• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ججز کےخلاف ریفرنس: پاکستان بار کونسل کا بھی 14 جون کو ہڑتال کا اعلان

شائع June 8, 2019 اپ ڈیٹ June 9, 2019
پاکستان بار کونسل کے نمائندے میڈیا سے بات کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان بار کونسل کے نمائندے میڈیا سے بات کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

حکومت کی جانب سے دو ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے پر پاکستان بار کونسل نے 14 جون کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔

سپریم کورٹ میں وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ کی زیر صدارت پاکستان بھر کی بار کونسلز کا اجلاس ہوا۔

بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امجد شاہ نے کہا کہ تمام وکلا اس بات پر متفق ہیں کہ ججز کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، ریفرنس مس کنڈکٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ کار میں نہیں آتا، حکومت ریفرنس واپس لے ورنہ ملک کو بہت نقصان ہوگا۔

انہوں نے وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی کراچی بار کی جانب سے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے خلاف قرارداد کی تائید کرتے ہوئے ان کی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

امجد شاہ نے کہا کہ ججز کے احتساب کے خلاف نہیں تاہم سیکشن 176 کے تحت پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، لیکن جج صاحبان کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا جبکہ میرٹ کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ریفرنس ہے جو کامیاب نہیں ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کے خلاف ملک بھر کے وکلا 14 جون کو ہڑتال کریں گے، ہمارا احتجاج ججز کے لیے نہیں اداروں کی مضبوطی کے لیے ہے جبکہ ہڑتال اور احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں، جو دائرے سے باہر نکلے گا بار کونسل آگے کھڑی ہوگی۔

مزید پڑھیں: لندن جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا کہنا تھا کہ وکلا کا احتجاج ملک کی بقا اور اداروں کی مضبوطی کے لیے ہے، پہلے بھی تحریک افتخار چوہدری کے لیے نہیں ادارے کے لیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ریکارڈ شاندار نہیں، کئی ججز کے خلاف ریفرنس پڑے رہے جبکہ وہ ججز ریٹائر ہوگئے، پھر اچانک پتہ چلا کہ تمام ریفرنس ختم ہوگئے، کونسل کی سفارش پبلک نہ ہونا اور ریفرنس ختم ہونے پر سوالیہ نشان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس خارج ہو تو صدر اور وزیر اعظم کو مستعفی ہونا چاہیے۔

امجد شاہ نے معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہنے کے بیان پر کہا کہ 'انہیں سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے، آئین اور قانون کی بات وکیل نہیں بتائے گا تو کون بتائے گا جبکہ فردوس عاشق اعوان بار کونسلز کے بارے میں اپنا بیان واپس لیں۔'

انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو بادشاہ والی سوچ نہیں اپنانی چاہیے، جب حکمرانوں کی سوچ بادشاہوں والی ہو جائے تو ایسے ریفرنس آتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے بھی اعلان کیا تھا کہ وکلا 14 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس پر سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں گے۔

امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جسٹس کے خلاف ریفرنس واپس نہیں لیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے باہر ریفرنس کی کاپیاں جلائیں گے اور ریفرنس کے دوران احتجاج کریں گے۔

ریفرنس کو سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریفرنس کے ذریعے بلوچستان کو چیف جسٹس کے عہدے سے محروم رکھنے کی سازش ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں بدنیتی واضح ہے۔

ججز کے خلاف ریفرنس

خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے صدارتی ریفرنس کی سماعت 14 جون کو مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینئر ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت 14 جون کو مقرر

صدر مملکت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس کے آغا پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزمات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو دو خطوط لکھے تھے اور پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہونے والے متوقع ججوں میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے، تو اس کی نقل فراہم کردی جائے، ’مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہورہا ہے‘۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

مزید پڑھیں: سینئر ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل احتجاجاً مستعفی

لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا مرتکب نہیں ہورہا۔

خط میں انہوں نے کہا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو آئین میں موجود لوگوں کے بنیادی حقوق کاغذ پر لکھے گئے الفاظ سے بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔

صدرِ مملکت کو لکھے گئے خط میں ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کا تقدس ان کی اولین ترجیح ہے۔

اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین ابراہیم نے حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بعض سینئر ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف حالیہ مہم نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے خلاف 6 فروری کو دیے گئے فیصلے میں سخت الفاظ استعمال کرنے بعد شروع ہوئی، جس میں انہوں نے وزارت دفاع، پاک فوج، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہان کو اپنے ماتحت، ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی، جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024