خود کشی، پاکستان میں نظر انداز کیا گیا مسئلہ
پاکستان میں روزانہ 15 سے 35 افراد اپنی جان لے لیتے ہیں، یعنی خود کشی کے مرتکب ہوتے ہیں.
یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہر گھنٹے میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سال 2012 میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق پاکستان میں خود کشی کی شرح ایک لاکھ افراد میں 7.5 فیصد تھی۔
آسان الفاظ میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس برس تقریباً 13 ہزار افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
2016 میں یہ تخمینہ ایک لاکھ میں 2.9 فیصد تھا، یعنی 5 ہزار 500 افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے افراد اس سے کئی زیادہ ہیں لیکن سرکاری سطح پر اعداد و شمار مرتب نہ کرنے کی وجہ سے حقیقت سامنے نہیں آتی۔
اہلِ خانہ اس بات کو چھپاتے ہیں کہ ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا اور ممنوع سمجھنے کی وجہ سے اس پر بات بھی نہیں کی جاتی۔
اس تحریر کا مقصد مدد کے طلب گار افراد کو ملک میں موجود راہوں تک رسائی اور ماہرانہ رائے فراہم کر کے ان لوگوں کی خاموشی کو توڑنا ہے جنہیں اپنی کہانیاں سامنے لانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
نوٹ: آگے آنے والا مواد کچھ قارئین کے لیے ڈپریشن اور تشویش کا باعث بن سکتا ہے، لہٰذا احتیاط سے آگے بڑھیں، کسی مشکل کی صورت میں ذہنی امراض کے معالج سے مشورہ کریں۔
پاکستان میں خودکشی کے رجحانات اور وجوہات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ڈان نے دسمبر 2018 میں ایک سروے کیا تھا، جس میں حصہ لینے والے افراد سے شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے خودکشی کے حوالے سے ان کے خیالات اور کہانیاں بتانے کا کہا گیا۔
یہ سروے ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کیا گیا تھا جس کے جواب میں ڈان ڈاٹ کام کے قارئین کی جانب سے موصول ہونے والے جوابات اور اعداد و شمار کی صورت میں مندرجہ ذیل ہیں۔
سروے میں مجموعی طور پر 5 ہزار 157 افراد نے حصہ لیا، جو گھمبیر مسئلے کو جاننے کے لیے ایک کوشش تھی۔
• 38 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
• 43 فیصد افراد کا کہنا تھا وہ ذاتی طور پر ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔
• 45 فیصد افراد کے مطابق انہیں خودکشی کرنے کا خیال تو آیا لیکن انہوں نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا۔
• 9 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔
1. سروے میں شریک افراد
اس سروے میں جن لوگوں نے حصہ لیا ان میں اکثریت کی عمر 18 سے 40 برس کے درمیان تھی،سروے میں شامل 72 فیصد مرد تھے جبکہ شرکاء کا تعلق 3 بڑے شہروں سے تھا۔
2.کیا آپ ایسے افراد کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، جنہوں نے خودکشی کی ہو؟
38 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوں نے خودکشی کی ہے۔
3.کیا آپ ذاتی طور پر کسی کو جانتے ہیں جنہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی ہو؟
40 فیصد سے زائد افراد کا کہنا تھا کہ وہ کسی نہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس نے خود کشی کی کوشش کی ہو، تاہم وہ اپنی جان لینے میں کامیاب نہیں ہوا۔
4.کیا آپ نے کبھی اپنی زندگی لینے کی کوشش کی یا خودکشی کے بارے میں سوچا ہو؟
اپنی زندگی لینے کے بارے میں سوچنے یا کبھی اس بارے میں خیال نہ آنے والے افراد کی تعداد تو برابر رہی، تاہم 9فیصد افراد ایسے تھے جو خود کشی کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔
5.کسی نے آپ سے خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا ہو؟
سروے کے 45فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ کسی نہ کسی نے ان سے خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا۔
6. وہ کیا وجوہات ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے خودکشی کے بارے میں سوچا جاتا ہے؟
نصف سے زیادہ لوگوں کا ماننا ہے کہ ذہنی بیماری اور معاشی مشکلات وہ بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے انسان اس نہج تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ طلاق کو لوگوں نے خودکشی کے لیے کم ترین وجہ میں سے ایک مانا۔
7. مندرجہ ذیل بیان کی گئی خودکشی کی وجوہات پر اپنی رائے دیجیے
محض 8 فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ خودکشی غیر اخلاقی کام ہے۔ لیکن تقریباً ایک چوتھائی لوگ اسے انسان کی کمزوری سمجھتے ہیں۔ جبکہ اکثریت خودکشی کو اپنی تکلیف سے بھاگنے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
8. خودکشی کرنے والا دوسروں سے مدد حاصل کیوں نہیں کرتا؟
خودکشی کرنے والے سوچتے ہیں کہ ’کوئی ان کی مدد نہیں کرے گا‘، ’معاشرتی اور سماجی مدد کی کمی‘ یہ وہ دو بڑی وجوہات ہیں جن پر بڑی تعداد نے اتفاق کیا۔ ان دونوں وجوہات کے بعد جس وجہ پر اتفاق کیا گیا وہ ’شرمندگی یا سماجی طور پر شرمندگی کا خوف‘ ہے۔
9. لوگ ماہر نفسیات کے علاج کیوں نہیں کرواتے؟
اس سوال کے جواب میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ لوگوں کے لیے علاج کی سہولت تک رسائی ممکن نہیں۔
ہمیں بغیر کسی جھجک کے اپنی زندگی کے اجیرن پہلوؤں پر بات کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس حوالے سے بہادری دکھانی چاہیے۔
عطیہ نقوی
ہمارے بیٹے عماد نے بوسٹن (امریکا) میں 18 مئی 2018 کو خودکشی کی تھی۔ وہ بوسٹن میں اپنی من پسند ملازمت یعنی فٹ بال کوچنگ کرتا تھا۔ وہ کوچنگ میں فیفا کے دو لائسنس حاصل کرچکا تھا جبکہ اپنے مستقبل کو لے کر بہت سے خواب اور منصوبے رکھتا تھا۔ عماد اپنے مزاحیہ فقروں اور مذاق کرنے کی عادت کے باعث جانا جاتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ایک بڑے حلقے کی جان تھا۔
چند گھنٹوں میں ہمیں دھندلائی نظروں کے ساتھ ایک طویل اور ناختم ہونے والا بوسٹن کا دلخراش ہوائی سفر طے کرنا تھا جس میں سانس لینا تک دوبھر تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میرے بیٹے کو ناجائزی کا شکار بنا گیا تھا، اسی لیے جن دنوں تمام تر حالات خوشگوار اور سازگار نظر آ رہے تھے ہم ان دنوں اپنے بیٹے سے ہونے والی ناانصافی پر رنجیدہ تھے جس نے اس کی جان لی تھی۔
جب ہم بوسٹن پہنچے تو ہمیں اپنے بیٹے کا لکھا ہوا ایک خط دیا جو اس نے خودکشی کرنے سے قبل لکھا تھا۔ خط میں عماد کے ہاتھ کی لکھائی واضح تھی، جس میں لکھا تھا کہ اس نے یہ خودکشی اپنی مرضی سے کی ہے اور اس نے اپنے والدین اور دو بہن بھائیوں کے لیے ویڈیو موجود ہے جس میں اسنے اپنی زندگی کو انجام دینے کی وجوہات بتائی ہیں۔
عماد اپنے پیچھے تقریباً دو گھنٹوں پر مشتمل ایک ویڈیو چھوڑ گیا تھا جس میں اس نے اپنی خودکشی کی وجوہات پر بات کی تھی۔
ویڈیو میں اس نے اپنے ٹین ایج کے وقت کا تذکرہ بھی کیا جب اس کا وزن زیادہ ہوا کرتا تھا، جب ایک اوسط اسپورٹس مین کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ایک اے گریڈ تو حاصل کرتا رہا لیکن اے اسٹار کی سطح پر کبھی پہنچ نہ سکا۔ اس کہنا تھا کہ اس نے کبھی ہمارا سر فخر سے بلند نہیں کرایا اور وہ ہمیشہ سے ہی ایک ایسا شخص بنا رہا جو کٹھن مرحلوں سے گزرتے ہوئے زندگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
اس نے بتایا کہ اس نے ہمیشہ اپنی کوتاہیوں کو اپنی فقرہ بازی اور لطیفہ گوئی کے ذریعے چھپاتا رہا۔ اس نے ایسی کئی مثالیں گنوائیں جب اس نے خود کو دیگر کے مقابلے میں کم تر محسوس کیا تھا اور ہر بار ہم بطور والدین اس کے ساتھ کھڑے ہوئے، اسے یہ بات نہایت ناگوار محسوس ہو رہی تھی کہ اب پہلے جیسا بہتر انسان نہیں رہا تھا۔
عماد نے یہ بھی بتایا کہ جب اس نے بطور فٹ بال کوچ کام کرنا شروع کیا تو اس کے احساسات میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی اور فت بال کوچنگ میں اپنا کریئر بنانے کی خاطر اس نے اپنا انڈرگریجویٹ کا میجر مضمون تبدیل کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ خود کو پسند کرنے لگا تھا اور اسے اس زندگی میں لطف آنے لگا تھا جسے وہ اپنے لیے سمت دے رہا تھا۔
اسی دوران اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس جیسا ایک عام سا شخص بھی وہ سب کچھ حاصل کرسکتا تھا جو اس کے پاس تھا اور اسی لیے کہیں نہ کہیں کوتاہی ہونا تھی، جسے ختم کرنے کی ضرورت تھی۔
اس نے اپنی ویڈیو کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ اسے یہ یقین ہی تھا کہ وہ اتنا بھی اچھا ہوسکتا ہے اور یہ کہ اس کی موجودہ کامیاب اور حاصلات سے بھرپور اس زندگی ایک فریب سے زیادہ کچھ اور نہ تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس فریب کا کبھی انجام ہو اسی لیے اس نے اپنی، بقول اس کے، ادنیٰ سی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا۔
وہ پوری ویڈیو کے دوران کافی پرسکون اور محبت بھرا انداز اپنائے رکھا۔ اس کے چہرے یا رویے میں خوف یا گھبراہٹ کی کہیں کوئی علامت نظر نہیں آئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارے ساتھ ویڈیو کال پر بات کر رہا ہے، بس فرق اتنا تھا کہ ہمارا پیارا عماد اب ہم سے دوسرے فون سے مخاطب نہیں تھا۔
وہ نہ ہماری سسیکیوں سن سکتا تھا اور نہ ہی ہمارے چہروں پر عیاں غم اور صدمے کو دیکھنے سے قاصر تھا۔ وہ اپنی اہمیت کا اندازہ کیے بغیر خود مذمتی کے اپنے تمام تر گمراہ خیالات کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر جا چکا تھا۔
بیٹے کے گزرجانے کے چند ماہ بعد بھی میں، اس کی ماں اور ایک کلنیکل ماہر نفیسات، ایسے سوالات سے گھری ہوئی ہوں جن کے پختہ جوابات ہی نہیں۔
اس دن عماد کے ساتھ میرے وجود کے ایک حصے کی بھی موت واقع ہوگئی تھی۔ آپ کسی بھی ماں سے پوچھ لیجیے وہ آپ کو یہی بتائے گی کہ اپنے بچے کی موت کا کرب مستقل عذاب سے کم نہیں ہوتا۔
میں یہ سوچنے کی کوشش کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کے دنیا سے چلے جانے کے بعد سے میری زندگی کا سب سے کٹھن ترین حصہ کون سا ہے۔ وہ صبحین، جن میں آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی ایک طویل دن گزارنے کی فکر ستانے لگتی ہے، یا میری وہ راتیں جن میں نیند اس وقت تک نہیں آتی جب تک تھکن مجھ پر غالب نہیں آجاتی، یا مجھ پر عائد اپنے دو بچوں کی وہ ذمہ داری، وہ خوف اور خود اعتمادی کے فقدان کا احساس جو مجھے بطور ایک ماں اور ماہر نفیسات میرے وجود کو گھیرے رکھتا ہے۔۔۔ فہرست طویل ہے۔
