ہائی بلڈ شوگر کی نشاندہی کرنے والی 10 علامات
جب آپ ہائی بلڈ شوگر کے بارے میں سنتے ہیں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ ذہن میں ایسے افراد کا خیال آئے جن میں ذیابیطس کی تشخیص ہوچکی ہو اور انسولین یا علاج کی ضرورت ہو تاکہ مزید پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔
مگر بلڈ شوگر لیول ایسے افراد کا بھی بڑھ سکتا ہے جو ذیابیطس کے شکار نہ ہوں اور اگر وہ علاج نہ کرائیں تو اعصاب، گردے، آنکھوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ امراض قلب کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
خون میں شکر کی مقدار اس وقت بڑھنے لگتی ہے جب جسم انسولین کو استعمال کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے جو غذا کو جسمانی توانائی میں بدلنے کا کام کرنے والا ہارمون ہے۔
تاہم ہائی بلڈ شوگر کی چند علامات یا نشانیاں سامنے آتی ہیں جنھیں دیکھ کر کسی ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس کی روک تھام کے لیے مدد طلب کی جاسکتی ہے۔
اگر آپ کو درج ذیل علامات نظر آئیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرکے بلڈ شوگر کا ٹیسٹ کروالیں۔
ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سن ہوجانا
خون میں شکر کی مقدار بڑھنے کے نتیجے میں خون کی کثافت بھی تبدیل ہویت ہے، یہ اضافی شکر خون کو گاڑھا کرکے ان کی گردش متاثر کرتی ہے، جبکہ چپچپا پن بڑھ جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سن ہونے لگتے ہیں اور سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ خون کی گردش متاثر ہونا ہے۔
ہر وقت پیاس کا احساس
جب گردے خون میں موجود گلوکوز کو فلٹر نہیں کرپاتے تو جسم پانی کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے ، شروع میں تو یہ پیاس زیادہ تکلیف کا باعث نہیں بنتی مگر وقت گزرنے کے ساتھ پانی کی کمی جسم کو نقصان پہنچانے لگتی ہے اور دیگر امراض جیسے بلڈ شوگر کو بڑھانے کا باعث بن جاتی ہے، اس دوران منہ ہر وقت خشک محسوس ہوتا ہے اور پانی پینے کے کچھ دیر بعد ہی وہ پھر خشک ہوجاتا ہے۔
زیادہ پیشاب آنا
اگرچہ سننے میں غیرمنطقی لگے، یعنی پیاس بڑھنے کے ساتھ زیادہ پیشاب آنا، مگر یہ ہائی بلڈ شوگر کی نشانی ہے، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب جسم اضافی سیال کو گردوں کی جانب بھیجتا ہے جس کے نتیجے میں اسے خون کو فلٹر کرنے میں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور زیادہ پیشاب آتا ہے۔ چونکہ پیاس زیادہ لگنے پر پانی بھی زیادہ پیا جائے گا تو شروع میں اس کا خیال رکھنا مشکل ہوسکتا ہے تاہم ایسا مستقل ہونے لگے تو یہ ہائی بلڈ شوگر کی واضح نشانی ہے۔
دماغی دھند
جیسے گاڑیوں کو ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جسم کو بھی ٹھیک طرح کام کے لیے گلوکوز کی شکل میں ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے جو جسم کو طاقت دیتا ہے، جب مناسب مقدار میں انسولین نہیں بنے گی تو جسم بھی کمزوری کا شکار ہوگا، ایسا ہونے پر اکثر تھکاوٹ اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہر چیز دھندلی نظر آنا
جب بلڈ شوگر لیول بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو آنکھوں کا لینس بھی سوچ جاتا ہے جس سے بینائی دھندلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے، بلڈ شوگر کو نیچے لاکر بینائی کو معمول پر لایا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ذیابیطس کے شکار افراد کو اکثر آنکھوں کا معائنہ کرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ بہت زیادہ بلڈ شوگرآنکھوں کو مستقل نقصان یا بینائی کے خاتمے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
خراشیں دیر تک موجود رہنا
ہائی بلڈ شوگر جسم کے قدرتی زخم مندمل کرنے کے عمل کو بھی سست کردیتا ہے، جب بلڈ شوگر اوپر ہوتا ہے تو شریانیں اکڑ جاتی ہیں جس سے وہ سکڑنے پر مجبور ہوکر جسم میں دوران خون کی سپلائی کم کردیتی ہیں، اس کے نتیجے میں جسم زخموں کو جلد بھرنے سے قاصر رہتا ہے۔
کپڑے ڈھیلے ہوجانا
اگرچہ یہ مثبت محسوس ہوتا ہے مگر ہائی بلڈ شوگر میں جسمانی وزن میں کمی بہت زیادہ غیر صحت مند ہوتا ہے، کیونکہ ایسا ہونے پر جسم گلوکوز کو توانائی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے چربی گھلانے لگتا ہے۔ اگر غذا یا ورزش میں کسی تبدیلی کے بغیر وزن میں کمی ہونے لگے تو یہ ہائی بلڈ شوگر کی بڑی علامت ہوسکتی ہے۔
دوپہر کو نیند
ہائی بلڈ شوگرجسم میں گلوکوز کو ضائع کرنے کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں جسمانی طاقت میں کمی آتی ہے اور تھکاوٹ محسوس ہوسکتی ہے، ایسا اس وقت بدترین ہوجاتا ہے جب رات کو کئی بار پیشاب کرنے کے لیے اٹھنا پڑے، جبکہ دن میں اکثر نیند آنے لگتی ہے۔
ہر وقت تھکاوٹ
ویسے تو ہائی بلڈ شوگر کی اصطلاح سے لگتا ہے کہ جسمانی توانائی بڑھ گئی ہے مگر حقیقت میں ایسا ہونے پر جسم تھکاوٹ کا شکار اور سست ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جسمانی خلیات گلوکوز یا شکر کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرپاتے، جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ متاثرہ فرد ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔
شدید سردرد
بلڈ شوگر لیول بڑھنے پر ایسے ہارمونز متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے جو دماغی افعال کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں، تو متاثرہ فرد کو اکثر سردرد کا تجربہ ہوسکتا ہے۔