علی وزیر 8 روز کیلئے 'سی ٹی ڈی' کے حوالے
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 8 روز کے ریمانڈ پر محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی تحویل میں دے دیا گیا۔
علی وزیر کو بنوں کی انسداد دہشت گردی عدالت کے خصوصی جج کے روبرو پیش کیا گیا جنہوں نے انہیں سی ٹی ڈی کی تحویل میں دینے کے احکامات دیئے۔
بعد ازاں علی وزیر کو بنوں سے پشاور منتقل کیا گیا جہاں ان سے مقدمے کی تفتیش کی جائے گی، جس میں ان کے علاوہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور دیگر 7 افراد بھی نامزد ہیں۔
ان افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے سیکشن 7 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 324، 353، 120 بی اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
قبل ازیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور گورنر شاہ فرمان نے شمالی وزیرستان میں قبائلی عمائدین کے علاوہ سول و عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔
دوسری جانب گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کے خلاف شمالی وزیرستان میں احتجاج کیا گیا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے اپنے بیان میں زیر حراست علی وزیر اور دیگر افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
کمیشن کی جانب سے معاملے کی سچائی سامنے لانے کے لیے فوری پارلیمانی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا تھا۔
پیر کی صبح پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان میں کہا گیا کہ شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں خرقمر چیک پوسٹ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے سے گولیاں لگی 5 لاشیں برآمد کی گئیں۔
مزید پڑھیں: چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک سپاہی شہید، آئی ایس پی آر
سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ
واضح رہے کہ گزشتہ روز بویا سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ایک گروہ نے محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 5 فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق خرقمر چیک پوسٹ پر حملے کا مقصد گذشتہ روز گرفتار کیے جانے والے مبینہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ چیک پوسٹ میں موجود اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس پر اہلکاروں نے تحفظ کے لیے جواب دیا۔
پاک فوج کے مطابق چیک پوسٹ پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں 5 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں 3 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 10 زخمی ہوئے۔
بیان میں کہا گیا کہ تمام زخمیوں کا آرمی کے ہسپتال میں علاج جاری ہے۔
پاک فوج نے بتایا کہ واقعے کے بعد علی وزیر سمیت 8 افراد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ محسن جاوید داوڑ ہجوم کی آڑ میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
تاہم وائس آف امریکا دیوا سے بات کرتے ہوئے محسن داوڑ نے ان کی جانب سے فائرنگ کے آغاز کے الزام کو مسترد کردیا اور آرمی پر کشیدگی کے آغاز کا الزام لگایا۔