ہر شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے، حیران کن تحقیق
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں سالانہ 45 کروڑ ٹن پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے، جس سے کھانے اور پینے کی ڈسپوزایبل چیزیں بھی بڑی مقدار میں بنائی جاتی ہیں۔
دنیا بھر میں موجود سمندروں میں ہر 10 منٹ کے اندر کوڑے کرکٹ کا ایک ٹرک پھینکا جاتا ہے، جس میں زیادہ تر کچرا پلاسٹک کا ہوتا ہے۔
آج کل کے جدید دور میں پاکستان سے برطانیہ، امریکا سے جاپان، چین سے ترکی، سعودی عرب سے ملائیشیا تک انسان کھانے اور پینے کی چیزوں کے لیے پلاسٹک سے بنی چیزیں استعمال کرتا ہے اور یہی چیزیں انسان کے لیے خطرہ ثابت ہو رہی ہیں۔
اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں موجود ہر شخص سالانہ 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔
دنیا کی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں پلاسٹک کے ذرات موجود نہ ہوں اور وہ انسان کو متاثر نہ کر رہے ہوں۔
کینیڈین ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اپنی نوعیت کی منفرد تحقیق کے مطابق انسان نہ صرف پلاسٹک ذرات کو بطور غذا نگل رہا ہے بلکہ وہ سانس لینے کے دوران بھی پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات کو اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمین کی ایسی کوئی جگہ نہیں ہیں جہاں پلاسٹک ذرات موجود نہ ہوں، سمندر کی گہرائی سے لے کر ساحل سمندر کی ریت، پانی کی بوتل سے لے کر ڈسپوزایبل کھانے کے پیکٹوں اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔
ماہرین نے ماضی میں ہونے والی 26 تحقیقات کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ زیادہ تر انسان مچھلی کھانے، پانی اور بیئر پینے، پلاسٹک مصنوعات میں پیک نمک، چینی اور مصالحہ جات استعمال کرنے کے دوران پلاسٹک کے ذرات اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی مصنوعات سے انتہائی چھوٹے اور نظر نہ آنے والے پلاسٹک کے ذرات پانی، کھانوں، مشروب اور مصالحہ جات میں گھل کر انسان کی غذا میں شامل ہو رہے ہیں۔
علاوہ ازیں بتایا گیا کہ شہروں کی آلودہ ہوا، ساحل سمندر کی ریت اور سمندر میں نہانے کے دوران بھی انسان پلاسٹک ذرات کو سانس کے ذریعے جسم میں داخل کر رہا ہے۔
ساتھ ہی ماہرین نے بتایا کہ اصل میں ہر فرد کی جانب سے سالانہ پلاسٹک کے ذرات کھانے کی تعداد 50 ہزار سے دگنی ہوسکتی ہے، تاہم اندازے کے مطابق سالانہ بالغ فرد 50 ہزار جب کہ نابالغ فرد 40 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسان کی جانب سے پلاسٹک کے ذرات کھائے جانے کی تصدیق گزشتہ برس نومبر میں کی جانے والی انسانی فضلے کی ٹیسٹ سے بھی ہوئی، جس میں انسانوں کے فضلے میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