یہ کوفت ختم ہی نہیں ہوتی۔ کن موقعوں پر تو میری خواہش ہوتی ہے کہ یہ کوفت انجام کو نہ پہنچے کیونکہ صرف یہی تو ہے میرے پاس۔
ان سیاہ گھنٹوں میں اپنی ٹریننگ کی طرف لوٹ گئی اور پھر ایمان کی طرف۔ بطور ایک ماہر نفسیات میری ٹریننگ نے مجھے دوبارہ ایمان سے جوڑ دیا۔ تین ماہ تک اندھیروں میں بھٹکتے رہنے کے بعد میں اپنی بکھری زندگی کو دوبارہ جوڑنے لگی تھی۔ میں نے زندگی بعداز مرگ اور غم کے بارے میں نفیساتی اور مذہبی نکتہ نگاہ سے جتنا ہوسکتا تھا اتنا پڑھا۔ میں نے اپنی نئی حقیقت سے لڑے بغیر اسے قبول کرنے کیکوشش کی اور میں اپنے ’کیوں‘ کو 'کیا' سے بدل دیا۔
نئی حقیقت میں نیند نہیں تھی، اس لیے میں راتیں کو مطالعوں، دعاؤں اور عبادات میں مشغول رہ کر گزارنے لگی۔ میں نے اپنی ذہنی و جسمانی صحت پر جتنا میرا علم تھا اتنا کام کیا۔ میرے دوستوں اور گھروالوں نے مجھے اس قدر پیار دیا اور سپورٹ کیا جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔۔
میری زندگی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ وقت گزارنے تک ہی محدود ہوچکی تھی۔ ہماری توجہ کا مرکز عماد کا آخری بدقسمت فیصلہ نہیں بلکہ اس کی زندگی اور شخصیت تھا۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی زندگیوں کا ایک ایک حصہ اس کی لیگیسی کو جاری رکھنے کے لیے وقف کرنے کی کوشش کی۔
میرے شوہر نے لیاری کے غیر مراعات یافتہ لیکن صلاحیتوں سے بھرپور بچوں کے لیے کوچ عماد فٹ بال اکیڈمی کا آغاز کیا۔
میری بیٹی جو اس وقت کی اٹلی میں ادب کی تعلیم حاصل کر رہی ہے اس نے اپنے تھیسز کا موضوع موت منتخب کیا ہے جس کا تجربہ اس نے کافی قریب سے کیا۔ میرے چھوٹے بیٹے نے اکیڈمی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے اپنے والد کے ساتھ اسکول سطح کے فٹ بال میچوں کے انعقاد میں ساتھ دیا۔
جبکہ میں خودکشی اور ڈپریشن کے بارے میں ایک ایسے ماحول میں ان موضوعات پر کھل کر بات کرتے ہوئے آگہی پھیلا رہی ہوں کہ جہاں خودکشی ایک ممنوعہ موضوع ہے۔ میں بچوں کی موت پر غم سے نڈھال ماؤں کے لیے سپورٹ گروپس کا آغاز کرنے جا رہی ہوں جن کے ذریعے مجھ جیسی بکھرا اور کھویا ہوا وجود رکھنے والی خواتین کو مختلف طریقوں سے اپنی زندگی دوبارہ ترتیب دینے میں مدد مل سکتی ہے۔
میں ایک عرصے تک اس سوچ میں غرق رہی کہ آخر عماد کے ساتھ ہوا کیا تھا اور مجھ سے کہاں کوتاہی ہوئی۔
بطور والدین ہم سے کہاں غلطی ہوئی؟ آخر دنیا کے مختلف حصوں میں نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے ڈپریشن اور خودکشی کے رجحان کی وجوہات کیا ہیں؟
عماد میں ڈپریشن کی علامات کبھی ظاہر نہیں ہوئیں اور نہ ہی موڈ سوئنگ (اس سے مراد رویے میں اچانک اور غیر متوقع تبدیلی) کا مسئلہ بھی کبھی نظر نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ ہی خوش مزاج اور مثبت سوچ کا مالک، دوسروں کی مدد کرنے واالا اور مجموعی طور پر ایک گڈ بوائے یا اچھا لڑکا تھا۔ مگر اس سب کے باوجود وہ خود کو زیادہ اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اپنی باقی کی زندگی ایک اوسط درجے کے شخص کے طور پر گزارنا نہیں چاہتا تھا۔
