'آصف علی زرداری کا انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا گیا'
کراچی: سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا گیا۔
سینئر صحافی اور جیو نیوز کے اینکرپرسن حامد میر نے انٹرویو کی نشریات بند ہونے کے بعد ٹوئٹر پر اپنے غصے کا اظہار کیا کہ ’میں اپنے ناظرین سے صرف معذرت کرسکتا ہوں کہ انٹرویو جیو نیوز پر شروع ہوا اور روک دیا گیا‘۔
یہ بھی پڑھیں: صحافتی اداروں کیلئے مشکل ملک
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں مزید تفصیلات جلد پیش کروں گا لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کس نے (نشریات) رکوائیں، ہم ایک آزاد ملک میں سانس نہیں لے رہے‘۔
حامد میر نے کہا کہ انٹرویو کی نشریات کے چند سیکنڈ بعد ہی جیو نیوز نے اعلان کیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو آن ایئر نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ’دنیا بھر سے موصول ہونے والی کالز پر پوچھا جارہا ہے کہ کیا ہوا؟ ’اسٹیٹ آف پاکستان‘ اس ملک کو بدنام کررہے ہیں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں‘۔
مزیدپڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مختصر ویڈیو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف بہت بڑے اسکینڈل کی تحقیقات جاری ہیں۔
حامد میر نے آصف علی زرداری سے متعلق ٹوئٹ میں کہا کہ ’کہ تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟ کیا وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان احسان اللہ احسان سے بڑے ملزم ہیں؟ یاد رہے کہ میں نے حکام کے زیر حراست احسان اللہ احسان سے انٹرویو کیا اور میں آصف علی زرداری سے پارلیمنٹ ہاؤس میں انٹرویو کررہا تھا‘۔
اس معاملے پر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کیا کہ ’سلیکٹڈ حکومت صرف اپنی آواز سنانا چاہتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو سینسر کردیا گیا، شروع ہوتے ہی اسے بند کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی پی آئی کا سرکاری میڈیا سے سیاسی سینسر شپ کے خاتمے کا خیر مقدم
بلاول بھٹو نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل محمد ضیاءالحق، سابق صدر جنرل پروزمشرف کے پاکستان اور نیا پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے، اب یہ آزاد ملک نہیں جس کا قائد اعظم نے وعدہ کیا تھا‘۔
واضح رہے کہ متعدد صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے واقعہ کا نوٹس لیا اور ملک میں پریس سینسرشپ کی مذمت کی۔
فریڈم نیٹ ورک نے کہا کہ حامد میر کے ساتھ آصف علی زرداری کا انٹرویو نشرہونے کے چند سیکنڈ بعد بند کردیا گیا جو جبری سینسرشپ محسوس ہوتی ہے اور قابل مذمت ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیک جرنلسٹ کی ایشیا ڈیسک نے مذکورہ واقعہ کو آزادی صحافت پر غیرمعمولی حملہ قرار دیا۔
یہ خبر 2 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی