جب میری صبح کا آغاز خواجہ غلام فرید کے دربار پر حاضری سے ہوا
سفر کا نشہ ٹوٹ رہا تھا، ملتان کی اداس شام کے پہر مجھے راجن پور جانے کا موقع ہاتھ آیا اور میں نے اس موقع کو جانے نہیں دیا۔ سفر کی ڈور مضبوطی سے تھام لی اور آنکھوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ ملتان سے روانہ ہوتے وقت نصف شب بیت چکی تھی، مگر سارے دن کی تھکاوٹ پر سفر کی لذت حاوی تھی۔
ملتان سے راجن پور کی قیام گاہ تک، میں اور ڈرائیور پورے اختیار سے جاگتے رہے، جیسے کسی خواب کا سفر ہو، وہ بھی بنا اپنی سواری اور بنا کسی بس کا ٹکٹ کٹائے۔ میں رات کے تیسرے پہر، سونے سے ذرا پہلے یہ منصوبہ بنا رہا تھا کہ خواجہ غلام فرید کے دربار پر حاضری سے صبح کا آغاز کیا جائے گا۔
صبح آنکھ کھلی تو ڈرائیور کو اپنا منتظر پایا اور ہم راجن پور سے کوٹ مٹھن جانے والے راستے پر تھے۔ آپ نے کبھی احساسات کو لفظوں میں ڈھلتے ہوئے دیکھنا ہو تو خواجہ غلام فرید کی شاعری کو پڑھیے۔ ویسے تو ہم جیسے لوگوں کے لیے پنجابی و سرائیکی کو سمجھنا اور بھی دشوار ہوتا چلا گیا ہے، اب تو نئے آنے والے اردو سے بھی بے بہرہ ہیں تو علاقائی زبانوں میں تراشے ہوئے ہیروں کی قدر کیونکر کریں گے۔
میں بالکل خالی الذہن کوٹ مٹھن شریف کی ان گلیوں تک آ پہنچا تھا۔ میرے سامنے ایک روایتی انداز کا پنجابی دربار موجود تھا۔ یہاں ابھی چند ہی لوگ موجود تھے اور ویسے بھی یہ ایک عام سا دن تھا اس لیے بہت زیادہ لوگوں کی موجودگی کا احتمال بھی نہیں تھا۔
ایک برآمدے سے گزر کر مزار کے مرکزی حصے میں جایا جاتا ہے۔ برآمدے کے در و دیوار سے یہاں آنے والے لوگوں کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ دروازے اور دیواروں پر آرزوؤں کی امید میں رگڑی ہوئی ہتھیلوں کے رنگ چڑھ آئے تھے، فیصل آباد کے ایک شاعر نے کہا تھا کہ
یوں بھی خاصیت اشیاء کا پتا چلتا ہے
ریت پر چلتا ہوں دریا کا پتا چلتا ہے
گنبد اور در و دیوار کے رنگ قدرے دھیمے دھیمے سے تھے، چھتوں پر خوبصورت نقش ونگار جو بعد میں دربار سخی سرور کی چھت سے مشابہہ بھی لگے۔ مزار کے مرکزی حصے میں خواجہ فرید کے بالکل پہلو میں ان کے بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں کی قبر بھی ہے اور ان کے والد صاحب کی قبر بھی یہیں موجود ہے۔ ان 3 قبروں کے علاوہ اس حصے میں چند دیگر بزرگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔
فاتحہ پڑھنے کے بعد میں اس حصے کی طرف چلا آیا جہاں وضو کے لیے جگہ بنائی گئی ہے۔ ایک دو بوڑھی عورتیں جو اپنے پرسکون انداز سے مقامی ہی محسوس ہوتی تھیں، آئیں اور فاتحہ پڑھ کر چل دیں۔ مزار کے سامنے والے صحن میں ایک شخص آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، کچھ دیر میں ایک عورت ناشتے کے سامان کے ساتھ اس کے پاس چلی آئی۔ دُور ایک بوڑھی عورت دربار کے برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی، اس سارے حصے میں کوئی 5 سے 6 لوگ ہی موجود ہوں گے۔
