبہ توجہ نہیں دی گئی اور یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت جس سنجیدگی کے ساتھ پولیو کے خاتمے پرکام کیا جا رہا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، تاہم پھر بھی اس نظام میں کئی خامیاں ہیں اور اس نظام کو مزید بہتر اور سخت بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت اگرچہ ملک میں صوبائی اور وفاقی سطح پر ایمرجنسی آپریشن سینٹرز قائم ہیں جن میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کے علاوہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف جیسے اداروں کی نمائندگی بھی شامل ہے، تاہم پھر بھی نچلی سطح پر اس نظام میں خامیاں موجود ہیں اور اس کو مزید بہتر اور سخت بنانے کی گنجائش اور ضرورت موجود ہے۔

پاکستان میں اگرچہ انسداد پولیو مہم خود وزیرِ اعظم پاکستان کی سربراہی میں جاری ہے اور ایسے علاقے جہاں کے ماحول میں پولیو کے وائرس موجود ہونے کے شواہد موجود ہیں مثلاَ کراچی اور پشاور وغیرہ وہاں مہم کے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر کمیونٹی بیسڈ ویکسینیشن CBV پروگرام بھی متعارف کروایا جاچکا ہے اور اس بات سے انکار نہیں کہ پالیسی سازوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے نظام کو بہتر سے بہتر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی مگر پھر بھی نچلی سطح پر بعض معاملات میں بہتری کی گنجائش موجود ہے اور اس پر پالیسی سازوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند

پولیو ورکرز اور ٹیم کی سیکیورٹی کے انتظامات بھی کسی حد تک بہترین ہیں، تاہم اسے بھی مزید بہتر اور سخت بنانے کی ضرورت ہے اور ایسے قوائد لانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے والدین پر پولیو ٹیم سے تعاون کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔

بطور ذمہ دار شہری ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے؟

جیسا کہ یہ واضح ہے کہ پولیو وائرس اگر کسی بچے پر حملہ کرکے اسے معزور کردے تو اس کا کوئی علاج نہیں اور وہ بچہ اپنی بقیہ عمر اسی معزوری میں گزارنے پر مجبور ہوگا البتہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو وقتا بوقتا اس بیماری سے بچاؤ کے قطرے پلواتے رہیں تاکہ وہ اس وائرس کے حملے سے محفوظ رہہ سکیں۔

اس ضمن میں اگر کوئی وڈیو، آڈیو، بیان یا تحریر وغیرہ ہمیں پولیو ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات سے دوچار کرے تو ہم اپنے آپ پر تحقیق کے دروازے کھول دیں کیوں کہ آج کل کا دور جدید میں کسی بھی موضوع پر انٹرنیٹ پر تھوڑی دیر کی تحقیق سے حقائق تک پہنچا جا سکاتا ہے اور ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایسی منفی تشہیر کی حوصلہ شکنی میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

نہ صرف اتنا بلکہ ہماری ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ اگر ہمارے عزیز و اقارب یا پڑوس میں ایسے افراد موجود ہوں جو اس مہم کے حوالے سے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہیں تو ہم انہیں بھی ان حقائق سے آگاہ کریں اور کوشش کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ بھی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں کیوں کہ ایک بچے کے پیٹ میں موجود وائرس جب پاخانے کے ذریعے نالے میں جاتا ہے تو پورے محلے کے بچوں کے سر پر وائرس کے حملے کا خطرہ منڈلانا شروع کر دیتا ہے۔

عوام میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ پولیو کے 2 قطرے کیا اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی قیمت کیا ہے، انہیں یہ حقیقت بتائی جانی چاہیے کہ یہ دو بوند کسی صحتمند بچے کو مستقل معزوری سے بچا سکتے ہیں، ہم سب کیلیے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کیلیے ایک صحتمند ماحول کی فراہمی یقینی بنائیں، ہماری تھوڑی سی دلچسپی اس ملک کو پولیو سے پاک بنانے میں بہت زیادہ معاون بن سکتی ہے۔

آئیں مل کر پاکستان کو پولیو فری بنانے میں حکومت اور عالمی اداروں کا ساتھ دے کر خود کو عظیم قوم ثابت کریں۔


لکھاری پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کی تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں، انہوں نے 4 سال سے زائد عرصے تک صوبائی کوآرڈینیٹر کی ذمہ داریاں نبھائیں۔

ان سے ان کے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024