ڈزنی نے اپنی انیمیٹڈ فلم الہ دین کو حال ہی میں لائیو ایکشن فلم کے طور پر دنیا بھر میں ریلیز کیا ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے سے لے کر جادوئی چراغ کے مالک بن جانے والے الہ دین درحقیقت ایک حقیقی شخصیت سے متاثر ہے؟
اس کہانی کی تاریخ کافی دلچسپ ہے اور مختلف ماہرین نے الہ دین کہانی کی تاریخ پر تحقیق کی۔
الہ دین کی اصل کہانی کتنی پرانی ہے؟
گزشتہ صدی میں الہ دین کی کہانی کا کریڈٹ اکثر انتونی گالانڈ کو دیا جاتا تھا جو کہ 17 صدی میں قسطنطنیہ میں فرانسیسی سفیر کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے تھے۔
انہوں نے فرنچ زبان میں ایک انسائیکلوپیڈیا Bibliothèque Orientale پر کام کیا تھا اور وہ پہلے یورپی مترجم تھے جنہوں نے الف لیلیٰ کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا، جس کے بعد اس کے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے اور اردو میں یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ ہوئی۔
کولمبیا یونیورسٹی سے تعقل رکھنے والے عربی و تقابلی اسٹڈیز کے پروفیسر محسن جے الموسوی کے مطابق الف لیلیٰ 14 ویں صدی کے آخر کے عرب کہانیوں کے نامکمل مجموعے کا نام تھا جس میں بعد ازاں مختلف تراجم میں متعدد کہانیوں کا اضافہ ہوا۔
1704 سے 1706 کے درمیان انتونی گلانڈ نے ہزار داستان کی 7 کتابیں شائع کیں جس میں 282 راتوں کی 40 کہانیاں کا احاطہ کیا گیا۔
مگر یہ وہ کہانیاں ہیں جو قرون وسطیٰ سے تعلق رکھتی تھیں، حقیقت تو یہ ہے کہ الہ دین کی داستان اتنی زیادہ پرانی نہیں کیونکہ 1712 میں انتونی گالانڈ کی جانب سے اس کی اشاعت کے بعد محققین اس کہانی کا قدیم قلمی نسخہ دریافت نہیں کرسکے۔
انتونی گالانڈ نے یہ داستان اپنی ڈائری میں اس وقت لکھی جب انہوں نے 8 مئی 1709 کو حلب میں ایک شامی داستان گو آنطون یوسف حنا دیاب سے اسے سنا تھا۔
1709 تک انتونی گالانڈ نے الف لیلیٰ کے اصل مگر نامکمل قلمی نسخے کی تمام کہانیوں کا ترجمہ کرلیا تھا اور وہ باقی کی تلاش کررہے تھے۔
2018 میں شائع ہونے والی مارولیس تھیویز : سیکرٹ آتھرز آف دی عربین نائٹس کے لکھاری پاﺅلو لیموس ہورتا کے مطابق 'جب گالانڈ عربی قلمی نسخے سے تمام کہانیوں کا ترجمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کے پبلشر نے 8 ویں کتاب (1709) میں ایک ترک مجموعے کو شامل کیا تاکہ مزید کہانیوں کے لیے عوامی طلب کو پورا کیا جاسکے، اس بات نے گالانڈ کو مشتعل کردیا اور انہوں نے مزید کتابوں کے لیے داستانوں کو جمع کرنے کا کام تیز کردیا'۔
مزید سراغ کی تلاش میں انتونی گالانڈ نے اپنے دوست پال لوکاس کے اپارٹمنٹ پہنچے جو پیرس اور مشرق وسطیٰ کے درمیان سفر کرکے ہیرے جواہرات اور دیگر نوادرات لاتے رہتے تھے۔
وہاں انتونی کی ملاقات پہلی بات حنا ذیاب سے 25 مارچ 1709 میں ہوئی۔
جب انتونی گالانڈ نے اس شامی شخص سے پوچھا کہ وہ الف لیلیٰ کی کہانیوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو دیاب نے جواب دیا ہے کہ ہاں وہ جانتے ہیں۔
