• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کے کارنامے

اس مضمون میں ہم نے پاکستان کی ماضی کے ورلڈ کپ مقابلوں میں کارکردگی کو اعدادو شمار کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کی ہے۔
شائع May 30, 2019 اپ ڈیٹ June 12, 2019

شائقین کرکٹ کا انتظار ختم ہوا اور کھیل کا سب سے بڑا عالمی میلہ سج گیا۔ 12واں ورلڈ کپ آج سے شروع ہو رہا ہے۔

افتتاحی میچ میزبان انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہوگا۔ اس بار ٹورنامنٹ کا فارمیٹ بڑا زبردست ہے اور آئی سی سی نے اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ کسی ایک خراب دن کی وجہ سے کوئی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر نا ہوجائے۔ ساری ٹیمیں لیگ اسٹیج پر باہم ایک ایک میچ کھیلیں گی۔

ٹاپ 10 ٹیموں کو شامل کرنے کے پیچھے بھی یہی منطق تھی کہ سارے مقابلے برابری کے ہوں اور کوئی یکطرفہ افئیر نا ہو۔ امید ہے کہ یہ ٹورنامنٹ مسابقت سے بھرپور ثابت ہوگا۔ کھیلوں کے عالمی منظرنامے پر مقبولیت کے اعتبار سے جس طرح کرکٹ کو فٹبال اور ٹینس سے مقابلہ درپیش ہے اس لیے یہ بہت ضروری ہوگیا تھا کہ ورلڈ کپ جیسا بڑا ٹورنامنٹ ہر دن کچھ نیا لے کر آئے۔

وارم اپ میچ ہوں یا اس سے پہلے کھیلی گئی چند سیریز، سبھی کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ خاص کر ویسٹ انڈیز کا انگلینڈ کے خلاف سیریز برابر کھیل جانا، آسٹریلیا کی انڈیا کے خلاف ان کے گھر میں فتح یا اچانک لے پکڑ لینے والی ویسٹ انڈیز کی موجودگی میں آئر لینڈ کی پچز پر سہہ ملکی سیریز میں بنگلہ دیش کی فتح۔

ٹیموں کی تیاری بھرپور ہے اور یہ ایک دوسرے کو کسی بھی دن ہرا سکتی ہیں۔ پاکستان کی حالیہ کارکردگی گو کہ زیادہ عمدہ نہیں، مگر چونکہ یہ ہماری اپنی ٹیم ہے اس لیے ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے، ویسے بھی ہمارے حالات معمولی فرق سے ایسے ہی رہے ہیں۔ فارم وغیرہ سے ہمیں کچھ خاص فرق بھی نہیں پڑتا۔ اس مضمون میں ہم نے پاکستان کی ماضی کے ورلڈ کپ مقابلوں میں کارکردگی کو اعدادو شمار کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کی ہے۔

ورلڈ کپ مقابلوں میں ہم کتنے اچھے کتنے بُرے؟

بطور ایک ٹیم دیکھا جائے تو 1992ء کے ورلڈ کپ کی فاتح پاکستانی ٹیم بہت زیادہ متاثرکن کھیل پیش نہیں کرسکی ہے۔ گزشتہ تمام 11 ایڈیشنز میں ہم نے مجموعی طور پر 71 میچز کھیلے ہیں جن میں سے صرف 40 فتوحات ہمارے ہاتھ آئی ہیں۔ 29 بار شکست ملی ہے اور 2 میچز بے نتیجہ رہے ہیں۔ مزے کی بات ہے یہ دونوں بے نتیجہ میچز ورلڈ کپ میں ہماری پیش رفت پر خاصے اثر انداز ہوئے تھے۔

پاکستان کی ہار جیت کا تناسب خاصا مایوس کن ہے، اس میں ہم 7ویں نمبر پر ہیں یعنی 8 بڑی ٹیموں میں سے صرف سری لنکا ہم سے نیچے ہے۔ ورلڈ کپ مقابلوں میں ہمارا سب سے بڑا اسکور 349 رنز رہا ہے۔ 2007ء میں یہ اسکور ہم نے خواب غفلت سے جاگنے کے فوراً بعد زمبابوے کے خلاف بنایا تھا۔ پاکستان ویسٹ انڈیز اور آئرلینڈ سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہوچکا تھا، کوچ باب وولمر خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے، شائقین دوہرے صدمے کا شکار تھے۔ اس میچ میں عمران نذیر نے شاندار 160 رنز بنائے تھے جو آج بھی پاکستان کی طرف سے بہترین انفرادی اسکور مانا جاتا ہے۔

