پھانسیاں دینے کا خوفناک شوق
وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے پاکستان میں 'اصلاحات' لانے کے لیے قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے '5 ہزار' لوگوں کو پھانسی پر لٹکانے کی خواہش کا برملا طور پر اظہار کیا۔ اگر وزیر موصوف کے ماضی کے غیر مناسب اور مضحکہ خیز بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے اس بیان سے زیادہ حیرت نہیں ہوتی۔
ماضی میں وہ یہ دعوی کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت 'چند دنوں کے اندر لاکھوں کی تعداد میں ملازمتوں' کے مواقع پیدا کرنے کی خوب صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ کے ذہن میں وہ مناظر تو تازہ ہی ہوں گے جب چینی قونصل خانے پر دہشتگردوں نے حملہ کیا اور سیکیورٹی فورسز ان سے نمٹ رہی تھی تب یہ صاحب کمانڈو جیکٹ پہنے اور پتلون میں پستول پھنسائے دہشتگردوں سے 'دو دو ہاتھ' کرنے قونصل خانے آ پہنچے تھے۔
وفاقی وزیر نے اپنا حالیہ بیان ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کے دوران دیا۔ شو میں شامل مہمانوں میں مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر بھی شامل تھے جنہوں نے متعدد لوگوں کی رائے کو زبان دے کر اس بیان کو 'فاشزم' کا ایک مظہر قرار دیا۔
فیصل واؤڈا کے اِن لفظوں سے زیادہ پریشان کُن بات تو یہ ہے کہ متعدد ذرائع کے مطابق ایک اجلاس میں چند شُرکا نے بڑے ہی پُراطمنان انداز میں اس تعداد میں پھانسیوں کے حوالے بھی دیے۔
یوں لگتا ہے کہ اس شدید خواہش کے پیچھے یہ (غلط) فہمی کارفرما ہے کہ چین نے اقتصادی ترقی صرف اور صرف آمرانہ نظام سے ہی حاصل کی ہے۔
فیصل واؤڈا ہمیشہ آسمان میں تیرتے نظر آتے ہیں اور جن کے پیر شاید ہی کبھی زمین پر پڑے ہوں، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا قصور محض اتنا ہے کہ ان کے نزدیک جو حضرات معتبر ہیں وہ اُن سے سُنی ہوئی باتوں کا رٹا لگا رہے ہیں اور کوئی بات نہیں ہے؟
ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان کو لاحق تمام مسائل کا حل '5 ہزار افراد کی موت' میں اسی معاملے کے تناظر میں ڈھونڈا جا رہا ہے کہ جس معاملے سے خود موجودہ سویلین حکومت نبردآزما ہے۔ معیشت کی موجودہ حالت اور اہداف کے حصول میں ناکامیوں کی افسردہ تصویر بنے معاشی سروے پر تو رتی بھر بھی مباحثہ نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت کا اب تک مؤقف یہی رہا ہے کہ ساری کی ساری ذمہ داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال دو، بلکہ معیشت سنبھالنے کے معاملے میں جہاں جہاں ان کی اپنی کارکردگی تقریباً غائب رہی ہے اس کا نزلہ بھی گزشتہ حکومت پر گرا دیا جائے۔ مگر ایسی چند جگہیں ضروری ہیں جہاں یہ حکومت بڑی جلدی آگے قدم بڑھا سکتی تھی اور پرعزم طور پراپنی رِٹ قائم کرسکتی تھی، اب یہ حکومت اس کوتاہی کا قصوروار کسے ٹھہرائے گی؟
جب حکومت نے کابینہ کی رکن، زرتاج گل کو اپنی بہن کی سرکاری عہدے کے لیے درخواستِ ملازمت کی حمایت میں سیکریٹری وزارتِ داخلہ کو لکھا گیا خط واپس لینے کی باضابطہ طور پر ہدایت جاری کی گئی تو یہ سارا منظرنامہ کافی مایوس کن اور معاملے کی مبہم بنانے کی کوشش سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہوا۔
خط کی 'واپسی' کتنی معنی خیز ثابت ہوئی اس کا اندازہ بعداز پیدا ہونے والی صورتحال سے لگایا جاسکتا۔ 2 ہفتے گزر جانے کے باجود بھی ابھی تک معلوم نہ چل سکا ہے کہ آیا نیکٹا نے وزیر مملکت کی بہن کو ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے کی پیش کش سے ہاتھ اٹھایا بھی ہے یا نہیں۔
اسی طرح میڈیا میں خود فیصل واؤڈا پر بیرون ملک 'چھپائی ہوئی' جائدادوں کے مالک ہونے سے متعلق خبریں میڈیا پر آچکی ہیں۔ تاہم اب تک خبروں کو مسترد کرنا تو دور کی بات رہی، فیصل واؤڈا اور حکومت نے اس پر لب کشائی کرنا بھی گوارہ کیا۔