اس کے بعد کئی ملاقاتوں میں حنا دیاب نے گالانڈ کو الہ دین کی کہانی سنائی جبکہ مزید دیگر مشہور داستانیں جیسے علی بابا اور چالیس چور بھی سنائی۔
یہ سب داستانیں 9 ویں کتاب میں شائع ہوئیں، مجموعی طور پر انتونی گالانڈ نے الف لیلی پر 12 کتابیں شائع کیں اور یہ کام 1717 میں مکمل ہوا۔
ماہرین عرصے سے جانتے ہیں کہ حنا دیاب نے ہی الہ دین کی کہانی انتونی گالانڈ کے حوالے کی مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ خود حنا دیاب نے یہ کہانی کب پہلی بار سنی تھی۔
پاﺅلو لیموس ہورتا کے مطابق 'ہم نہیں جانتے کہ دیاب نے اس کہانی کو حلب یا پیرس تک اپنے سفر کے دوران دیگر داستان گو افراد سے سن کر اس کہانی کو مزید کس طرح بہتر بنایا یا انہوں نے کسی سے یہ پوری کہانی اسی شکل میں سنی اور کسی قلمی نسخے میں محفوظ کرلی یا انہوں نے اس کہانی کا گمشدہ نسخہ ڈھونڈا اور پھر گالانڈ کے حوالے کردیا'۔
الہ دین کی کہانی کیسے وجود میں آئی؟
محققین الہ دین کی کہانی مختلف مقامات کا مکسچر دیکھتے ہیں جیسے ڈزنی کی نئی فلم میں سلطان کا محل برمی مندر سے متاثر ہے، گالانڈ کی الہ دین کی کہانی چین کی تھی مگر اس میں جو کردار اور دنیا دکھائی گئی وہ چین سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
پاﺅلو ہورتا کے مطابق 'یہ کردار ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہیں، پھر جس طرح ایک جن چراغ سے باہر آتا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ کہانی عربی کی ہے'۔
کیمبرج یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز سینٹر کے ریسرچ ایسوسی ایٹ عرفات اے رزاق یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ قدیم عربی وضاحتوں میں چین کو ایک دور دراز کے ملک طور پر پیش کیا جاتا تھا، الہ دین کی کہانی کی ابتدائی برطانوی داستان میں بھی چینی عناصر موجود ہیں، جس سے اس خطے کی کشش سے برطانیہ کے متاثر ہونے کی عکاسی ہوتی ہے، یہ وہ وقت تھا جب برطانوی وہاں افیون کے خلاف جنگیں لڑ رہے تھے۔
ڈزنی کی 1992 کی انیمیٹڈ فلم میں الہ دین کی کہانی کو پہلے عراق کے دارالحکومت بغداد میں بیان کیا جانا تھا مگر پھر فلم سازوں نے مقام بدل دیا، فلم کے ڈائریکٹرز میں سے ایک جان مسکر کے مطابق 'ہم نے پہلے بغداد کے بارے میں ہی سوچا تھا اور پھر وہاں پہلی گلف وار ہوئی، جس کے بعد روئے ڈزنی نے کہا کہ یہ بغداد نہیں ہوسکتا، تو ہم نے اگربا (Agrabah) کو چن لیا'۔
کیا الہ دین کا کردار حقیقی شخصیت سے متاثر ہے؟
اس کہانی کے تمام تر افسانوی پہلوﺅں سے قطع نظر ماہرین کا اب ماننا ہے کہ اس کا مرکزی کردار درحقیقت ایک حقیقی شخص کے حقیقی تجربات پر مبنی ہے۔
عرفات اے رزاق کہتے ہیں 'اب الہ دین کے پیچھے موجود شخص کے بارے میں کافی تحقیق ہورہی ہے'۔
بیشتر ماہین کے مطابق یہ حقیقی شخصیت کوئی اور نہیں خود حنا دیاب کی ہے۔