میں سمجھتی ہوں کہ بطور والدین ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر بات کرنا شروع کریں۔
سب سے بہترین ثابت ہونے کی کوشش، مسابقتی پن اور حد سے زیادہ حاصلات کی دوڑ کے اس اندھے عقیدے کو اپنی زندگی سے ختم کیجیے اور اس پر ایماندارانہ گفتگو کیجیے کہ ہم آخر کون سے کردار اور کون سی توقعات تخلیق دے رہے ہیں۔
ہم بطور والدین ہم اپنے بچوں کی کامیابیوں پر واہ واہ تو کرتے ہیں مگر ان کی اپنی ذات پر واہ واہ نہیں کرتے۔ کامیابیوں کے اہداف ہر گزرتے دن کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اسکولوں کا نظام نتائج پر مبنی ہے اور یوں اوسط درجے کے طالب علم ان دیکھی اور ان سنی دراڑوں میں گرتے پھسلتے رہتے ہیں۔ یہ ایسا تسلسل ہے جس کی دلدل میں ہمارے نوجوان پوری زندگی کے لیے پھسنے رہتے ہیں۔ یہ بوجھ بہت ہی بھاری ہوتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم والدین اپنی ذہنیت اور زبان اور ہمارے اسکول اپنے نظام میں تبدیلی لائیں۔
ہمیں اپنے گھروالوں، دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ جڑے ہمارے ماحول پر نظر دوڑانے اور یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ آج میں نے کس قسم کی گفتگو میں شریک رہا ہوں؟ میں نے ہر ایک گفتگو میں کیا دیکھا، سنا اور محسوس کیا ہے؟ ہم کسی چیز کا تجربہ کیے بغیر اس کے بارے میں جاننے کی استطاعت نہیں رکھ سکتے۔
ہمیں جن افراد کے رشتے عزیز ہیں ان کے ساتھ ہماری گفتگو اور رابطوں کی ذمہ داری ہم سے ہر ایک کو اٹھانی ہوگی۔ ہمیں ذاتی، باہمی، پیشہ وارانہ اور سماجی سطح پرہونے والی گفتگو میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس کی ابتدا کچھ یوں ہوسکتی ہے کہ، اگر ہر ایک والد یا والدہ، استاد، دوست اپنے ارد گرد موجود افراد پر قریبی، ہم گدازی اور شفقت کے ساتھ پوری دلچسپی سے توجہ مرکوز کرے تو عماد جیسے کسی شخص کو اپنے اندر کی بات کہنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ دیگر کے مقابلے میں خود کو کم تر محسوس کرتا ہے۔
اگر ہمارے نوجوانوں کے ارد گرد کے ماحول میں حد سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے اور دوسرے پر اپنا فیصلہ سنانے کا رجحان کم ہوتا تو شاید ان میں یہ احساس پیدا نہ ہوتا کہ وہ جو بھی کام کرتے ہیں اس سے ان کے والدین کا سر فخر سے بلند نہیں ہوا ہے۔
دنیا اب ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، اب تو خوشگوار زندگی گزارنے کے کئی بے تحاشا مواقع دستیاب ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے بچے زیادہ تر ایسے بالغ افراد کی نگرانی میں بڑے ہوئے ہیں اور تعلیم حاصل کی ہے جو محدود سوچ کے اصول رکھتے ہیں اس لیے یہ مواقع انہیں اپنی پہنچ سے باہر محسوس ہوتے ہیں۔
ہماری اگلی نسل کو اپنے گھروں، اسکولوں، کام کی جگہوں اور معاشرے میں ایک شفقت اور قبولیت بھرے ماحول میں پلنے بڑھنے سے استفادہ کرسکے گی تاکہ وہ اپنی زندگیوں کے بارے میں معقول فیصلے کرسکیں۔
ان کے پاس غلطیاں کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے تا کہ وہ ان غلطیوں سے سبق حاصل کرسکیں، جبکہ ہمارا کام ان کی حوصلہ افزائی، رہنمائی اور حمایت کرنا ہو جو انہیں نئے اور بہترفیصلے کرنے میں مدد ملے۔
آئیے بغیر شرمساری محسوس کیے ہمارے اپنے غیر اطمنان بخش پہلوؤں پر بات کریں۔
آئیے ہم اپنے اندر جرات پیدا کریں اور اپنے ماحول کے اندر مخلصانہ اور قابل اعتبار رابطوں کا سلسلہ شروع کریں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو ہر طرح سے بہتر دکھانے یا پھر خود ہر طرح سے بہتر بنانے کی خواہش ترک کردیں۔ خدا نے ہمیں جیسا بنایا ہے، ہم میں جو بھی کوتاہی ہے آئیے اسے قبول کرتے ہوئے محبت کے ساتھ مل کر کام کریں۔
لکھاری کلینکل ماہر نفسیات اور کلینکل سپروائزر ہیں۔ وہ 12 برس سے ذاتی کلینک چلا رہی ہیں۔
مراد موسیٰ خان، پروفیسر برائے نفسیات، آغا خان یونیورسٹی
جب مجھ سے پہلی مرتبہ رابطہ کیا گیا اور اس منصوبے کے بارے میں واضح کیا گیا، تو مجھ سے اعترافی بیانات کے سیکشن کے لیے میری رائے مانگی گئی، یہ میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ میں پاکستان میں 25 سال سے ذہنی امراض کا علاج کر رہا ہوں، میں نے اس ملک میں مرد و عورت، تمام عمر اور تقریباً ہر طبقے کے لوگوں کی ہر طرح کے ذہنی بیماریاں دیکھی ہیں، خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد میں مجھے خصوصی دلچسپی ہوتی ہے جبکہ اس حوالے سے میں 20 سال سے تحقیق کر رہا ہوں۔
تھوڑا بہت جو میں جانتا ہوں کہ جس جذباتی جدوجہد کے راستے پر میں چلنے والا تھا اس پر سے کئی پاکستانی بغیر کسی مدد کی امید کے گزر رہے ہیں، کئی افراد کو دماغی امراض کا علاج میسر ہی نہیں ہے، دیگر بدنامی کے خوف سے گھبراتے ہیں اور باقی کی استطاعت ہی نہیں۔
’لوگوں نے اپنے اعترافی بیانات میں جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ نہایت اثر انگیز ہیں اور بتاتی ہیں کہ پاکستان جیسے پیچیدہ معاشرے میں عوام کن پریشانیوں سے گزر رہے ہیں‘۔
اعترافی بیانات معاشرے کے زیادہ تر پڑھے لکھے، انگریزی بولنے والے اَپر مڈل کلاس طبقے کے ہیں تاہم ان کی جدو جہد کے بارے میں پڑھنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ نچلے طبقے کے لوگ غربت، تعلیم کی کمی، بڑے خاندان، جگہ کی کمی، منشیات کے استعمال، بے روزگاری اور گھریلو تنازعات سے ان کے جذبات پر پڑنے والے اثرات سے کیسے گزر رہے ہوں گے۔
یہاں مذاق اڑانے، جسمانی و جنسی تشدد، ریپ، گھریلو تنازعات کی وجہ سے تشدد، خاندان کا ماحول خراب ہونا، ذہنی امراض، خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کی کئی کہانیاں ہیں، یہ حیران کن ہے کہ موصول ہونے والے 3 ہزار افراد کے رد عمل میں یا تو خودکشی یا پھر خود کو نقصان پہنچانے کے اقدامات شامل ہیں یا پھر وہ اپنے اہلخانہ یا احباب میں سے کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس نے خودکشی کی ہو۔
’ان کہانیوں میں زیادہ تر بدنامی کے ڈر سے کسی سے مدد مانگنے میں لوگوں میں ہچکچاہٹ نظر آئی جس کی وجہ سے لوگوں میں تنہائی اور شرمندگی کا احساس تھا‘۔
کہانیاں بتاتی ہیں کہ سماجی و ثقافتی اور مذہبی اقدار کی موجودگی میں ہر طرح کی بیماریاں، ریپ سے دھوکے بازی تک، تشدد سے منشیات کے استعمال تک، ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، کہانیاں بتاتی ہیں کہ صحت کے حوالے سے یا قانون و انصاف کے حوالے سے، تعلیم کی کمی سے، کئی پاکستانیوں کو دماغی امراض میں مبتلا ہونے خدشات کا سامنا ہے جبکہ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذہنی امراض کے علاج کا ملک میں فقدان ہے جبکہ غیر تجربہ کار معالجوں اور غیر معیاری تربیت کے ساتھ ساتھ شرمندگی اور ان مسائل کے علاج کے لیے کسی سے مدد مانگنے میں بدنامی کا سوچنا بھی ان مسائل کی وجہ ہیں۔
