پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کا خاتمہ کیسے ممکن؟
پاکستان میں کسی معاملے پر رپورٹنگ یا تجزیہ کرنے کی وجہ سے صحافیوں پر تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ اس اضافے کی تازہ مثال حال ہی میں براہ راست دکھائے جانے والے ایک ٹی وی شو کے دوران ایک سیاستدان کی جانب سے سینئر صحافی پر تشدد کیا جانا ہے۔
جون کے آخری ہفتے میں نجی ٹی وی ’کے-21‘ کے ایک پروگرام کے دوران وفاقی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مسرور سیال نے سینیئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران پر اس وقت حملہ کیا جب صحافی نے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تاخیر کے شکار میٹرو بس منصوبے پر تجزیہ کیا۔
مسرور سیال نے امتیاز خان فاران پر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے پہلے ان کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا، بعد ازاں طیش میں آکر ان پر حملہ کردیا۔
صحافی پر تشدد اور ان کے ساتھ بدکلامی پر اگرچہ تحریک انصاف نے مسرور سیال کی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی اور خود بھی انہوں نے صحافی سے معذرت کرلی تھی، تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم رہا کہ آخر سیاستدان یا دوسرے طاقتور افراد رپورٹنگ کرنے، سوال اٹھانے یا تجزیہ کرنے پر صحافیوں کو ہی کیوں نشانہ بناتے ہیں؟
اس کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کار اور کالم نگار سکندر تنیو کہتے ہیں کہ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ صحافی سیاستدانوں یا اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے نااہلی پر کڑے سوالات کرتے ہیں اور ان سے حساب مانگنے کی طاقت رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔
لیکن اگر پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کے واقعات پر نظر دوڑائی جاتے تو یہ انکشاف ہوگا کہ امتیاز خان فاران پر ٹی وی پروگرام کے دوران حملہ صحافیوں کی حرمت، پیشے اور زندگی پر پہلا حملہ نہیں تھا۔
اگر پاکستان میں صحافیوں اور صحافتی اداروں پر تشدد کے گزشتہ برس کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ صرف 2018 میں ہی پاکستان بھر میں سیاستدان، بااثر افراد، پولیس اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے 50 کے قریب صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صحافتی اداروں اور صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ’اسٹیٹ آف پاکستانی میڈیا‘ نامی گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 2018 کے دوران صحافیوں پر جسمانی تشدد اور انہیں ہراساں کیے جانے کے 47 واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں 22 صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جن میں سے 5 صحافی شدید زخمی ہوئے، ساتھ ہی صحافیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں مارنے پیٹنے کے دیگر 25 واقعات بھی رپورٹ کیے گئے۔
یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس پاکستان میں 6 صحافیوں کو قتل بھی کیا گیا، جن صحافیوں کو قتل کیا گیا ان میں چارسدہ پریس کلب کے سیکریٹری جنرل احسان شیرپاؤ، روزنامہ پکار کے سب ایڈیٹر انجم منیر راجا، روزنامہ نوائے وقت کے رپورٹر ذیشان اشرف بٹ، روزنامہ نیا دور کے نمائندے عابد حسین، روزنامہ خبریں کے نمائندے محمد سعید بٹ اور روزنامہ کے ٹو ٹائمز، اے ٹی وی کے نمائندے محمد سہیل خان شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ 2018 میں مارے گئے ان 6 صحافیوں کو پیشہ ورانہ نہیں بلکہ ذاتی وجوہات کی بناء پر قتل کیا گیا۔
لیکن ساتھ ہی اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2018 وہ پہلا سال نہیں تھا، جس میں صحافیوں کو قتل کیے جانے سمیت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی میڈیا گزشتہ 71 برس سے تشدد، ہراساں کیے جانے اور خون کے واقعات کو برداشت کرتا آ رہا ہے۔
سال 2018 سے قبل 2017 میں بھی صحافیوں کو رپورٹنگ کرنے، سیاستدانوں کی کرپشن اور کرتوت عوام کو دکھائے جانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹنگ کرنے اور مبینہ طور پر سیاستدانوں کی کرپشن کو سامنے لانے پر 2017 میں تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں میں سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے صحافی امداد پھلپوٹو بھی ہیں۔
پھلپوٹو کو سکھر پولیس نے جنوری 2017 میں تحویل میں لینے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا۔
امداد پھلپوٹو سکھر میں نجی ٹی وی چینل سماء کے اسٹیشن ہیڈ تھے، مبینہ طور پر پولیس نے انہیں بااثر سیاستدان اور حکمران جماعت کے مرکزی رہنما کہنے پر حراست میں لینے کے بعد 10 گھنٹوں تک حبس بےجا میں رکھا جبکہ ان پر بدترین تشدد کیا۔
پی پی ایف کے مطابق امداد پھلپوٹو کو مبینہ طور پر سیاسی رہنما کے خلاف مسلسل خبریں چلانے کے بعد اٹھایا گیا، بعد ازاں پولیس نے امداد پھلپوٹو کا مقدمہ دائر کرنے سے بھی انکار کردیا۔
واقعے کے حوالے سے امداد پھلپوٹو نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں بااثر سیاستدان کے خلاف خبریں شائع اور نشر کروانے پر نشانہ بنایا.
