جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن تھے اور محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے واپس آکر بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، ان کے والد بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی والدہ بیگم سعدیہ عیسیٰ سماجی کارکن تھیں، وہ ہسپتالوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرتی تھیں، جو بچوں اور خواتین کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی تھیں۔
ابتدائی زندگی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے 'O' اور 'A' لیول مکمل کیا، جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول لا سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا۔
آپ 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔
3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔
بعد ازاں 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، وہ اس دوران بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تاحیات رکن رہے۔
علاوہ ازیں انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کے لیے بھی طلب کیا جاتا رہا، اس کے علاوہ وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں اور ان کے 2 بچے ہیں۔
اہم فیصلے
فیصلے سے قبل اس کے ہر لفظ کو محتاط انداز میں تحریر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد مقدمات میں اہم ریمارکس دیئے، جن میں سے ان کے کچھ اہم فیصلے اور ریمارکس مندرجہ ذیل ہیں۔
میمو گیٹ کمیشن 2012
2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کو میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا، میمو گیٹ کیس اس وقت سامنے آیا تھا جب امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے مئی 2011 میں امریکا کے ایک اعلیٰ افسر کو متنازع خط تحریر کیا، جس میں پاکستان میں قائم اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت اور پاک فوج کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے بتایا گیا تھا، یہ کیس امریکی نژاد تاجر منظور اعجاز سامنے لائے تھے۔
مذکورہ معاملے کی تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے 2011 سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کے باعث حسین حقانی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
بعد ازاں عدالتی کمیشن نے سپریم کورٹ میں انکوئری رپورٹ جمع کروائی، جس میں متنازع خط تحریر کرنے کے معاملے میں حسین حقانی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، اس میں مزید کہا گیا کہ سابق سفیر 'ملک کے مخلص' نہیں۔
مذکورہ کیس پر سماعت کئی سالوں تک جاری رہی اور رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کو نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکا میں تعینات سابق سفیر کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائیں۔
سانحہ کوئٹہ انکوئری کمیشن 2016
کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 8 اگست کو ہونے والے خود کش دھماکے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے 6 اکتوبر 2016 کو ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، واقعے میں 74 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے بیشتر وکلا تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انکوئری کمیشن نے 56 روز بعد 110 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی جس میں 18 تجاویز دی گئی تھیں۔
کمشین نے متعلقہ افراد، متعلقہ وزارتوں، محکموں اور اداروں کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ بغیر کسی تاخیر کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگائی جائے۔
رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان، ملت اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد سے ملاقات کی، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ملاقات کا مقصد ان کے مطالبات اور تحفظات سننا تھا۔
مزید پڑھیں: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'
انہوں نے ریاست کو ملک میں قتل اور نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی کہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رپورٹ میں اپنے اختتامی ریمارکس میں کہا تھا کہ 'یہ ملک ان لوگوں کی جانب سے بنایا گیا جو برصغیر کے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانا چاہتے تھے تاکہ وہ آزادی سے اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کا پیغام، انتہا پسندی کی نذر ہوگیا ہے اور وقت کی ضرورت ہے کہ اس کی تشہیر کی جائے۔ اصل مقصد کے دوبارہ اعلان کی ضرورت ہے تاکہ بنیادی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے'۔
اس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سانحہ کوئٹہ کے مرحومین کے اہل خانہ کے نام تعزیتی پیغامات بھی تحریر کیے تھے۔
آرٹیکل 183 (3) کی تجدید کا معاملہ 2018
اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ریمارکس تحریر کیے گئے تھے، جو غیر معمولی پیش رفت کے بارے میں وضاحت کرتے تھے، جس کے باعث انہیں 3 رکنی بینچ سے خارج کردیا گیا تھا۔