اس احاطے سے کچھ ہی فاصلے پر ایک اور مزار دکھائی دیتا ہے جس کے رنگ اور نقش و نگار پہلے والے گنبدوں سے قدرے نئے دکھائی دے رہے تھے، لیکن یہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ اس کے برآمدے اور در و دیوار کے رنگ سے اس حصے کے نئے ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا تھا۔
یہاں پر چند بزرگوں کی قبریں موجود ہیں۔ ان دونوں درباروں سے کچھ ہی فاصلے پر خواجہ غلام فرید سے منسوب ایک میوزیم اور لائبریری بھی ہے۔ اس میوزیم کے ساتھ صبح کے لنگر کا اہتمام کیا گیا تھا، اور درجن بھر سے زائد لوگ اس جگہ کے اردگرد موجود تھے۔ اس میوزیم یا گیلری کے باہر باقاعدہ رجسٹر لیے ایک دو افراد موجود تھے جو آنے جانے والوں سے انٹری فیس بھی وصول کر رہے تھے۔
اس گیلری میں خواجہ غلام فرید سے منسوب اشیا کو رکھا گیا ہے۔ ان کے کپڑے، دیگر استعمال کی اشیا اور کتابوں کو مختلف کمروں میں سجایا گیا ہے۔ اس گیلری کو دیکھ کر مجھے پُرتگال کے شہر فاطمہ میں لوسیا نامی عورت کا گھر یاد آگیا جسے میوزیم کا درجہ دیا گیا ہے۔
یہاں پر بھی کسی سوچنے والے نے ان قیمتی پرانی اشیا کو بالکل اسی انداز میں رکھنے اور دکھانے کی کوشش کی تھی، بس جگہ کو سبھالنے کے طریقہ کار کا واحد فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نہ صرف یہاں پر بلکہ اس سارے ٹؤر میں، جہاں جہاں میرا جانا ہوا، ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے ہاں تاریخ و دیگر اعتبار سے اہم جگہیں تعمیر تو کرلی جاتی ہیں اور ان میں نوادرات اور تاریخ کے اعتبار سے اہم اشیا بھی رکھ دی جاتی ہیں لیکن انہیں مطلوبہ طریقہ کار کے مطابق سنبھالا نہیں جاتا۔
اس کی واضح مثال یہ جگہ بھی تھی۔ ایک صدی پرانی اشیا کو اس انداز میں محفوظ کیا گیا تھا کہ جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ ایک نہیں بلکہ 5 صدی پرانی چیزیں ہوں۔ کتابوں کے صفحات کھول کر الماریوں میں دھرے ہوئے نہایت بوسیدہ دکھائی دے رہے تھے، لیکن میرے ذہن میں یہ بات مسلسل چل رہی تھی کہ پنجاب کے اس قدر دُور دراز کے علاقے میں جہاں موسمِ گرما اپنے عروج پر آکر ان کمروں کو تندور بنا جاتا ہوگا، اور پھر دُھول اور مٹی ان دروازوں سے اندر آکر ان الماریوں کو مسلسل آلودہ کرتی ہوں گی۔
لیکن پھر جہاں انسانوں کو بنیادی سہولیات دستیاب نہیں وہاں یورپ جیسی نفاست ڈھونڈنا میری اپنی بے وقوفی ہی ہے لیکن پھر بھی سوچ کی گہرائیوں میں یہ بات میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے کہ اس جگہ کو اس سے بہتر طور پر سنبھالا جاسکتا ہے اور اسے سیاحوں کے لیے ایک دیدنی جگہ میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس جگہ کے سب لوازمات پورے ہیں بس ایک ترتیب اور سجاوٹ کی نمائش کی کمی ہے۔