کپتان انضمام الحق کے عظیم الشان کیرئیر کا یہ آخری میچ تھا، ایک شاندار کیرئیر جس کا عروج ورلڈ کپ سے شروع ہوا تھا اس کا انجام بھی ورلڈکپ پر ہوا۔ سب سے کم اسکور پاکستان نے 1992ء کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف بنایا تھا، اس میچ میں پاکستان کی ٹیم صرف 74 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی۔ تاہم یہ ایک بے نتیجہ میچ رہا۔ بارش زدہ میچ میں حاصل ہونے والا ایک پوائنٹ ہماری سیمی فائنل تک رسائی کو آسان بنا گیا تھا۔ اس میچ میں کپتان عمران خان موجود نہیں تھے۔

انضمام الحق اپنا آخری میچ کھیلنے کے بعد
انضمام الحق اپنا آخری میچ کھیلنے کے بعد

2003ء میں کھیلا گیا دوسرا بے نتیجہ میچ سعید انور کا آخری میچ ثابت ہوا تھا۔ اس میچ میں بھی پاکستان کو اگلے مرحلے میں کوالیفائی کرنے کے لیے تگڑا رن ریٹ درکار تھا، میچ بارش کی نذر ہوگیا اور یوں شائقین کی اذیت تمام ہوئی۔ اگر مگر ختم ہوئی اور ٹیم نے واپسی کے لیے سامان باندھا۔

انفرادی ریکارڈ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 1083 رنز جاوید میانداد نے بنائے ہیں۔ انہوں نے یہ رنز 6 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں 33 میچز کھیل کر بنائے۔

جاوید میانداد کے رنز تعداد ہی نہیں بلکہ معیار میں بھی زیادہ ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ رنز دنیا کے سب سے عمدہ باؤلرز کا سامنا کرتے ہوئے بنائے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 8 نصف سنچریاں بھی انہی کے بلے سے نکلی ہیں۔

1992 کے ورلڈ کپ کے دوران جاوید میانداد کا ایک انداز
1992 کے ورلڈ کپ کے دوران جاوید میانداد کا ایک انداز

مصباح الحق نے صرف 13 اننگز میں 7 نصف سنچریاں بنا رکھی ہیں، مصباح الحق کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے صرف 2 ٹورنامنٹس میں حصہ لیا اور دونوں بار ہی وہ پاکستان کی طرف سے ٹاپ اسکور جوڑنے والے کھلاڑی بنے۔

سعید انور ایک اسپیشل بلے باز تھے، ورلڈ کپ مقابلوں میں انہیں صرف 3 بار کھلایا گیا اور تینوں بار ہی وہ پاکستان کی طرف سے سب سے کامیاب بلے باز رہے۔ سعید انور نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ (مشترکہ) 3 سنچریاں بنا رکھی ہیں۔ انہوں نے صرف 21 باریاں کھیل کر 915 رنز بنائے جن میں ان کا اسٹرائیک ریٹ بھی 79 رہا جو اپنے وقت کے لحاظ سے شاندار کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 90 چوکے بھی انہوں نے لگا رکھے ہیں۔

ویسے تو رمیز راجا پر اکثر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اچھی انگلش اور فیملی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے اپنی قابلیت سے زیادہ کھیل گئے مگر ورلڈ کپ مقابلوں میں ان کی کارکردگی بہت اعلیٰ رہی ہے۔ انہوں نے 16 باریاں کھیل کر 3 سنچریوں سمیت 700 رنز بنائے، ورلڈ کپ 1992ء میں پاکستان کی شاندار فتح میں ان کی بلے بازی کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔

رمیز راجہ، سعید انور اور مصباح الحق
رمیز راجہ، سعید انور اور مصباح الحق

پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 12 چھکے شاہد آفریدی نے لگا رکھے ہیں۔

شائقین کرکٹ کے لیے سب سے چونکا دینے والے اعداد و شمار انضمام الحق کے ہیں۔ انہیں پاکستان کے 5 بڑے بلے بازوں میں شمار کیا جاسکتا ہے لیکن ورلڈ کپ مقابلوں میں ان کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں۔ انہوں نے 35 مقابلوں کی 33 باریوں میں صرف 23.9 کی اوسط سے 717 رنز بنائے۔ ایک بڑے بلے باز کی طرف سے یہ کارکردگی کسی طور بھی قابلِ اطمینان نہیں کہی جاسکتی۔

بلے بازی کی بات چل رہی ہے تو یہاں ایک اور قابلِ ذکر بات بتاتا چلوں کہ موجودہ کرکٹ ٹیم میں صرف سرفراز احمد وہ بلے باز ہیں جنہوں نے ورلڈ کپ مقابلوں میں سنچری بنا رکھی ہے۔ ان کے علاوہ شعیب ملک، حارث سہیل، محمد حفیظ اور وہاب ریاض وہ دوسرے کھلاڑی ہیں جنہوں نے 50 یا اس سے زیادہ رنز اسکور کر رکھے ہیں۔

گیند بازی میں ہمارے کمالات

گیند بازی میں پاکستان کے کامیاب ترین کھلاڑی وسیم اکرم رہے ہیں، انہوں نے 38 میچز کی 36 باریوں میں 55 وکٹیں حاصل کیں۔ وسیم اکرم 1992ء کے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں 18 وکٹیں لے کر کامیاب ترین باؤلر بنے تھے۔ وسیم اکرم 2 بار کسی ورلڈ کپ میں بہترین پاکستانی باؤلر کا اعزاز حاصل کرنے والے (عمران خان کے بعد) دوسرے کھلاڑی ہیں۔ دوسرے نمبر پر عمران خان ہیں جنہوں نے 28 میچز کی صرف 19 باریوں میں 34 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ شاہد آفریدی کو بطور باؤلر خاصا انڈراسٹیمیٹ کیا جاتا ہے حالانکہ ورلڈکپ میں ان کی کارکردگی کئی سارے اسپیشلسٹ باؤلرز سے بہتر ہے۔ 24 باریوں میں انہوں نے 30 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں، وہ جدید کرکٹ کھیلے ہیں اس لحاظ سے ان کا باؤلنگ اکانومی ریٹ 4.50 بھی کمال ہے۔

وسیم اکرم —رائٹرز
وسیم اکرم —رائٹرز

وہ واحد پاکستانی باؤلر ہیں جنہوں نے کسی ایک میچ میں 5 وکٹوں کا کارنامہ 2 بار انجام دیا ہے۔ 2 بار ہی انہوں نے 4 وکٹوں کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔ کسی ایک ایونٹ میں اب تک سب سے بہترین پاکستانی باؤلنگ کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے۔ 2011ء کے ورلڈ کپ میں انہوں نے 21 وکٹیں حاصل کی تھیں، اس ورلڈ کپ میں وہ ظہیر خان کے ساتھ مشترکہ طور پر بہترین باؤلر بھی قرار پائے تھے۔ کسی ایک میچ میں انفرادی طور پر بہترین پاکستانی باؤلنگ کا اعزاز بھی آفریدی ہی کے پاس ہے۔ 2011ء میں کینیا کے خلاف انہوں نے 16 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ پاکستان کا نام ہمیشہ فاسٹ باؤلنگ کی وجہ سے اونچا رہا ہے لیکن جب بات ورلڈ کپ کی آتی ہے تو یہاں لیگ اسپنرز چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

1992 کے ورلڈکپ میں مشتاق احمد کا کردار کون بھول سکتا ہے۔ اپنے ورلڈ کپ کیرئیر میں 15 میچز کی 14 باریوں میں انہوں نے 26 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک مکمل لیگ اسپنر کی طرح وہ وکٹ ٹیکر تھے جس کا ثبوت ان کا شاندار 31 کا سٹرائیک ریٹ ہے۔ جدید لیگ اسپن کے بانی عبدالقادر نے بھی 13 میچز میں 24 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ یہ اعدادوشمار اتنا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان کی فتوحات میں فاسٹ باؤلرز کے ساتھ لیگ اسپنرز کا بھی بہت عمل دخل رہا ہے۔ اس بار شاداب سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ میچ پریکٹس کی کمی آڑے نا آئی تو وہ اس درخشاں ریکارڈ کو آگے لے کر چلیں گے۔

عبدالقادر، مشتاق احمد ار شاہد آفریدی
عبدالقادر، مشتاق احمد ار شاہد آفریدی

فیلڈنگ کا شعبہ

پاکستان کے سب سے کامیاب فیلڈر کا اعزاز بھی دلچسپ طور پر ایک ایسی شخصیت کے پاس ہے جنہیں سست مزاج کہا جاتا ہے، جی ہاں انضمام الحق۔ انہوں نے 16 کیچ پکڑ رکھے ہیں۔ بطور وکٹ کیپر سب سے بہترین کارکردگی معین خان نے دکھائی ہے انہوں نے 30 شکار کر رکھے ہیں جن میں سے 7 اسٹمپ ہیں، یوں اسٹمپ کی سب سے زیادہ تعداد بھی ان کے نام ہے۔

پارٹنرشپ

پاکستان کی طرف سے سب سے بڑی 184 رنز کی پارٹنرشپ 1999ء ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں سعید انور اور وجاہت اللہ واسطی کے درمیان بنی تھی۔ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کو سب سے بڑی فتح 2011ء کے ورلڈ کپ میں کینیا کے خلاف حاصل ہوئی تھی کہ جب فتح کا مارجن 205 رنز رہا تھا۔

اسٹینڈ آؤٹ پرفارمر ’عمران خان‘

اب آتے ہیں ورلڈ کپ مقابلوں میں سب سے قیمتی پاکستانی کھلاڑی کی طرف۔ بطور آل راؤنڈر جنہوں نے اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑھے اور پاکستان کی فتوحات میں پیش پیش رہے، وہ شخصیت ہیں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان۔

عمران خان نے بطور بلے باز پاکستان کی طرف سے 666 رنز بنائے۔ یہ تمام رنز انہوں نے ٹیم کی ضرورت کے مطابق بنائے۔ ون ڈاؤن پوزیشن سے لے کر نمبر 9 تک جہاں ٹیم کو ضرورت ہوئی انہوں نے ہاتھ کھڑا کیا۔ چاہے وہ 1979ء کے ورلڈ کپ میں 9ویں نمبر پر (کپتان آصف اقبال کے ساتھ مل کر) کھیلی جانے والی 82 گیندوں پر 21 رنز کی اننگز ہو یا پھر 1992 ورلڈ کپ فائنل میں ون ڈاؤن پر 72 رنز کی میچ وننگ اننگز۔ اس حوالے سے کپتان اپنے معاصر تینوں بڑے آل راؤنڈرز سے ممتاز ہے، کھیل پر اس زمانے میں 4 بڑے آل راؤنڈرز کا راج تھا جنہیں بگ فور کہا جاتا ہے۔ آئن بوتھم، کپل دیو، رچرڈز ہیڈلی اور عمران خان۔ آئن بوتھم اور رچرڈز ہیڈلی کو تو سر کا خطاب بھی مل چکا ہے۔ آئن بوتھم 1992ء کے ورلڈ کپ میں بطور اوپنر بھی آتے رہے ہیں۔

عمران خان
عمران خان

باؤلنگ میں کپتان مزید بہتر تھے، انہوں نے 34 وکٹیں صرف 19 باریوں میں حاصل کیں۔ 2 ورلڈ کپ مقابلوں میں تو کپتان پاکستان کی طرف سے سب سے بہترین باؤلر بھی قرار پائے۔ 1975ء میں کھیلے گئے سب سے پہلے ورلڈکپ میں پاکستان کی طرف سے عمران خان سب سے کامیاب باؤلر تھے۔ 1987ء میں اپنی شاندار باؤلنگ کی وجہ سے پاکستان کو سیمی فائنل تک بھی پہنچایا۔ سیمی فائنل میں گو کہ پاکستان ہار گیا تھا تاہم عمران خان نے اس میچ میں بھی 36 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ بعد میں جب 268 کے تعاقب میں صرف 38 پر 3 پاکستانی بلے باز پویلین لوٹ چکے تھے تو کپتان اور میانداد نے 112 رنز کی پارٹنرشپ بنائی تھی جس میں عمران خان کے 58 رنز شامل تھے۔ عمران خان ورلڈ کپ مقابلوں میں 500 سے زائد رنز اور 30 سے زائد وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں۔

مندرجہ بالا اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد ہم یہ بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ ٹیم کے پاس کرنے کو بہت سارا کام ہے۔ ہمیں اپنا ریکارڈ بہتر بنانا ہے، یوں سمجھیں کہ کھیل کا سارا نصاب نئے سرے سے لکھنا ہوگا۔

گزشتہ دونوں سیریز میں ٹیم وائٹ واش ہوئی ہے لیکن ان دونوں سیریز میں کافی سارے تجربات بھی کیے گئے ہیں جن کے نتیجے ایک متوازن ٹیم تیار کرنے میں مدد ملی ہے۔ فارمیٹ ہمارے جیسی متلون مزاج ٹیم کو کافی سوٹ کرتا ہے کیونکہ ہم مسلسل اچھا کم ہی کھیلتے ہیں۔ اسی لیے 3 یا 4 غلطیوں کی گنجائش دیکھ کر دل کو تسلی سی ہوتی ہے کہ ہم سیمی فائنل میں پہنچ سکتے ہیں۔ بہرحال جیسی بھی ٹیم ہے، اپنی ہے لہٰذا ہمیں اسے سپورٹ کرنا ہے۔ کرکٹ پاکستان کو متحد رکھتی ہے اور اس سے ملنے والی خوشی ہماری سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے سو امید اور دعا کے ساتھ پاکستان زندہ باد!


محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔

محسن حدید

محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