مذکورہ ریمارکس، سپریم کورٹ کے اس 3 رکنی بینچ سے متعلق تھے جو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ہسپتالوں کے فضلے کے تلف کرنے کے کیس کی سماعت کررہا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ انہوں نے خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کو پڑھنے کا کہا تھا، جس کا مقصد تھا کہ یہ جان سکیں کہ آیا آرٹیکل مذکورہ کیس کے حوالے سے کچھ بتاتا ہے کیونکہ اس کیس کی فائل سے متعدد متعلقہ مواد غائب تھا۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ مذکورہ آرٹیکل عدالت عظمیٰ کو ان معاملات میں احکامات دینے کا حق دیتا ہے اگر 'وہ یہ سمجھے کہ یہ عوامی مفاد کے تحت بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہیں، انہوں نے مزید تحریر کیا کہ سپریم کورٹ کو پہلے خود کو اطمینان دلوانا ہوگا کہ دونوں صورتوں میں یہ معاملہ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کا ہے اور یہ بھی کہ یہ معاملہ آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ کار میں آتا ہے'۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید تحریر کیا کہ یہ معاملہ ان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
فیض آباد دھرنا فیصلہ 2019
2017 میں وفاقی دارالحکومت فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے رواں برس نمٹاتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
22 نومبر 2018 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے اس کیس کے فیصلے کو محفوظ کیا تھا اور 21 نومبر 2017 کو لیے گئے ازخود نوٹس کے تحت جاری سماعت کو اٹارنی جنرل، میڈیا ریگولیٹر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر شدید تنقید کے بعد بند کردیا گیا تھا۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے اور ان کی وکالت کرنے والوں کی نشاندہی کریں جبکہ وزارت دفاع کے توسط سے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ادارے میں موجود ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پر بھی تبصرہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اس کے دھڑے یا پھر ایک سیاسی شخص کی حمایت نہ کرے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’یہ خیال کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ان معاملات میں ملوث ہے جن میں ایک سیکیورٹی ایجنسی کو شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، اس معاملے کو بھی ختم یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
تنازعات
پی سی او ججز کیس
3 نومبر 2007 کو اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے پی سی او کے تحت ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا اور آئین کو معطل کردیا تھا، اس ایمرجنسی کے باعث ملک کے تمام ججز کو نئے حکم کے تحت حلف اٹھانے کے لیے کہا گیا تھا اور حلف نہ اٹھانے والے ججز کو ان کے مکانات میں نظر بند کردیا گیا تھا۔
اسی روز سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے مذکورہ حکم کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا اور سرکاری عہدیداران پر زور دیا تھا کہ وہ پی سی او پر عمل درآمد کے لیے مدد فراہم نہ کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے ایمرجنسی میں حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
اس معاملے کے 2 سال بعد جولائی 2009 میں، اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ان ججز کی فہرست ارسال کی تھی جنہوں نے 2007 میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
اس کے علاوہ مذکورہ پیش رفت کے باعث اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے ان 79 ججز کی فہرست جاری کی تھی جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا اور ان ججز کو 31 جولائی 2009 کے فیصلے تک کام سے روک دیا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر 2007 کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیئے جانے کے بعد بلوچستان کے تمام ججز مستعفی ہوگئے تھے اور قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مقرر کردیا گیا تھا۔
اسی دوران ایک انٹرویو میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نئے پی سی او کی قانونی اہمیت کے حوالے سے کہا تھا کہ 'پی سی او کہتا ہے کہ آئین کو معطل کردیا گیا ہے، آئین اس کی اجازت نہیں دیتا، آئین پی سی او کی حمایت نہیں کرتا اور اس کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں آئین کی خصوصیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، آئین میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اور ملک میں موجود ہر فرد یہاں تک کہ اگر وہ غیر ملکی بھی ہے کو پاکستان کے آئین کا احترام کرنا ہے'۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ 'آپ آئین کو معطل نہیں کرسکتے، یہ آئین کے مقصد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، آئین کوئی آسان قانون نہیں ہے، یہ قابل قدر قانون ہے، آئین کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ کوئی بھی اسے طاقت سے یا دیگر طریقوں سے معطل کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا'۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پٹیشن
مارچ 2018 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تقرر اور پھر ان کی ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ میں جج کی حیثیت سے تعیناتی کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس کی اعلیٰ ترین ملکی اتھارٹی میں سنوائی ہوئی۔
یکم جنوری 2016 کو ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پٹیشن فائل کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مذکورہ دونوں عہدوں پر تعیناتی میں رائج طریقہ کار کی پیروی نہیں کی گئی تاہم رجسٹرار سپریم کورٹ نے 'بادی النظر' میں پٹیشن کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا۔
14 مارچ 2016 کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے اس پٹیشن پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ درخواست گزار نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دیے جانے والے بنیادی حقوق کی پاسداری نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے متعلقہ فورم سے رجوع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت، سیکیورٹی ادارے اپنے دائرہ کار میں کام کریں، سپریم کورٹ