ان کے مطابق پولیس نے ان کے گھر پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے بھائیوں کو گرفتار کیا انہیں کئی گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں صحافیوں اور میڈیا کے دباؤ پر اس وقت چھوڑا جب ان کے ٹی وی چینل نے انہیں حراست میں لیے جانے اور ان پر تشدد کی خبریں نشر کیں۔
ایک سوال کے جواب میں امداد پھلپوٹو نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی طور پر بااثر سیاستدان کے خلاف ایک اسکول کے پلاٹ پر قبضہ کرکے بنگلہ بنانے کی رپورٹ نشر کی، جس پر اس بااثر شخصیت نے چند صحافیوں کی تجویز پر ان کے خلاف پولیس کو کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
امداد پھلپوٹو نے الزام عائد کیا کہ سکھر کے چند نامور صحافی بھی پلاٹوں پر قبضے یا دیگر معاملات میں مقامی رہنما کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور انہوں نے ہی سیاسی رہنما کو ان کے خلاف پولیس استعمال کرنے کی تجویز دی۔
پولیس کی جانب سے اٹھائے جانے اور پھر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امداد پھلپوٹو نے پولیس کے خلاف مقدمہ بھی دائر کروانے کی کوشش کی، تاہم ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کیے جانے کے خلاف امداد پھلپوٹو نے 2017 میں سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں درخواست دائر کی، لیکن بد قسمتی سے ان کی درخواست پر ابتدائی طور پر ایک یا دو سماعتیں ہونے کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال تک اور کوئی سماعت نہیں ہوئی، تاہم اس دوران عدالت نے پولیس کو عدالتی حاضری کے لیے پابند بنا دیا۔
امداد پھلپوٹو کے مطابق انہیں گرفتار کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے والے پولیس تھانے کے افسران اور اہلکار ڈیڑھ سال تک سندھ ہائی کورٹ میں حاضری بھرنے کے بعد تھک گئے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنے آئے۔
امداد پھلپوٹو پر پولیس تشدد کیس کا سین رواں برس مئی میں اس وقت ڈراپ ہوا جب متعلقہ تھانے کے پولیس اہلکار معززین علاقہ اور سماجی کارکنان کے ہمراہ قافلے کی صورت میں صحافی کے گھر پہنچے جبکہ انہیں غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے معافی مانگی اور سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔
امداد پھلپوٹو نے معزز شہریوں اور سماجی رہنماؤں کے قافلے کو احترام دیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو معاف کر دیا جبکہ ان کے خلاف عدالت میں دی گئی درخواست واپس لی، یوں پولیس اور امداد پھلپوٹو کے درمیان صلح ہوگئی۔
امداد پھلپوٹو کی جانب سے پولیس والوں سے صلح کیے جانے پر سندھی روزنامہ ’پنھنجی اخبار‘ سے وابستہ صحافی ثاقب سندیلو نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیچارے صحافی پولیس اور وڈیروں کے آگے اتنے بے بس ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس صلح کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں بچتا۔
ثاقب سندیلو کا کہنا تھا کہ امداد پھلپوٹو سے قبل بھی کئی واقعات میں صحافیوں نے نہ صرف پولیس بلکہ وکلاء، ڈاکٹرز، سیاستدانوں، بااثر سرکاری افسران اور وڈیروں کے ساتھ مجبور ہوکر صلح کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی جانب سے خود پر تشدد کرنے والے ملزمان سے صلح کرنے کا عمل یقینا مایوس کن ہے لیکن زمینی حقائق یہی ثابت کرتے ہیں کہ صحافیوں کے پاس صلح کے سوا اور کوئی آپشن ہی نہیں بچتا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو صحافیوں پر ہونے والے تشدد یا انہیں ڈرانے دھمکانے کے کیسز سے متعلق کوئی جامع پالیسی مرتب کرکے ایسے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر سننے اور حل کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں، دوسری صورت میں صحافی امداد پھلپوٹو کی طرح صلح کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔
یہ تحریر لکھاری کی پی پی ایف فیلو شپ کا حصہ ہے۔