یہ کہانیاں ہمیں کئی پاکستانیوں کی خود پر قابو رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت کے بارے میں بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں ترقی حاصل کرنے کے لیے معاشرے کے تمام چیلنجز کا سامنا کیا۔
سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں گھر، ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم، قانون اور انصاف کے حوالے سے سماجی ترقی کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں بڑی تعداد میں ذہنی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں جس میں بہت بڑی تعداد میں ذہنی دباؤ بھی شامل ہے، اس طرح کے ذہنی دباؤ کا اثر ہماری سڑکوں، ہمارے گھروں، اور نہایت اقدام جیسے خودکشی اور دہشت گردی میں نظر آتا ہے۔
ہمیں معاشرے کی ان بیماریوں سے نمٹنے کی فوری ضرورت ہے، ہمیں ان مسائل کے بارے میں بات کرنی ہوگی جن میں سماجی مسائل اور ذہنی صحت کی سہولیات جیسے خودکشی سے روکنے کیلئے اداروں کا قیام، شامل ہے، یہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
اس ملک کے لوگوں کی یہ اہم ضرورت ہے۔
ڈاکٹر مراد موسیٰ خان ایم آر سی نفسیات، پی ایچ ڈی آغا خان یونیورسٹی میں پروفیسر اور انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فور سوسائیڈ پری وینشن (عالمی ادارہ برائے خودکشی روک تھام) کے صدر ہیں، وہ ٹوئٹر پر @MuradMKhan کے نام سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
خود کشی کی خلا میں نہیں کی جا رہی ہوتی، ایک ’خود کشی کا راستہ‘ ہوتا ہے جسے لوگ اختیار کر رہے ہوتے ہیں، اس راستے پر سفر خودکشی سے کئی ہفتوں یا مہینوں قبل شروع ہوتا ہے۔
سروے میں جواب کنندہ کی ذہنی بیماریوں سے نمٹنے کے حوالے سے معلومات ذیل میں درج ہیں.
یہاں مختصر کہانیوں کو یکجا کیا گیا ہے اور اس میں آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے ڈاکٹر مراد موسیٰ خان کے مشاہدات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
نوٹ: ان کہانیوں سے چند قارئین میں اضطرابی بیماری یا ڈپریشن کا خدشہ ہے، برائے مہربانی اسے احتیاط سے پڑھیں اور کسی بھی قسم کی پریشانی کی صورت میں ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔
اس کے علاوہ ڈاکٹروں کی جانب سے دی گئیں تجاویز کو اپنا علاج نہ سمجھیں، تفصیلی تشخیص کے لیے کسی ماہر سے رجوع کریں۔
تعلیمی مسائل
چھیڑچھاڑ
دُہری شخصیت کا شکار
خود کو اذیت دینا
کھانے میں بے اعتدالی
گھریلو جھگڑے
جنسی شناخت
مالی مسائل
رشتوں کے مسائل
اضطرابی کیفیت
ذہنی دباؤ
جنسی استحصال
پاکستان بھر میں دماغی صحت کے حوالے سے ماہرین سے رابطے کی فہرست دستیاب ہے اور اسے شہروں کے نام کے ساتھ یہاں درج کیا گیا ہے، یہ مکمل فہرست نہیں ہے تاہم اسے مدد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے کسی کا نام تجویز کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی ہمیں ای میل کریں۔
نوٹ: ڈان ڈاٹ کام کسی بھی معالج کی تشہیر نہیں کررہا اور ہماری تجویز ہے کہ اس فہرست میں سے کسی سے بھی رابطہ کرنے سے قبل خود ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے۔
موبائل سے ان معلومات کو پڑھنے کے لیے دائیں یا بائیں وائپ کریں
پرو جیکٹ ڈائریکٹر (اردو) : وقار محمد خان
ایسوسی ایٹ پروڈیوسر : فرحان محمد خان ، فہیم پٹیل
ترجمہ : ایاز احمد لغاری، ثوبیہ شاہد، عثمان سیف
ایلسٹریشن : ماہ نور رفیق (پروفائل)