اگرچہ انتونی گالانڈ نے الف لیلی کے اپنے تراجم میں حنا دیاب کو کوئی کریڈٹ نہیں دیا، مگر دیاب نے خود بہت کچھ لکھا جیسے 18 ویں صدی کے وسط میں ایک سفرنامے میں انہوں نے الہ دین کی کہانی گالانڈ کو سنانے کا ذکر کیا۔
تاریخ دان جیروم لینٹین نے 1993 میں ویٹیکن کی لائبریری میں اس دستاویز (حنا دیاب کا سفرنامہ) ڈھونڈا تھا مگر اب حالیہ عرصے میں اسے زیادہ مقبولیت اس وقت ملی جب جیروم لینٹین اور ان کے ساتھی برنارڈ ہے برجر نے 2015 میں اس کا فرانسیسی ترجمہ کیا جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ 2020 تک شائع ہونے کا امکان ہے۔
اپنی اس سوانح میں حنا دیاب نے اپنی مشکلات میں گزرنے والے بچن کا ذکر کیا اور یہ بتایا کس طرح وہ فرانسیسی بادشاہ کے محل تک پہنچے، جو وضاحت انہوں نے اس سفرنامے میں کی ہے وہ اس پرتعیش محل سے کافی ملتی جلتی ہے جو گالانڈ کی الہ دین کہانی کے ورژن میں موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محققین کا ماننا ہے 'الہ دین ممکنہ طور پر ایک حلب سے تعلق رکھنے والے نوجوان عرب ہوسکتا ہے جو جوہرات سے کھیلنے کے ساتھ شاہی محلوں تک پہنچا'۔
اور یہ اس کہانی کی تاریخ میں نمایاں تبدیلی ہے کیونکہ 300 برس سے ماہرین کا خیال تھا کہ الہ دین ممکنہ طور پر فرانسیسی پریوں کی داستان سے متاثر ہوسکتا ہے جو اسی زمانے میں سامنے آئی تھی یا یہ کہانی 18 ویں صدی کے فرانس کی مشرق کی کشش کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔
مگر یہ خیال کہ حنا دیاب کی زندگی پر الہ دین کی کہانی کو لکھا گیا، جس میں ایک مشرق وسطیٰ کے رہائشی کا سامان فرنچ سے ہوا، نے تاریخ کو بدل دیا ہے۔
پاﺅلو ہورتا کے مطابق 'یہ ذہن گھما دینے والی تبدیلی ہے کہ الہ دین کی کہانی ایک 60 سالہ فرانسیسی معلم اور مترجم کے ذہن کا خیال نہیں بلکہ اس کا جنم حلب کے 20 سالہ مسافر کی داستان گوئی اور زندگی کے تجربات سے ہوا، دیاب نے مشرق اور مغرب کو اس کہانی میں ملادیا، یعنی اپنے آبائی وطن کی داستان گوئی کی روایات کا امتزاج 18 ویں صدی کے فرانس میں ہونے والے مشاہدات سے کیا'۔
انہوں نے مزید کہا 'حنا دیاب خود ایک متوسط پس منظر سے تعلق رکھتے تھے اور زندگی میں اسی طرح آگے بڑھنا چاہتے تھے جیسا الہ دین کی کہانی میں بیان ہوا، وہ ایک مارکیٹ اسٹال چاہتے تھے اور الہ دین کی کہانی میں بھی اس کے انکل اسے ایک دکان لگا کر دینے کا وعدہ کرتے ہیں تاکہ اچھی زندگی گزار سکے۔ لڑکپن میں دیاب نے ایک بڑی تاجر کمپنی کے معاون کے طور پر کام کیا مگر اسے برطرف کردیا گیا، جس سے اس کی حلب میں کپڑے کی منافع بخش تجارت میں کامیابی کے خواب سے دستبردار ہونا پڑا'۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آبائی شہر کو چھوڑ کر چلے گئے اور کہیں ان کی ملاقات پال لوکاس سے ہوئی، دیاب اس وقت حلب واپس آئے جب دیاب نے انہیں فرانسیسی بادشاہ کی لائبریری میں عربی نسخوں کی دیکھ بھال کی پوزیشن دینے کا وعدہ پورا نہیں۔
حلب میں دیاب کی زندگی ادھیڑ عمری کی زندگی کامیاب گزری کیونکہ وہ اس شہر میں ایک بڑا گھر لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