واضح رہے کہ یہ پٹیشن ایسے وقت میں دائر کی گئی تھی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو خوش کردیا تھا۔
معزز جج نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکن کی جانب سے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد کی رکنیت معطل کرنے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ پاناما پیپرز کیس میں شریف خاندان کے لندن میں 4 فلیٹس شامل تھے لیکن سابق وزیراعظم کو متحدہ عرب امارات میں اقامہ رکھنے پر نااہل کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دیے جانے والے ان ریمارکس کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے ’غیر معمولی‘ پشرفت قرار دیا تھا۔
دسمبر 2017 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے اس 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس میں نیب نے نواز شریف کے خلاف ایک ارب 20 کروڑ روپے کے حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس کی سماعت کو نئے پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی تک ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف مظاہرے
فیض آباد دھرنا کیس میں دیئے گئے فیصلے پر پنجاب بار کونسل (پی بی بی سی) نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف مظاہرے شروع کردیے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ عدالتی فیصلے میں مسلح افواج اور ملک کی سب سے بڑی سیکیورٹی ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے خلاف تنقید پر انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کے خلاف درخواست خارج
پنجاب بار کونسل کی جانب سے قرار داد پاس کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروری 2019 میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قانون کے بلند و بالا اصولوں کو مسخ کیا۔
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے لیے حق بجانب ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بغیر ثبوتوں اور حقائق کو مد نظر رکھے بغیر مسلح افواج کی تضحیک کی اور اس کا ایک ’بدمعاش‘ ایجنسی جیسا سنگین تصور اُبھارا، جو بھارت، اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور پاکستان کے دیگر دشمنوں کا بیانیہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس
رواں سال مئی کے اختتام پر یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں 3 سینئر ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی سے رابطہ کر کے شکوہ کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ صدر مملک کو لکھے گئے اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ ’بتایا جائے کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ان کے خلاف آئین کی دفعہ 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے'۔
قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف حالیہ مہم نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے خلاف 6 فروری کو دیے گئے فیصلے میں سخت الفاظ استعمال کرنے بعد شروع ہوئی، جس میں انہوں نے وزارت دفاع، پاک فوج، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہان کو اپنے ماتحت، ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی، جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کریم خان آغا کے خلاف دائر ریفرنس پر اٹارنی جنرل کے توسط سے وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ملک کا واحد اعلیٰ آئینی فورم ہے جہاں ججز کے خلاف دائر ریفرنسز کی سنوائی ہوتی ہے جبکہ یہی ادارہ ان جج کو ہٹانے کی تجویز پیش کرنے کا مجاز بھی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کا آغاز 14 جون سے ہورہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 2 ججز کے خلاف اثاثے چھپانے سے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا ہے جبکہ انہیں عہدے سے ہٹانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
اپنے حالیہ خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان پر لگائے گئے الزامات سے وہ اور ان کے اہلِ خانہ اذیت کا شکار ہیں، انہوں نے سوال کیا تھا کہ ’کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی میں حائل کمزوری کی سنجیدگی کو ظاہر نہیں کرتا؟‘
اس خط میں مزید کہا گیا تھا کہ جج اس کی اجازت نہیں دے گا اور آئینی حلف کے تحت وہ آئین پاکستان کا دفاع اور اس کی حفاطت کرے گا، مذکورہ خط کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرح کا رد عمل ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لندن جائیداد کے الزامات کے بعد تحریر کیا ہے۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق 116 (1) (بی) کی خلاف ورزی کے الزام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خط میں کہنا تھا کہ انہیں ٹیکس حکام کی جانب سے کبھی کوئی نوٹس ہی موصول نہیں ہوا، اپنے خط میں سپریم کورٹ کے جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوسرا یہ کہ میرے بچے چھوٹے نہیں ہیں، تیسرا یہ کہ نہ میرے بچے اور نہ ہی میری اہلیہ میری کفالت میں ہیں جبکہ چوتھا یہ کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا سیکشن 116 (1) (بی) تعزیری دفعہ نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو تحریر کیے گئے خط میں کہا تھا کہ ’مجھے حکومتی اراکین کی جانب سے آدھے سچ کی بنیاد پر بدنیتی کے ساتھ بدنام کیا جارہا ہے جو میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہے‘۔
مرتب کردہ: شاہ بانو علی خان
تبصرے (3) بند ہیں