مقتول صحافی شان ڈھر کے اہل خانہ انصاف کے منتظر
سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں 2014 میں سال نو کی آمد کے موقع پر ہونے والی فائرنگ کے دوران چلنے والی 2 اندھی گولیاں ایک 46 سالہ شخص کے کاندھے کو چیرتی ان کی چھاتی سے پار ہوئیں، پھر آہستہ آہستہ ان کا جسم بے جان ہو گیا۔
نواحی شہر باڈھ کے رہائشی باقی دنیا کی طرح سال نو کو خوش آمدید کرنے میں مصروف تھے اور اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والے شخص شان ڈھر کا خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجڑ گیا۔
شان ڈھر نجی ٹی وی چینل(اب تک) کے بیورو چیف تھے جبکہ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے واحد مرد تھے، وہ بوڑھی والدہ، 2 چھوٹی بچیوں، اہلیہ اور بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، وہ لگ بھگ گذشتہ 25 برس سے صحافت اور ادب سے وابستہ تھے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘پاکستان پریس فاؤنڈیشن‘ (پی پی ایف) کے مطابق شان ڈھر کو ایک ایسے وقت میں قتل کیا گیا جب وہ باڈہ کے ہسپتال میں جعلی دوائیوں کی ترسیل اور استعمال کے حوالے سے رپورٹ پر کام کر رہے تھے، مبینہ طور پر انہیں جعلی دوائیوں کی ترسیل میں ملوث ملزمان نے نشانہ بنایا۔
تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے تین بار تفتیش کرنے کے باوجود یہ بات سامنے نہیں آئی کہ شان ڈھر کو ٹارگٹ کرکے کسی خاص سبب کی وجہ سے مارا گیا ہو۔
پولیس نے ڈان کو بتایا کہ تین مختلف پولیس افسران کی جانب سے کی گئی تفتیش کے مطابق شان ڈھر اتفاقی گولی کا نشانہ بنے تاہم ان کی زندگی ختم ہونے میں یقینا ڈاکٹرز اور جائے وقوع پر موجود لوگوں کی غفلت بھی شامل ہے۔
تاہم شان ڈھر کے اہل خانہ پولیس کی تفتیش سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا ماننا ہے کہ انہیں ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔
شان ڈھر کی بہن فوزیہ ڈھر بتاتی ہیں کہ اگرچہ انہیں نہیں پتہ تھا کہ ان کے بھائی کو خاص طور پر کس سبب کے باعث قتل کیا گیا، تاہم انہیں یقین ہے کہ ان کے بھائی کو غلط کام کرنے والے افراد کے کرتوت دنیا کو دکھانے کے جرم میں مارا گیا۔
انہوں نے شان ڈھر کے قتل کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بھائی کا حادثہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب وہ کسی طرح بھی یہ سمجھنے اور ماننے سے قاصر تھیں کہ ان کے چھوٹے سے خاندان کو یوں کوئی اجاڑ دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور پاکستان کے بے سہارا صحافی
انہوں نے جذباتی انداز میں بتایا کہ سچ تو یہ ہے کہ انہیں بھائی کو قتل کیے جانے کے ابتدائی 10 دن تک کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے، وہ ان حالات سے کیسے نکلیں؟
فوزیہ ڈھر نے اعتراف کیا کہ شان ڈھر کے قتل کا مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ بھی انہیں بھائی کے ٹی وی چینل کے مرکزی دفتر سے دیا گیا، انہیں تجویز دی گئی کہ ابتدائی طور پر ایف آئی آر میں کسی کو نامزد کرنے کےبجائے نامعلوم افراد پر مقدمہ دائر کروایا جائے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ انہیں پولیس اور کچہریوں کا زیادہ تجربہ نہیں تھا، نہ ہی ان کے گھر میں اور کوئی مرد تھا، جو مشکل وقت میں ایسے کام سنبھالتا، اسی وجہ سے وہ آج تک بھائی کے قتل کے انصاف کے حصول میں ناکام ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے گذشتہ پانچ سال میں ان کے بھائی کے قتل کیس کی تین بار تفتیش کی ہے اور تینوں بار مختلف اور اچھی ساکھ رکھنے والے افسران نے تفتیش کی ہے، تاہم تینوں تحقیقات کا نتیجہ 98 فیصد ایک جیسا ہی نکالا گیا۔
فوزیہ ڈھر کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں تینوں تحقیقات کی کاپی فراہم نہیں کیں، تاہم انہیں بتایا گیا کہ ان کے بھائی کو کسی نے ٹارگٹ نہیں کیا بلکہ ان کی موت اتفاقی گولی سے ہوئی۔
انہوں نے تفتیش کرنے والے تمام پولیس افسران پر خدشات کا اظہار کیا اور الزام عائد کیا کہ وہ مشکوک ملزمان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
