اشیائے خورونوش، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ گیا
کراچی: ملک میں کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ خوراک کے افراط زر میں حالیہ اضافے نے صارفین پر مہنگائی کے بوجھ میں مزید اضافہ کردیا۔
اس کے علاوہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے آنے والے آفٹرشاکس آئندہ مہینوں میں صارفین کی قوت خرید پر مزید اثر ڈال سکتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بجٹ 20-2019 میں تجویز کیے گئے سی این جی ٹیکس ریٹس میں متوقع اضافے کے پیش نظر پہلے کچھ سی این جی اسٹیشنز نے 103-104 روپے کے مقابلے میں 107 روپے فی کلو گیس فروخت کرنا شروع کردی ہے۔
مزید پڑھیں: رمضان المبارک سے قبل ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ
اس حوالے سے سی این جی اسٹیشن کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قیمتوں میں اضافے کا بجٹ کے اقدامات سے کوئی تعلق نہیں، کچھ سی این جی ڈیلرز نے بجٹ کے اقدامات کے باوجود بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ کیا تاہم سی این جی قیمتوں کے ڈی ریگولیشن کی وجہ سے ایسوسی ایشن انہیں قیمتوں میں نظرثانی کرنے کیلئے دباؤ نہیں ڈال سکتی۔
واضح رہے کہ وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیشن اتھارٹی کی جانب سے ڈی ریگولیشن کے بعد سی این جی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سی این جی پر ٹیکس شرح کا تناسب متوازن نہیں تھا، لہٰذا سی این جی ڈیلرز کے لیے شرح میں ریجن کے حساب سے اضافے کی تجویز دی گئی، جس کے مطابق ریجن ون کی قیمتیں 64 روپے 80 پیسے فی کلو سے بڑھا کر 74 روپے 04 پیسے جکہ ریجن ٹو کے لیے 57 روپے 69 پیسے سے بڑھ کر 69 روپے 57 پیسے فی کلو ہوگی۔
اسی ڈی ریگولیشن کو دیکھتے ہوئے سی این جی اسٹیک ہولڈرز نے پہلے ہی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا اور اکتوبر 2018 میں 700 ایم ایم بی ٹی یو سے 980 ایم ایم بی ٹی یو گیس ریٹ میں 40 فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 81 روپے 70 پیسے فی کلو سے 103-104 روپے کلو کردیا تھا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ڈی ریگولیشن سے قبل دسمبر 2016 میں سی این جی کی فی کلو قیمت 67 روپے 50 پیسے تھی۔
چینی، گوشت، دالیں مہنگیں
سی این جی قیمتوں میں قبل از وقت اضافے کو دیکھتے ہوئے ریٹیلرز نے بھی حکومت کی جانب سے تجویز کیے گئے سیلز ٹیکس کے بعد چینی کی قیمتیں بڑھادیں۔
حکومت کی جانب سے بجٹ 20-2019 میں چینی پر 8 سے 17 فیصد تک سیلز ٹیکس تجویز کیا تھا جس نے چینی کی قیمت کو 73 سے 75 روپے کلو جبکہ کچھ علاقوں میں 70 روپے کلو تک پہنچا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی 5 سال کی بلند ترین شرح 9.4 فیصد تک پہنچ گئی
اس سے قبل رواں سال کے اوائل میں ایک کلو چینی 55 روپے میں فروخت ہورہی تھی۔
تاہم بجٹ کے اعلان کے بعد چینی کے ہول سیل ریٹس 3 روپے اضافے سے 68 سے 69 روپے کلو ہوگئے جبکہ لالچی دکانداروں جنہوں نے پرانی قیمتوں پر پہلے سے اسٹاک خریدا ہوا تھا وہ صارفین کو مہنگے داموں میں چینی فروخت کرکے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اسی طرح گوشت فروخت کرنے والوں نے رمضان کے آغاز اور عید سے قبل ہی قیمتوں خاص طور پر بغیر ہڈی کے گوشت کی قیمت میں اضافہ 20 سے 40 روپے فی کلو اضافہ کردیا تھا جبکہ دکانداروں نے قیمتوں میں 30 روپے فی کلو تک مزید اضافہ کردیا ہے۔
رمضان سے قبل بغیر ہڈی کے بچھڑے/بچھیا کا گوشت 600 روپے فروخت ہورہا تھا جو اب مختلف علاقوں میں 680 سے 700 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ اسی درجے میں ہڈی والا گوشت رمضان سے قبل 500 روپے فی کلو تھا جو اب 520 سے 540 روپے ہونے کے بجائے 560 سے 580 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
تاہم اگر سرکاری نرخ پر نظر ڈالیں تو بچھڑے/بچھیا کا ہڈی والے گوشت کی قیمت 380 جبکہ بغیر ہڈی کے 470 روپے فی کلو مقرر ہے۔
مزید پڑھیں: مہنگائی کا اثر صرف امیروں پر پڑا، غریب طبقہ اس سے محفوظ رہا، اسد عمر
یہی نہیں مختلف علاقوں میں مٹن کی قیمت میں ایک ماہ میں 2 مرتبہ اضافے کے بعد 1100 روپے فی کلو لیے جارہے ہیں جبکہ رمضان سے قبل یہ قیمت 950 روپے فی کلو تھی، حیران کن بات یہ ہے کہ کمشنر کراچی کی جانب سے مٹن کی فی کلو قیمت 740 روپے فی کلو مقرر ہے لیکن کراچی بھر میں مٹن اور بیف دونوں سرکاری نرخوں پر نہیں فروخت ہورہے۔
گوشت کے علاوہ ملک میں دالوں کی اچھی پیداوار کے باوجود صارفین اضافی قیمتیں دینے پر مجبور ہیں اور رمضان سے 120 سے 130 روپے کلو پر موجود چنے کی دال اب 140 سے 160 روپے کلو میں دستیاب ہے۔