بس ایسے ہی اپنے خیالوں سے الجھتا میں اس گیلری کے تمام کمروں سے گزرتا چلا آیا۔ آخری کمروں میں خواجہ غلام فرید کی زندگی پر لکھے گئے مکالات، اخباری تراشے اور کتابوں کو بھی ذخیرہ کیا گیا ہے۔
چند کمروں میں مختلف ادوار کے سجادہ نشینوں اور دربار کے متعلق میڈیا کی کوریج کو بھی دیواروں پر آویزاں کیا گیا ہے۔ گیلری سے نکلتے ہوئے ایک رجسٹر بردار نے مجھ سے اپنے کمنٹس یا تبصرہ لکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ میں نے اس رجسٹر پر کچھ یوں اپنا تبصرہ لکھا تھا کہ ’یہ جگہ بہت خوبصورت ہے لیکن اسے اور بھی زیادہ محبت کی ضرورت ہے‘۔
میوزیم سے نکل کر ہم نے واپسی کی راہ لی، دربار سے باہر اس گلی میں دکانیں کھولی جا رہی تھیں۔ روایتی اشیا کے اسٹال اور منیاری طرز کا سامان لیے دکانیں اور سب سے بڑھ کر پنجاب کے سبھی مزاروں کی ایک مشترکہ سوغات میٹھے مکھانے جا بجا دکھائی دے رہے تھے۔
مزار میں گزرے ایک دو گھنٹوں کو تو اب مہینوں بیت چکے ہیں، لیکن اس دن کے بعد خواجہ غلام فرید کے کلام کو پڑھنے اور سننے کا موقع ہاتھ آیا۔ وہ کلام جو آپ نے بھی شاید بارہا سن رکھا ہوگا لیکن آپ کے علم میں شاید یہ نہیں ہوگا کہ اس کا لکھنے والا کون ہے، پٹھانے خان کی آواز میں میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں اب ایک اور انداز سے لُطف دینے لگا تھا۔
جنیاں تن میرے لگیاں
تیرے اک گے تاں جاناں
غلام فریدا دل اوتھے دیے
جتھے اگلا قدر پچھانے
یا پھر
گلیاں سنجیاں اُجاڑ دسن میں کو، ویڑا کھاون آوے
غلام فریدا اُوتھے کی وسنا جتھے یار نظرنہ آوے
اور ہم ایسے پردیسوں کے لیے شاید وہ بہت پہلے کہہ گئے تھے
عمراں لنگھیاں پھباں پار
پردیس گیوں پردیسی ہویوں تے نت وٹناں منہ موڑاں
کملی کر کہ چھوڑ دیتو، تہ میں بیٹھی خاک گلیاں تے رو لاں
غلام فریدا میں تے دوزخ سرساں جے میں مکھ ماہی ولوں موڑاں
عمراں لنگھیاں پھباں پار،عمراں لنگھیاں پھباں پار
جس طرح آپ کسی بستی میں جا کر تمام بستی والوں سے ملاقات نہیں کرپاتے اور کسی بڑے سے مل کر چلے آتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی اس علاقے میں خواجہ غلام فرید کے قد کاٹھ کی بھلا اور کون سی ہستی ہے؟
ان در و دیوار کو دیکھنے کے بعد دل میں طمانیت کا احساس پیدا ہوا کہ چلو پنجاب کا یہ کونا بھی دیکھ لیا۔
یہ ضروری نہیں کہ سفر کی ہر منزل پر انسان کا قیام طویل ہی ہو بلکہ بعض اوقات کچھ مختصر سے قیام بھی بہت دیرپا اثر چھوڑتے ہیں۔ مصروف زندگی میں جانے پہچانے کلام اور شاعری کو نئے رخ سے سننے کا پھر سے موقع ملا۔ ممکن ہے کہ اس مضمون کے توسط سے آپ بھی پھر سے خواجہ غلام فرید کی شاعری کے اثر کی ہلکی سی خوشبو سے روشناس ہوجائیں گے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔
تبصرے (4) بند ہیں