یہ بات نہ صرف حکومت کی ساکھ کو ٹھیس پہنچاتی ہے بلکہ اس کے اپنے بالا و اعلیٰ ہونے کے گمان پر سوال بھی اٹھاتی ہے۔ مگر حکومت ہے کہ اس قسم کی باتوں پر دھیان دیتی نظر نہیں آتی۔ دیکھ لیجیے، ساہیوال موٹروے قتل معاملے کے ساتھ کس طرح پیش آیا گیا۔
پنجاب پولیس کے محمکہ انسداد دہشتگردی کے چیف کو اس واقعے کے بعد چند دنوں کے اندر ہی سیخ پا وزیر اعظم نے برطرف کردیا تھا، تاہم وہی چیف چند ماہ قبل اپنے عہدے پر بحال ہوچکے ہیں۔
رواں برس جنوری میں ہونے والے اس واقعے کے نتیجے میں ایک غیر مسلح شخص، اپنی بیوی اور 14 سالہ بیٹی سمیت مار دیا گیا تھا جبکہ ان کے کم سن بچے زخمی ہوئے تھے۔
پولیس نے ابتدائی طور پر تمام متاثرین کو دہشتگرد قرار دیا، بعدازاں انکشاف ہوا کہ وہ تمام افراد بے گناہ مسافر تھے۔
جب احتجاجی مظاہروں کے باعث امن و امان کی صورتحال بگڑنے لگی اور حکومت اعتماد کھونے لگی تب اس نے متاثرہ خاندانوں کو انصاف دینے کے بہت ہی بڑے بڑے وعدے کیے۔
متاثرہ خاندانوں کی جانب سے مقدمہ ساہیوال سے کسی دوسری جگہ منتقل کروانے کے لیے کی جانے والی کوششیں میں حکومت نے ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہیں خوفزدہ کیا گیا ہے اور چونکہ وہ سماعت پر لاہور سے طویل فاصہ طے کرکے آتے ہیں اس لیے عدالت میں پیشی اور گواہی دینے سے گھبراتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم آن ریکارڈ پارلیمنٹ میں (جب بھی چند موقعوں پر جب بھی آمد ہوئی تب) ان پر کی جانے والی تنقید پر بے چینی کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان کی جانب سے بار بار مغربی جمہوریتوں اور سماجوں کی مثالیں سُن سُن کر حیرانی ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے مہذبانہ اقدار کا سنہری معیار مغربی جمہوریتیں اور وہاں کے سماج ہیں۔
سوچتا ہوں کہ نہ جانے انہوں نے برطانیہ کے ایوانِ زیریں جسے پارلیمنٹوں کی ماں بھی پکارا جاتا ہے یعنی ہاؤس آف کامنز میں ہونے والی کارروائیوں کو دیکھ رکھا ہے بھی یا نہیں۔ وہاں وزیر اعظم اور کابینہ اراکین پر تنقید کے خوب تیکھے نشتر چلائے جاتے ہیں مگر وہ ان تمام تنقیدی حملوں کو عین جمہوری روایات کے مطابق مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہوگیا ہے۔ اب یا تو یہ ایک کٹھن راستے پر گامزن ہوا جائے اور جمہوری سمت کی طرف قدم بڑھایا جائے، جہاں حکمران پارلیمنٹ اور میڈیا میں ہونے والی جائز تنقید کو اس حد تک تعمیری اعتبار سے قبول کرنا سیکھتے ہیں کہ جب غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں یا ہورہی ہوتی ہیں تب انہیں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یا پھر مصر یا سوڈان کی مثال کی پیروی کی جائے کہ جہاں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومتیں اپنے ہی عوام سے ظالمانہ سلوک روا رکھتی ہیں۔
حالیہ چند ماہ کے دوران مقتدرین کے چند فیصلوں اور کاموں کو دیکھیں تو یہی راستہ اس قدر پُرکشش معلوم ہوتا ہے کہ خود کو روکنا مشکل ہوجائے۔
یہ راہ پرکشش تو بھلے ہی لگتی ہو مگر پاکستانی عوام کے جذبہ آزادی اور اس تنوع کو مد نظر رکھیں جس کی نمائندگی وفاق کرتا ہے تو یہ بارودی سرنگوں سے بھرا ایک راستہ نظر آئے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یاد رکھیں کہ ہماری زیادہ تر سرحدوں پر منحرف بیرونی طاقتوں کا ڈیرہ ہے۔
ہمارے وطنِ عزیز کی مستقل خوشحالی اور تحفظ کا واحد اور حقیقی ضامن وفاقی اکائیوں، عوام اور ان اداروں کا آپسی اتحاد ہے جس میں وہ تنوع کی طاقت کا احترام ہو اور اس کی قدردانی بھی ہو۔
یہ مضمون 15 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری
تبصرے (2) بند ہیں