مقتول صحافی کی بہن کا دعویٰ تھا کہ ان کے بھائی کے قتل میں زہری برادران کے 2 افراد سمیت تنیو برادری کا نوجوان نصراللہ تنیو بھی ملوث ہے، کیوں کہ ان تینوں افراد کی جانب سے جہاں انہیں دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، وہیں ان کی جانب سے صلح کے لیے دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ اگر وہ تینوں بے قصور ہیں تو وہ کیوں صلح کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں؟
تاہم پولیس ان کے الزامات سے اتفاق نہیں کرتی۔
شان ڈھر کے قتل کیس کی تفتیش کرنے والی ٹیم میں شامل افسر عبدالحکیم شاہ کے مطابق معاملے کی تینوں بار ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ صحافی کو کسی نے براہ راست نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ وہ اتفاقی گولی لگنے سے انتہائی زخمی ہوئے اور لوگوں کی غفلت کی وجہ سے چل بسے۔
عبدالحکیم شاہ نے بتایا کہ پولیس نے تفتیش کے دوران اور جائے وقوع پر موجود افراد کی گواہی کے بعد 13 ملزمان کو گرفتار بھی کیا۔
ان کے مطابق عینی گواہان نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے براہ راست شان ڈھر پر کسی کو فائرنگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ جس جگہ پر صحافی کوگولی لگی، وہاں نصراللہ تنیو سمیت دیگر 13 افراد موجود تھے اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے کسی نے ان پر حملہ کیا ہو۔
تفتیشی افسر کے مطابق پولیس نے ان تمام ملزمان کو گرفتار کرکے تحقیق بھی کی، تاہم کسی پر بھی براہ راست صحافی کے قتل کا الزام ثابت نہیں ہوا، البتہ گرفتار کیے گئے نصراللہ تنیو سے ہتھیار بھی برآمد ہوئے تھے، اس لیے ان پر 13 ڈی کا کیس داخل کرکے انہیں چالان کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔
عبدالحکیم شاہ کے مطابق شان ڈھر کے قتل میں ملوث دیگر 2 مشکوک زہری برادران کے ملزمان واقعے کے فوری بعد دبئی فرار ہوگئے تھے اور اب تک وہ مفرور ہیں۔
پولیس کے مطابق شان ڈھر کا کیس اس وقت تعطل کا شکار ہے اور کوئی بھی مستند ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے اس میں گذشتہ 3 سال سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، عدالت نے گرفتار ملزم نصراللہ تنیو کو بھی ورثاء سے صلح ہونے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان صحافیوں اور صحافتی اداروں کیلئے مشکل ملک
پولیس عہدیدار نے شان ڈھر کیس میں پولیس کی جانب سے کسی بھی قسم کی غفلت یا ملزمان کو تحفظ دینے کے حوالے سے مقتول صحافی کے اہل خانہ کے تمام خدشات کو مسترد کیا اور کہا کہ شان ڈھر کے کیس کی تفتیش اچھی ساکھ رکھنے والے پولیس افسران نے کی، اس لیے اس میں ملزمان کو رعایت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
باڈہ پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) عبدالغفور چھٹو نے بھی ملزمان کو کسی طرح کی رعایت یا انہیں مدد فراہم کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو کسی ایک عینی گواہ نے یہ نہیں بتایا کہ صحافی کو براہ راست فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
ایس ایچ او نے اندازا بتایا کہ عین ممکن ہے کہ کسی نے صحافی کو کسی ذاتی مسئلے پر قتل کیا ہو اور وہاں موجود افراد نے ان پر کسی کو فائرنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہو، تاہم ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ سامنے نہ آیا ہو، کیوں کہ گواہ خوف میں آجاتے ہیں اور انہیں اپنے تحفظ کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
شان ڈھر کی بہن فوزیہ ڈھر نے بھی تسلیم کیا کہ کیس میں کوئی عینی گواہ نہیں ہے، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی کو جعلی دوائیوں کی ترسیل اور ہسپتال میں ان دوائیوں کو استعمال کرنے کی رپورٹ کرنے پر قتل کیا گیا۔
صحافیوں کے قتل کی وجوہات کے حوالے سے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 سال میں قتل کیے جانے والے پاکستان کے 72 میں سے 48 صحافی خبر دینے، معلومات عوام تک پہنچانے اور مسائل کی کوریج کے دوران قتل کیے گئے، جب کہ دیگر 24 صحافی مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل ہوئے۔
18 برس میں شان ڈھر سمیت لاڑکانہ ڈویژن کے 3 صحافیوں کو بھی خبر عوام تک پہنچانے سمیت دیگر معاملات پر قتل کیا گیا۔
لاڑکانہ ڈویژن میں 2006 میں سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این کے کیمرا مین منیر سانگی کو بھی قتل کیا گیا تھا، جبکہ 2003 میں اسی چینل سے وابستہ شکارپور کے رپورٹر امیر بخش بروہی کو بھی قتل کیا گیا تھا۔
پاکستان میں سندھ کو صحافیوں کے حوالے سے مشکل ترین صوبہ قرار دیا جاتا ہے، اس کا اندازہ گذشتہ ماہ 4 مئی کو عالمی یوم صحافت سے ایک دن بعد وسطی سندھ کے شہر نوشہروفیروز کے نواحی شہر پڈ عیدن میں قتل کیے جانے والے صحافی علی شیر راجپر کے قتل سے بھی لگایا جا سکتاہے، جن کے قتل میں ملوث ملزمان کے خلاف تاحال درست انداز میں کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔
اسی طرح لاڑکانہ ڈویژن میں قتل کیے گئے منیر سانگی اور امیر بخش بروہی کے قاتلوں کو بھی سزائیں نہیں دی جا سکیں بلکہ صحافیوں کے اہل خانہ نے مجبور ہوکر ملزمان سے صلح کی اور اب اسی طرح کا دباؤ شان ڈھر کے اہل خانہ پر بھی ہے۔
تاہم شان ڈھر کی بہن فوزیہ ڈھر نے ابھی ہمت نہیں ہاری اور وہ بھائی کو انصاف دلانے کے لیے آخری سانس تک لڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔
انہوں نے شان ڈھر کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھائی کے قتل کے بعد ان کی دنیا ختم ہوگئی، ان کی والدہ صدمے میں انتقال کر گئیں جبکہ ان کا چھوٹا سا خاندان اجڑ گیا، وہ کیسے اپنے خاندان کو اجاڑنے والوں سے صلح کریں گی؟
شان ڈھر کے ٹی وی چینل کی جانب سے مدد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ شان ڈھر کے ٹی وی چینل نے ان کی کوئی خاص مدد نہیں کی اور نہ ہی سندھ حکومت کی جانب سے کیے گئے اعلانات آج تک پورے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں صحافیوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا مشکل کیوں؟
تاہم اب تک نیوز کے سندھ کے بیورو چیف امتیاز چانڈیو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ چینل نے شان ڈھر کے اہل خانہ کی مدد کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے کہ اس وقت چینل کے کچھ عہدیداروں نے جو اب چینل کا حصہ نہیں ہیں، شان ڈھر کے اہل خانہ سے تعاون نہ کیا ہو۔
امتیاز چانڈیو مزید بتاتے ہیں کہ جب سے وہ بیورو چیف بنے ہیں، تب سے شان ڈھر کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ نہیں کیا، اگر انہیں چینل سے شکایت ہے تو وہ رابطہ کرکے خدشات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
شان ڈھر کے قتل کے شبے میں پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے اور پھر 13 ڈی کے کیس میں چالان کیے گیے نصراللہ تنیو کا کہنا تھا کہ وہ اسی محلے میں پلے، بڑھے، جہاں شان ڈھر بڑا ہوا اور وہ ان کے بڑے بھائیوں کی طرح تھا، وہ کیسے اور کیوں انہیں قتل کریں گے؟
نصراللہ تنیو نے شان ڈھر کے اہل خانہ سے صلح کرنے کا پولیس کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں عدالت نے عدم ثبوتوں کی بناء پر رہا کیا۔
شان ڈھر کی بہن نے بھی نصراللہ تنیو سے کسی طرح کا صلح کیے جانے کا پولیس کا دعویٰ مسترد کیا اور کہا کہ انہیں عدالت نے آزاد کیا ہے۔
نصر اللہ تنیو اگرچہ جیل سے رہا ہوگئے، تاہم انہوں نے شکایت کی کہ قتل کا جھوٹا الزام لگا کر ان کی زندگی برباد کردی گئی۔
نصراللہ کے مطابق 2014 میں وہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ارضیات (جیولوجی) کے آخری سال میں زیر تعلیم تھے کہ انہیں جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا، جہاں ان کی تعلیم ختم ہوئی، وہیں انہیں محلے، شہر اور احباب میں مجرم سمجھا جانے لگا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں خود سمجھ نہیں آ رہا کہ انہیں پولیس نے کیوں کیس میں پھنسایا، تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عین ممکن ہے کہ انہیں سیاسی وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سیاسی طور پر سابق صوبائی وزیر الطاف انڑ کے گروپ کے حامی ہیں اور ان کے اہل محلہ اس گروپ کے مخالف ہیں عین ممکن ہے کہ اسی بناء پر انہیں نشانہ بنایا گیا ہو۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس پر اس کیس میں دباؤ بھی تھا، اس لیے وہ کسی نے کسی کو قربانی کا بکرا بنا کر خود کو آزاد کرنا چاہتی تھی، اس لیے ان کے ہتھے وہ چڑھ گئے اور ان کی زندگی برباد کردی گئی۔
یہ تحریر لکھاری کی پی پی ایف فیلوشپ کا حصہ ہے۔