’معذور افراد کے ساتھ برتاو اور رویوں کی ٹھیک ٹھیک عکاسی‘
ایک لمبے عرصے کے بعد ’رانجھا رانجھا کردی‘ کی صورت ٹی وی اسکرین پر ایسا ڈرامہ نشر ہوا، جسے Talk of the Town کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
ڈرامے کی قلم کار فائزہ افتخار نے ہمارے معاشرے میں معذور افراد کے ساتھ برتاؤ اور رویوں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ کاشف نثار کی بطورِ ڈائریکٹر مہارت اور تجربہ کاری نے ناظرین کو ہر اگلی قسط کے انتظار کے سحر میں مبتلا رکھا تھا۔ بھولا، نور بانو، ساحر، امّاں جی، چچا، چچی اور استانی جی کے روپ میں تمام کردار انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ لگے۔
مجھے یہ ڈرامہ اس لیے متاثر کر گیا کیونکہ پاکستان میں معذور افراد کو درپیش رویوں اور انسانی نفسیات کے تمام پہلوؤں کی جھلکیاں اس میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بھولے کی ماں ساری زندگی اسی فکر میں مبتلا نظر آئی کہ اس نے کوئی ایسا ’گناہ‘ کیا ہے جس کی وجہ سے اسے بھولے کی ابنار میلیٹی کی صورت ’سزا‘ ملی ہے۔ یہ مسئلہ ڈرامے کی حد تک نہیں ہے بلکہ حقیقی دنیا میں بھی لوگ بس یہی سوچتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو معذور اولاد کے والدین ہر وقت اسی کرب میں مبتلا نظر آئیں گے۔ معذور اولاد کی پیدائش سے لیکر ان کی موت تک والدین گناہ، سزا اور استغفار کے دائرے میں گھومتے گھومتے عاجز آجاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ احساس ان کے لیے روگ بن جاتے ہیں۔
حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کائنات میں تمام مظاہر وجوہات (Causes) اور نتائج (Effects) کے مرہون منت ہیں۔ دراصل پاکستان میں بڑھتی ہوئی معذوری کی وجوہات دورانِ حمل ماں کے لیے خوراک اور صحت کی ناکافی سہولیات، ماحولیاتی آلودگی، جینیاتی بیماریاں (Genetics Disorders)، عوام الناس میں صحت اور معذوری سے متعلق محدود آگاہی اور المناک ٹریفک حادثات ہیں۔
ان تمام وجوہات کا والدین کے گناہ اور سزا سے دُور دُور تک کسی بھی قسم کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جس طرح ڈرامے میں بھولے کی ابنارمیلیٹی کی اصل وجہ اس کے چچا کی نیت کا فتور اور ڈاکٹر کا غلط طریقہ علاج تھا۔ اسی طرح اگر درج بالا وجوہات پر تحقیق کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو ارضِ پاک میں معذوری کی شرح بھی کم ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں ڈرامہ ’رانجھا رانجھا کردی‘ میں دل نشیں انداز میں معذور افراد کے ساتھ برتے جانے والے دیگر رویوں مثلاً ہمدردی، خدا ترسی، رحم دلی، نفرت و حقارت کی بھی نشاندہی کی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں معذور افراد کی ’انفرادیت‘ کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں معذوری کی بنا پر ’مختلف‘ سمجھا جاتا ہے۔
تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہونے کے باوجود انہیں اندھا ٹیچر، وہیل چیئر والا ڈاکٹر، گونگا دکاندار اور توتلا انجینئر ہی پکارا جاتا ہے۔ لوگوں کے منفی رویوں کا اظہار صرف زبانوں سے ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے بھی عیاں ہوتا رہتا ہے۔ ان کی شخصیت کی تمام خصوصیات پس پشت ڈال کر معذوری کا ٹیگ ہمیشہ کے لیے ان کے وجود کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں عوام الناس کی سوچ کو بدلنے کے لیے میڈیا موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
مزید برآں ڈرامے میں ایک مثبت رویے کی تصویر کشی بھی نہایت عمدہ انداز میں کی گئی ہے۔ نور بانو حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر بھولے کی زندگی میں شامل ہوتی ہے۔ آغاز میں اسے بھی بھولے کی نیم پاگل پن جیسی حرکتوں کی وجہ سے کراہیت محسوس ہوتی ہے، لیکن استانی جی کے سمجھانے پر وہ بھولے کی معذوری کو تسلیم کرتے ہوئے پیار و اخلاص کا راستہ اپناتی ہے اور بھولے کو تبدیل کرنے کی بارہا کوشش کرتی ہے۔ وہ اسے معذور کے بجائے صرف انسان سمجھ کر اس کی جسمانی ضروریات کے علاوہ جذباتی اور قلبی تسکین کا بھی احترام کرتی ہے۔ محبت کا ہر روپ پیارا ہے۔ محبت کی بوند بوند لاچار اور بیمار انسان کو بھی زندگی سے پیار کرنا سکھا دیتی ہے۔
محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا
محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
اگر محبت اور اخلاص کی دولت والدین، بہن بھائی، دوست احباب اور شریک حیات کی جانب سے ہو تو معذور فرد کی معذوری کم یا ختم بھی کی جاسکتی ہے۔
ڈرامے کا اختتام ناظرین کے ذہنوں پر مثبت تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا معذور افراد کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں